ہیلی VI ریسرچ اسٹیشن دنیا کا پہلا متحرک تحقیقی مرکز

جدید ترین ریسرچ سینٹر میں ارضی مقناطیسی میدان کا مطالعہ کیا جائے گا۔

جدید ترین ریسرچ سینٹر میں ارضی مقناطیسی میدان کا مطالعہ کیا جائے گا۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
دیکھنے میں یہ مشہور زمانہ ٹیلی ویژن سیریز '' اسٹار وارز'' کا کوئی خلائی جہاز لگتا ہے جس نے زمین پر کریش لینڈنگ کی ہو۔

آپ کو اس پر ریل گاڑی کا شبہ بھی ہوسکتا ہے۔ تاہم حقیقت میں یہ جدید ترین ڈیزائن اور ٹیکنالوجی کا حامل برطانوی تحقیقی مرکز ہے جو بحر منجمد جنوبی میں موجود ہے۔ اس تحقیقی مرکز کو ''ہیلی VI ریسرچ اسٹیشن'' کہا جاتا ہے۔ ہیلی VI دنیا کا پہلا متحرک تحقیقی مرکز ہے۔ بحر منجمد جنوبی میں تیز ہواؤں کے ساتھ برف باری کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ایسے مقام پر تعمیرات بہ تدریج برف میں دب جاتی ہیں اور چوں کہ برف پگھلنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا اس لیے ان کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے۔ ماضی میں کئی تحقیقی مراکز برف کی قبر میں دفن ہوچکے ہیں۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ متحرک تحقیقی مرکز تعمیر کیا گیا ہے۔

برٹش انٹارکٹک سروے کے مطابق یہ تحقیقی مرکز بحر منجمد جنوبی کے اس علاقے میں موجود ہے جسے '' برنٹ آئس شیلف'' کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ تحقیقی مرکز پہلے سے موجود ریسرچ سینٹر ''ہیلی V '' کی جگہ لے گا۔ یہ علاقہ منجمد سمندر کے کنارے سے دس میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ تحقیقی مرکز چار پاؤں والے آٹھ ڈبے نما کمروں یا ماڈیولز پر مشتمل ہے جنھیں ریل گاڑی کے ڈبوں کی طرح ایک دوسرے منسلک کیا گیا ہے۔

ایک ڈبے سے دوسرے میں جانے کے لیے ان کے درمیان راہ داری بھی موجود ہے۔ تحقیقی مرکز کا ایک کمرا یا ماڈیول سماجی سرگرمیوں کے لیے مخصوص ہے۔ اس میں کھانے کا کمرا، بار اور جم بنایا گیا ہے۔ ہیلی VI میں پانی اور فضلے کی نکاسی کا معقول انتظام ہے۔ ماڈیولز کے پاؤں یا ستونوں کی اونچائی 13 فٹ ہے۔ یہ بلندی اس علاقے میں ہونے والی سالانہ برف باری سے بھی کئی فٹ زیادہ ہے۔


ہیلی VI کے عملے کی تعداد ضرورت کے لحاظ سے 16 سے 52 کے درمیان ہوگی۔ گرمیوں میں جب موسم قدرے بہتر ہوتا ہے تو تحقیقی مرکز پر پورا عملہ کام کرے گا جب کہ سردیوں میں جب تین ماہ تک تاریکی چھائی رہتی ہے اور درجۂ حرارت منفی 56 ڈگری سیلسیس تک گرجاتا ہے تو عملے کی تعداد 16 تک محدود ہوجائے گی۔ تحقیقی مرکز کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کی ضرورت پیش آنے کی صورت میں تمام ماڈیولز کو ایک دوسرے سے جدا کردیا جائے گا۔

ہیلی VI کی تعمیر پر کام کا آغاز کوئی بارہ برس پہلے ہوا تھا۔ پہلے مرحلے میں انجنیئروں کو جدید ترین لیبارٹری اور رہائشی سہولیات کا ڈیزائن تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی جو شدید ترین سرد موسم کے اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ ماہرین تعمیرات کو اس ڈیزائن کی تیاری میں آٹھ برس لگے۔ ہیلی VI کی تعمیر چار سال سے زائد عرصے میں مکمل ہوپائی، کیوں کہ قطب جنوبی کے موسم گرما میں بھی انجنیئرز صرف نو ہفتے تک کام کرسکتے تھے۔ تحقیقی مرکز کی تعمیر پر آنے والی لاگت 26 ملین پاؤنڈز تھی۔

'' برنٹ آئس شیلف'' پر تعمیر کیا گیا یہ چھٹا تحقیقی مرکز ہے۔ '' برنٹ آئس شیلف'' کا علاقہ ارضی مقناطیسی میدان اور کرہ ہوائی کے مطالعے کے لیے ایک قدرتی لیبارٹری کی حیثیت رکھتا ہے۔ 1985ء میں اسی علاقے میں واقع تحقیقی مرکز نے اوزون کی تہہ میں ہونے والے سوراخ کی نشان دہی کی تھی۔

برٹش انٹارکٹک سروے کے اہل کار پروفیسر ایلن راجر کہتے ہیں کہ '' برنٹ آئس شیلف'' پر واقع تحقیقی مراکز نے دنیا اور اس میں سرگرم عمل مختلف نظاموں کی تفہیم میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ گلوبل وارمنگ کے بارے میں شعور بیدار کرنے میں بھی انھی مراکز پر ہونے والی تحقیق کا بنیادی کردار رہا ہے۔
Load Next Story