حجامت میں دلربانہ مداخلت
خلیفہ نے ڈسٹر نزدیک رکھ لیا جیسے وہ کوئی اسلحہ ہو۔دلربا نے توقف کیا۔
خط بہت بڑھ گیا تھا چنانچہ پوتیاں اور نواسیاں مجھ سے خوف کھانے لگی تھیں۔ گھر میں پلا ہوا کتا بھی بعض اوقات غرانے لگتا تھا۔ بلی خوف سے کونے کھدرے میں چھپ جایاکرتی تھی۔ ڈر تو ایک بار میں بھی گیا جب میں نے اتفاقاً آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ لیا۔ لہٰذا طے یہ پایا کہ میں حجامت بنوا لوں تو سب کو خوف سے نجات مل جائے گی۔
بارش کا موسم تھا اور مکھیوں کی بہتات تھی۔ میں ہیر کٹنگ سیلون میں داخل ہوا تو پنکھے چل رہے تھے۔ مکھیاں بھنبھنا رہی اوربلیاں فرش پر لوٹیں لگا رہی تھیں۔ پتہ چلا کہ پالتو ہیں۔ میں خلیفہ کے اشارے پر ایک خالی کرسی پر بیٹھ گیا تو ایک بلی بھی آکر قدموں میں بیٹھ گئی۔''کیوں میاں خلیفہ، یہ بلیاں یہاں کیا کر رہی ہیں؟''
''گاؤں گوٹھ سے جو لڑکے آتے ہیں اپنا ہاتھ یہاں صاف کرتے ہیں۔''
''کس چیز سے صاف کرتے ہیں؟''
''میرا مطلب ہے کہ یہاں حجامت کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔''
''ان کا بلیوں سے کیا تعلق؟ وہ گاؤں سے بلیاں ساتھ لاتے ہیں؟''
''جی نہیں۔ یہاں تربیت حاصل کرنے کے دوران کبھی کبھی اناڑی پن میں ان کا ہاتھ بہک جاتا ہے تو گاہک کا کان بھی کٹ جاتا ہے۔''
''اچھا تو پھر؟''میں نے سہم کر پوچھا۔
''اس موقعے پربلیاں وہی کچھ کرتی ہیں جو انھیںکرنا چاہیے۔''
''یعنی؟''
''ہڑپ کر جاتی ہیں۔'' اس نے اطمینان سے جواب دیا اور میرے منہ پر صابن ملنے لگا۔
مگر میرا اطمینان رخصت ہوچکا تھا۔اضطراب کی ایک لہر تھی جو اندر ہی اندر کروٹیں لینے لگی تھی۔ صابن رگڑنے کے بعد خلیفہ جی نے استرا اٹھاکرگردن پر رکھا تو میری روح فنا ہوگئی۔میں نے پوچھا۔''تم گاؤں سے کب آئے تھے؟''
''جی کافی دن ہوگئے۔اب ہاتھ صاف ہوچکا ہے۔آج کل گاہکوں کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ پچھلے سال غلطی سے تین کان ...''
