طلباء یونینز کی بحالی مگر کیسے
پاکستان میں طلبا کی تحریک سے جڑے بہت سارے افراد اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں
اتوارکا دن تھا اورکراچی آرٹس کونسل میں منتظمین کی جانب سے جتنی نشستوں کا بندوبست کیا گیا تھا وہ سیمینار شروع ہونے تک بھرچکی تھیں اورمزید طالب علم آرہے تھے مگر اتنے نہیں تھے جتنوں کو آنا چاہیے تھا۔ اس کے باوجود طلبا تنظیموں سے تعلق رکھنے والی لگ بھگ تین نسلوں کی شرکت اور جو ش و جذبہ دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ طلبا تنظیموں سے تعلق رکھنے اور اس کی اہمیت سے واقف افراد کی تنظیمی گرم جوشی کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی کے پلیٹ فارم پر منعقدہ اس سیمینار میںشرکت کرنے والی چھ مرکزی تنظیموں کے نوجوان عہدے داروں کو تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور حکومت سے جہاں دیگر شکایات تھیں وہاں اس بات کا بھی افسوس تھاکہ یونیورسٹی اورکالجزمیں یونین پر پابندی کی وجہ سے وہ اپنے جائز مطالبات منوانا تو دورکی بات انھیںپیش کرنے کی طاقت سے بھی محروم ہیں۔
نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن گلگت بلتستان کے نوجوان رہنما کے خیالات دوسرے تمام نوجوانوں سے اس لیے مختلف تھے کہ انھوں نے پاکستان کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے غریب طلبہ کے تعلیمی، مالی اور سماجی مسائل کا انتہائی دلیری سے احاطہ کرتے ہوئے اس ڈر کا اظہار بھی کیا کہ اس دور میں اگر کوئی اپنے حقوق کی بات کرتا ہے تو اسے نامعلوم افراد کے ہاتھوں غائب کروا دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں طلبا کی تحریک سے جڑے بہت سارے افراد اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ آٹھ جنوری 1953ء کو ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹ فیڈریشن کی اپیل پر اپنے مطالبات کے حق میں کراچی کے طالب علموں نے مظاہرہ کیا تو ان پر لاٹھی چارج کیا گیا اور بہت ساروں کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ دوسرے دن اس سے بھی بڑے مظاہرے کا اہتمام کیا گیا جس پر پولیس کی فائرنگ سے ستائیس طلبہ ہلاک اورکئی زخمی ہو گئے تھے۔
اس واقعے کی یاد میں یوں تو ہر سال بہت کچھ لکھا جاتا رہا اور کچھ تنظیموں کی جانب سے روایتی انداز میں پروگرام بھی منعقد کروائے جاتے رہے لیکن طلبا کی تنظیموں کی بحالی کے مسئلے پر مختلف تنظیموں کے نمایندوں کو اظہار خیال کی دعوت دینے اور ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا شاید یہ پہلا موقع تھا۔اس سیمینارنے اسی کی دہائی میں ہونے والے بائیں بازو کے ان جلسوں کی یاد بھی تازہ کر دی جن میں مخصوص نعروں کی گونج کے دوران پورے ملک کے ترقی پسند اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ٹریڈ یونین اور اسٹوڈنٹ یو نین کے نمایندے اپنی پر جوش تقریروں سے لوگوں کے دلوں کو گرما تے تھے۔