میری ٹانگیں کانپنے لگیں۔''رہنے دو، خط میں پھر کبھی بنوا لوں گا۔''
''حاجی صاحب! بے فکر رہیے۔میں قینچی سے کاٹ دوں گا۔''
''بات تو ایک ہی ہے۔ چاہے استرے سے کاٹو یا قینچی سے۔کان سے بے کان تومجھے ہوناہے۔''
''میرامطلب ہے کہ قینچی سے بال کاٹ دوں گا۔'' اس نے مکھی ہٹاتے ہوئے کہا۔ وہ ناہنجار معلوم نہیں کہاں سے آگئی اور خلیفہ کے سر پہ منڈلانے لگی۔''بھیں بھیں بھیں''اس نے اپنا راگ الاپا اور خلیفہ کے کان میں گھسنے لگی۔خلیفہ نے جھنجلا کر اپنا ہاتھ یوں لہرایا جیسے مکھی کے کئی ٹکڑے کر کے رکھ دینا چاہتا ہو۔میرادایاں کان کٹتے کٹتے بچاکیونکہ استرا کئی بار کان کے قریب سے گزرا تھا۔''مجھے دلربا کہتے ہیں''مکھی نے اٹھلا کراپنا تعارف کرایا اور میری ناک پر آکربیٹھ گئی۔
خلیفہ نے استرا کاؤنٹر پر رکھ دیا اور ڈسٹر اٹھا لیا۔ پھر ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اشارہ کیا کہ میں اپنی جگہ پر ساکت رہوں۔ چند لمحوں بعدڈسٹر آواز کے ساتھ میرے منہ پر پڑا۔دلبر نے راہ فرار اختیار کی۔ میرے منہ پر چونکہ صابن لگا تھا،اس لیے وہ اس میں لتھڑ گیا۔خیر مجھے کیا،میرے کان اور ناک توسلامت رہ گئے تھے۔
خلیفہ نے ڈسٹر نزدیک رکھ لیا جیسے وہ کوئی اسلحہ ہو۔دلربا نے توقف کیا۔اس کے بعد اپنی خبیثانہ آواز کے ساتھ پھر ہمارے سروں پر منڈلانے لگی۔خلیفہ کا ہاتھ میرے چہرے پر چل رہا تھا۔وہ احتیاط برت رہا تھا کہ کوئی ''خونی حادثہ'' پیش نہ آئے۔یکبارگی دلبر ادائے دلبرانہ سے دائرے میں گھومی اور خلیفہ کے اسی ہاتھ پر بیٹھ گئی جس سے وہ شیو بنا رہا تھا۔ خلیفہ نے جذباتی انداز میں ہاتھ چلایا تو میرے چہرے پر چرکا لگ گیا اور خون بہنے لگا۔خلیفہ نے استرا کاؤنٹر پر رکھ دیااور پھٹکری اٹھا کر میرے ز خم پر مل دی۔
میں کانپ گیا اس لیے کہ سوزش اور جلن کی ٹیسیں میرے رخسار سے اٹھنے لگی تھیں۔دلبر بھیں بھیں بھیں کرتی ہوئی ہمارے سروں پر منڈلانے لگی ۔خلیفہ طیش میں آگیا۔اس نے ڈسٹر اٹھا کر گھمایا تو دلبر فوراً ہی اڑ گئی اور کاؤنٹر پر رکھا ہوا سامان آواز کے ساتھ فرش پر گر پڑا۔جس میں صابن کی پیالی،کنگھا اور برش شامل تھے۔ سامنے لگا ہوا شیشہ ٹوٹتے ٹوٹتے بچا۔ قینچی البتہ اڑ کر میری طرف آئی ۔میں فوراً ہی ہاتھ آگے نہ کر دیتا تو وہ میری ناک میں داخل ہوجاتی۔
خلیفہ نے جلدی سے سامان سیٹ کیا پھر تیز گام کی طرح اپنا ہاتھ چلانے لگا۔میں نے محسوس کیا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے ہیں(غصے سے )اس کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ دلربا کی ہڈیاں اور پسلیاں ایک کر دیتا(اگر یہ چیزیں کسی مکھی میں ہوتیں تو)خلیفہ نے میرے کہنے پر داڑھی قدرے تراش دی، مگر اس کے ہاتھ میں صفائی نہیں تھی۔داڑھی کہیں سے بڑی اور کہیں سے چھوٹی تھی۔ایسامعلوم ہوتا تھا کہ وہ سوئٹزر لینڈ کا نقشہ ہو،جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔
چند منٹ بعد برابر والی کرسی کی طرف سے ایسی آوازیں آنے لگیں جیسے تیسری جنگ عظیم کا آغاز ہونے والا ہو۔کھڑ پڑ دھڑ۔غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ خلیفہ نمبر دو کسی نادیدہ دشمن سے نبرد آزما ہے۔توپ و تفنگ چلنے کے بجائے فضا میں قینچی،بلیڈ ،استرا اور صابن اڑ رہا تھا، میں نے صورت حال دیکھ کر اندازہ کر لیا کہ یہ بھی دلربا کی کارستانی ہے۔معلوم نہیں کیوں وہ پوری دکان کو تہس نہس کرنے پر تلی ہوئی تھی۔میں پوری دنیا گھوم چکا ہوں اور ہزارہا مکھیوں مچھروں سے میرا سابقہ پڑ چکا ہے،لیکن ایسی ناہنجار مکھی سے پہلی بار واسطہ پڑا تھا۔
میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ اگر وہ پھر حملہ آور ہوئی تو میں بھی اسے ہلاک کرنے میں کماحقہ حصہ لوں گا۔ لیکن اس وقت میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے جب وہ حقیقی معنوں میں برسر پیکار ہوئی۔اس بار اس کے ساتھ اس کی سہیلیاں بھی تھیں۔ بلڈہاؤنڈ قسم کی۔وہ بھیں بھیں بھیں کرتی ہوئی آئیں اور میرے ناک،منہ،کان پر حملہ آور ہوگئیں۔ان سے نمٹنے کا کوئی طریقہ میں نے کسی کتاب میں نہیں پڑھا تھا۔چنانچہ میں نے راہ فرار اختیار کرنے میں عافیت سمجھی۔میں نے اپنا صافہ اٹھاکر گلے میں ڈالا اور دروازے کی طرف دوڑ لگادی۔ میرے منہ پر صابن لگا ہوا تھا،لیکن میں نے اسے صاف کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔خلیفہ میرے پیچھے دوڑ پڑا۔
''ارے! حاجی صاحب پیسے تو دیتے جاؤ۔''میں آگے ،وہ میرے پیچھے اور مکھیوں کاغول ہمارے تعاقب میں تھا۔دلربا یقینا گرد و پیش میں واقع سارے گٹروں سے اپنی سہیلیوں کو بلا لائی تھی۔میں جب سلامتی سے گھر پہنچنے میںکامیاب ہوگیا تومیں نے طے کر لیا کہ آیندہ بارش کے موسم میں خط نہیں بنواؤں گا۔
بارش کا موسم تھا اور مکھیوں کی بہتات تھی۔ میں ہیر کٹنگ سیلون میں داخل ہوا تو پنکھے چل رہے تھے۔ مکھیاں بھنبھنا رہی اوربلیاں فرش پر لوٹیں لگا رہی تھیں۔ پتہ چلا کہ پالتو ہیں۔ میں خلیفہ کے اشارے پر ایک خالی کرسی پر بیٹھ گیا تو ایک بلی بھی آکر قدموں میں بیٹھ گئی۔''کیوں میاں خلیفہ، یہ بلیاں یہاں کیا کر رہی ہیں؟''
''گاؤں گوٹھ سے جو لڑکے آتے ہیں اپنا ہاتھ یہاں صاف کرتے ہیں۔''
''کس چیز سے صاف کرتے ہیں؟''
''میرا مطلب ہے کہ یہاں حجامت کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔''
''ان کا بلیوں سے کیا تعلق؟ وہ گاؤں سے بلیاں ساتھ لاتے ہیں؟''
''جی نہیں۔ یہاں تربیت حاصل کرنے کے دوران کبھی کبھی اناڑی پن میں ان کا ہاتھ بہک جاتا ہے تو گاہک کا کان بھی کٹ جاتا ہے۔''
''اچھا تو پھر؟''میں نے سہم کر پوچھا۔
''اس موقعے پربلیاں وہی کچھ کرتی ہیں جو انھیںکرنا چاہیے۔''
''یعنی؟''
''ہڑپ کر جاتی ہیں۔'' اس نے اطمینان سے جواب دیا اور میرے منہ پر صابن ملنے لگا۔
مگر میرا اطمینان رخصت ہوچکا تھا۔اضطراب کی ایک لہر تھی جو اندر ہی اندر کروٹیں لینے لگی تھی۔ صابن رگڑنے کے بعد خلیفہ جی نے استرا اٹھاکرگردن پر رکھا تو میری روح فنا ہوگئی۔میں نے پوچھا۔''تم گاؤں سے کب آئے تھے؟''
''جی کافی دن ہوگئے۔اب ہاتھ صاف ہوچکا ہے۔آج کل گاہکوں کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ پچھلے سال غلطی سے تین کان ...''