یہ وہی دور تھا جب طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی تھی اور جمہوریت پسندوں کو پا بند سلاسل کرنے کے سا تھ کوڑوں کی سزائیں سنائی جا رہی تھیں۔ وقت گزنے کے ساتھ یکم مئی کے وہ جلسے جن میں کئی ہزارسیاسی کارکن اور طالب علم شریک ہوتے تھے سکڑتے سکڑتے چند سو تک کی تعداد تک محدود ہو تے چلے گئے، ملوں اور کارخانوں میں ٹھیکے داری نظام پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا اور پاکٹ یونین کے نمایندے مختلف اداروں میں پھیلتے چلے گئے۔
یہ ضیا الحق کے آخری دور کی بات ہے اور اس دور میں طلبہ تنظیموں کے رہنماؤں اور ٹریڈ یونین تحریک کے ساتھ جو کچھ ہوا اس سے پاکستان کے سیاسی کارکن اچھی طرح واقف ہیں۔طویل آمریت کے بعد پیپلز پارٹی کے ابتدائی دور میں بینظیر بھٹو نے طلبہ یونین پر لگی پابندی ہٹانے کا اعلان کیا تو اسے عدالت میں چیلنج کر دیا گیا۔پرویز مشرف کا دور آیا تو انھوں نے لیبر قوانین میں ترامیم کا سہارا لیتے ہوئے یونین سازی پر پابندی عائدکردی اور طلبہ تنظیموں پر پابندی بھی برقرار رکھی۔
پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے دور اقتدار میں ایک دفعہ پھر طلبہ تنظیموں پر پابندی کے خاتمے کا اعلان تو کیا مگر یہ صرف اعلان تک ہی محدود رہا۔ پچھلے سال کے دوران ایک دفعہ پھر قومی اسمبلی اور بعد میں سندھ اسمبلی میں طلبا یونین کی بحالی کی گونج تو سنائی دی، مگر لگتا ہے یہ گونج چند دنوں کے اندر ہی خاموشی میں ڈھل جائے گی اس لیے کہ قومی اور صوبائی حکومت کواس سے بھی کئی دوسرے اہم کاموں کی زیادہ فکر ہے جن کا تعلق طلبا ء ، مزدوروں، کسانوں کی زندگی سے نہیں بلکہ آنے والے الیکشن کی ہار جیت سے ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی کی جانب سے منعقدہ سیمینار میں نوجوان طلبا کے ساتھ طلبہ یونین سے تعلق رکھنے والے پچھلے دور کے کچھ رہنماؤں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا جو اس بات پر متفق تھے کہ ملک کی سیاسی پارٹیاں اگر چاہیں تو وہ طلباء تنظیموں کو بحال کر سکتی ہیںمگر وہ ایسا کرنا ہی نہیں چاہتیں۔
اس سیمینار میں خطاب کرنے والے بزرگوں کو اپنے نوجوان رہنماؤں سے یہ گلہ تھا کہ آج کے پروگرام میں نوجوان طالب علم رہنماؤں کی اچھی خاصی تعداد تو موجود ہے مگر طالب علموں کی تعداد بہت قلیل ہے۔اگر ہر تنظیم کے رہنما کے ساتھ بیس بیس طالب علم بھی اس سیمینار میں شریک ہوتے تو نوجوان طلبا کو زیادہ فائدہ ہوتا۔سینئر رہنماؤں کا خیال تھا کہ طلبا تنظیموں کو مضبوط اور فعال بنانے کے لیے جہاں زیادہ سے زیادہ طالب علموں کویونین کی طرف راغب کرنا ضروری ہے وہاں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ تمام طلبا تنظیمیں اپنے مسائل کو مزید بہتر انداز سے انتظامیہ اور حکومت کے سامنے رکھنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو سکیں۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ موجودہ دور میںبائیں بازو کی سیاست سے جڑے افراد کے لیے حالات اتنے خراب نہیں جتنے ضیا الحق یا ایوب خان کے دور میں تھے اگر عوامی ورکرز پارٹی بائیں بازو کی پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے تو ہمیں یہ امید بھی رکھنا چاہیے کہ یہ پارٹیاں آنے والے الیکشن میں ایک دو سیٹیں حاصل کر ہی سکتی ہیں جس کے بعد مزدوروں، کسانوں، طالب علموں اور اقلیتوں کے حقوق کی لڑائی زیادہ آسان اور بہتر طریقے سے لڑی جا سکے گی۔