میری ٹانگیں کانپنے لگیں۔''رہنے دو، خط میں پھر کبھی بنوا لوں گا۔''
''حاجی صاحب! بے فکر رہیے۔میں قینچی سے کاٹ دوں گا۔''
''بات تو ایک ہی ہے۔ چاہے استرے سے کاٹو یا قینچی سے۔کان سے بے کان تومجھے ہوناہے۔''
''میرامطلب ہے کہ قینچی سے بال کاٹ دوں گا۔'' اس نے مکھی ہٹاتے ہوئے کہا۔ وہ ناہنجار معلوم نہیں کہاں سے آگئی اور خلیفہ کے سر پہ منڈلانے لگی۔''بھیں بھیں بھیں''اس نے اپنا راگ الاپا اور خلیفہ کے کان میں گھسنے لگی۔خلیفہ نے جھنجلا کر اپنا ہاتھ یوں لہرایا جیسے مکھی کے کئی ٹکڑے کر کے رکھ دینا چاہتا ہو۔میرادایاں کان کٹتے کٹتے بچاکیونکہ استرا کئی بار کان کے قریب سے گزرا تھا۔''مجھے دلربا کہتے ہیں''مکھی نے اٹھلا کراپنا تعارف کرایا اور میری ناک پر آکربیٹھ گئی۔
خلیفہ نے استرا کاؤنٹر پر رکھ دیا اور ڈسٹر اٹھا لیا۔ پھر ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اشارہ کیا کہ میں اپنی جگہ پر ساکت رہوں۔ چند لمحوں بعدڈسٹر آواز کے ساتھ میرے منہ پر پڑا۔دلبر نے راہ فرار اختیار کی۔ میرے منہ پر چونکہ صابن لگا تھا،اس لیے وہ اس میں لتھڑ گیا۔خیر مجھے کیا،میرے کان اور ناک توسلامت رہ گئے تھے۔
خلیفہ نے ڈسٹر نزدیک رکھ لیا جیسے وہ کوئی اسلحہ ہو۔دلربا نے توقف کیا۔اس کے بعد اپنی خبیثانہ آواز کے ساتھ پھر ہمارے سروں پر منڈلانے لگی۔خلیفہ کا ہاتھ میرے چہرے پر چل رہا تھا۔وہ احتیاط برت رہا تھا کہ کوئی ''خونی حادثہ'' پیش نہ آئے۔یکبارگی دلبر ادائے دلبرانہ سے دائرے میں گھومی اور خلیفہ کے اسی ہاتھ پر بیٹھ گئی جس سے وہ شیو بنا رہا تھا۔ خلیفہ نے جذباتی انداز میں ہاتھ چلایا تو میرے چہرے پر چرکا لگ گیا اور خون بہنے لگا۔خلیفہ نے استرا کاؤنٹر پر رکھ دیااور پھٹکری اٹھا کر میرے ز خم پر مل دی۔
میں کانپ گیا اس لیے کہ سوزش اور جلن کی ٹیسیں میرے رخسار سے اٹھنے لگی تھیں۔دلبر بھیں بھیں بھیں کرتی ہوئی ہمارے سروں پر منڈلانے لگی ۔خلیفہ طیش میں آگیا۔اس نے ڈسٹر اٹھا کر گھمایا تو دلبر فوراً ہی اڑ گئی اور کاؤنٹر پر رکھا ہوا سامان آواز کے ساتھ فرش پر گر پڑا۔جس میں صابن کی پیالی،کنگھا اور برش شامل تھے۔ سامنے لگا ہوا شیشہ ٹوٹتے ٹوٹتے بچا۔ قینچی البتہ اڑ کر میری طرف آئی ۔میں فوراً ہی ہاتھ آگے نہ کر دیتا تو وہ میری ناک میں داخل ہوجاتی۔
خلیفہ نے جلدی سے سامان سیٹ کیا پھر تیز گام کی طرح اپنا ہاتھ چلانے لگا۔میں نے محسوس کیا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے ہیں(غصے سے )اس کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ دلربا کی ہڈیاں اور پسلیاں ایک کر دیتا(اگر یہ چیزیں کسی مکھی میں ہوتیں تو)خلیفہ نے میرے کہنے پر داڑھی قدرے تراش دی، مگر اس کے ہاتھ میں صفائی نہیں تھی۔داڑھی کہیں سے بڑی اور کہیں سے چھوٹی تھی۔ایسامعلوم ہوتا تھا کہ وہ سوئٹزر لینڈ کا نقشہ ہو،جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔
چند منٹ بعد برابر والی کرسی کی طرف سے ایسی آوازیں آنے لگیں جیسے تیسری جنگ عظیم کا آغاز ہونے والا ہو۔کھڑ پڑ دھڑ۔غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ خلیفہ نمبر دو کسی نادیدہ دشمن سے نبرد آزما ہے۔توپ و تفنگ چلنے کے بجائے فضا میں قینچی،بلیڈ ،استرا اور صابن اڑ رہا تھا، میں نے صورت حال دیکھ کر اندازہ کر لیا کہ یہ بھی دلربا کی کارستانی ہے۔معلوم نہیں کیوں وہ پوری دکان کو تہس نہس کرنے پر تلی ہوئی تھی۔میں پوری دنیا گھوم چکا ہوں اور ہزارہا مکھیوں مچھروں سے میرا سابقہ پڑ چکا ہے،لیکن ایسی ناہنجار مکھی سے پہلی بار واسطہ پڑا تھا۔
میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ اگر وہ پھر حملہ آور ہوئی تو میں بھی اسے ہلاک کرنے میں کماحقہ حصہ لوں گا۔ لیکن اس وقت میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے جب وہ حقیقی معنوں میں برسر پیکار ہوئی۔اس بار اس کے ساتھ اس کی سہیلیاں بھی تھیں۔ بلڈہاؤنڈ قسم کی۔وہ بھیں بھیں بھیں کرتی ہوئی آئیں اور میرے ناک،منہ،کان پر حملہ آور ہوگئیں۔ان سے نمٹنے کا کوئی طریقہ میں نے کسی کتاب میں نہیں پڑھا تھا۔چنانچہ میں نے راہ فرار اختیار کرنے میں عافیت سمجھی۔میں نے اپنا صافہ اٹھاکر گلے میں ڈالا اور دروازے کی طرف دوڑ لگادی۔ میرے منہ پر صابن لگا ہوا تھا،لیکن میں نے اسے صاف کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔خلیفہ میرے پیچھے دوڑ پڑا۔
''ارے! حاجی صاحب پیسے تو دیتے جاؤ۔''میں آگے ،وہ میرے پیچھے اور مکھیوں کاغول ہمارے تعاقب میں تھا۔دلربا یقینا گرد و پیش میں واقع سارے گٹروں سے اپنی سہیلیوں کو بلا لائی تھی۔میں جب سلامتی سے گھر پہنچنے میںکامیاب ہوگیا تومیں نے طے کر لیا کہ آیندہ بارش کے موسم میں خط نہیں بنواؤں گا۔