ٹرمپ کی دادا گیری نہیں چلے گی

ٹرمپ کو دھونس دھاندلی کے بجائے افہام و تفہیم کے ساتھ دہشت گردی کے مخالفوں کو ساتھ ملاکر یہ جنگ لڑنی چاہیے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

امریکا نے پاکستان کے ساتھ سیکیورٹی تعاون کو معطل کردیا ہے اور 225 ملین ڈالر کی سیکیورٹی معاونت اور فوجی سامان روکنے کا اعلان کردیا ہے۔ امریکی حکمران طبقے کا ارشاد ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی تک یہ پابندیاں برقرار رہیں گی۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان ہیتھر نوائرٹ(Heather Nauert) نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اقدامات کی صورت میں امداد بحال اور پابندیاں ختم کی جاسکتی ہیں۔ امریکا کا کہناہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف سخت فیصلے نہ کیے تو مزید پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں۔ اس حوالے سے امریکا نے ایک اور دلچسپ فیصلہ یہ کیا ہے کہ ''پاکستان کو مذہبی آزادی کی مبینہ سنگین خلاف ورزی کرنے والے ممالک سے متعلق خصوصی واچ لسٹ میں شامل کردیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے مجموعی طور پر 10 ممالک کو واچ لسٹ میں شامل کیا ہے جن میں شمالی کوریا، ایران، اریٹریا، چین، برما، سوڈان، سعودی عرب، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ اس فہرست میں پاکستان کی شمولیت کے بعد واچ لسٹ میں شامل ملکوں کی تعداد گیارہ ہوگئی ہے۔ یہ پابندی دہشت گردی اور اس کی معاونت پر لگائی گئی ہیں۔

کہاجاتا ہے کہ اگر کسی ملک کے عوام کو قدرت کی طرف سے سزا دی جاتی ہے تو اس ملک پر جابر اور احمق حکمران مسلط کیے جاتے ہیں۔ امریکا کے عوام کو ٹرمپ کی شکل میں جو سزا دی گئی ہے اس کی ذمے داری امریکی عوام پر اس لیے عاید ہوتی ہے کہ امریکی عوام نے ہی انتخابات میں ٹرمپ اینڈ کمپنی کو اپنے سروں پر سوار کرلیا ہے۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اب دنیا یونی پولر نہیں رہی ہے بلکہ اب دنیا ملٹی پولر ہوگئی ہے۔

یونی پولر دنیا میں امریکا واحد سپر پاور تھا اور وہ آزادی کے ساتھ دنیا کے فیصلے کرتا تھا اب دنیا ملٹی پولر ہوگئی ہے اب دنیا کے فیصلے کرنے کا اختیار امریکا کو نہیں بلکہ دنیا کے فیصلے بڑی طاقتیں یعنی روس، چین وغیرہ مل کر کرتی ہیں لیکن امریکی حکمرانوں کی نفسیات ابھی یونی پولر پر اٹکی ہوئی ہے اور اس نفسیات کے زیر اثر وہ دنیا کے فیصلے کرنے پر تلا ہوا ہے۔

ایران کو بھی امریکا دہشت گردوں کا معاون قرار دیتا ہے اور اس جرم میں عشروں سے ایران پر اقتصادی پابندیاں لاگو کر رکھی ہیں۔ امریکی حکمران طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ اس قسم کی پابندیوں سے وہ ایران کو جھکا لے گا اور اپنا مطیع و فرمانبردار ملک بنالے گا لیکن اس کی یہ احمقانہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ عشروں پر محیط پابندیوں کے باوجود ایران اپنی سیاسی اور اقتصادی آزادی کے ساتھ زندہ ہے۔


ایران کے عوام مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان ہیں اور تنگ آکر پر تشدد مظاہروں پر اتر آئے ہیں۔ ایران کے ''سرکاری نظام''سے ایرانی عوام کے علاوہ کئی مسلم ملکوں کو بھی شکایت ہے کہ اس نظام کی وجہ سے مسلم ملکوں میں اختلافات کی جڑیں مضبوط ہوگئی ہیں بلکہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ بھی ایران کا موجودہ نظام ہے لیکن یہ مسئلہ ایرانی عوام کا ہے وہی اسے حل کرنے کا حق رکھتے ہیں لیکن امریکا کی سامراجی اور مفاد پرستانہ سیاست کا یہ اعجاز ہے کہ وہ اگر کسی ملک کے حکمران طبقے سے ناراض ہوتا ہے تو پھر بڑے پر اسرار انداز میں اسے سزا دیتا ہے۔

امریکی حکمرانوں کو نہ ایران کی مہنگائی سے کوئی دلچسپی ہے نہ بے روزگاری سے نہ کسی اور مسئلے سے اسے کوئی دلچسپی ہے کیونکہ امریکا کا حکمران طبقہ یہ جانتا ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری، غربت، جرائم وغیرہ جیسی لعنتیں سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں جس کا وہ سرپرست اعلیٰ ہے اس کی ایران سے ناراضگی کی اصل وجہ ایران کا ایٹمی پروگرام ہے۔

ماضی میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے سے انکار کیا تھا اس کی سزا اس نے 1977 کی تحریک پر پٹرول چھڑک کر دی اور بھٹو کی حکم عدولی کو اسے نشان عبرت بنادیا۔ ایران کے عوام کو اپنے حکمران طبقے سے شکایات ہیں اور حکومت کے خلاف احتجاج کرنا ان کا جمہوری حق ہے لیکن ایرانی عوام کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے احتجاج میں امریکی ڈالر نہ گھس آئیں۔

پاکستان کے حکمران طبقے کی کرپشن سے پاکستانی عوام سخت ناراض ہیں، پاکستان میں مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے، حکومتی بدعنوانیوںکے خلاف احتجاج کرنا پاکستانی عوام کا حق ہے لیکن کسی بھی ممکنہ احتجاج میں ڈالروں کی شمولیت کا سختی سے خیال رکھنا ضروری ہے۔

دور حاضر کا نمرود ڈونلڈ ٹرمپ اب تک یونی پولر کے خواب سے بیدار ہونے کے لیے تیار نہیں یہ بیسویں صدی نہیں ہے یہ اکیسویں صدی ہے اب شمالی کوریا جیسا چھوٹا ملک بھی امریکا کی چلم برداری کے لیے تیار نہیں۔ امریکا محض جنوبی کوریا کو اپنا فوجی اڈا بنائے رکھنے کی خاطر شمالی کوریا پر اقتصادی پابندیوں کے ساتھ ساتھ فوجی دباؤ بڑھاکر بلیک میل کرنے کی کوشش کررہاہے لیکن شمالی کوریا اب نہ صرف ایک ایٹمی طاقت ہے بلکہ اس کے ایٹمی میزائلوں کی رسائی امریکا کے شہروں تک ہے۔

شمالی کوریا کا سربراہ کہہ رہا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کا سوئچ میری میز پر لگا ہوا ہے۔امریکا اگر دہشت گردی کے خاتمے میں مخلص ہے تو پھر اسے اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ دہشت گردی اس قدر مضبوط و مستحکم ہے کہ امریکا ایک عشرے تک افغانستان میں اپنے اتحادیوں کی فوج کے ساتھ دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کرسکا اور کھربوں ڈالر کے نقصان اور ذلت و رسوائی کے ساتھ اسے واپس آنا پڑا۔

پاکستان ایک نسبتاً چھوٹا ملک ہے اس کے باوجود وہ دہشت گردی کے خلاف لڑ رہا ہے اور 70 ہزار پاکستانی اب تک دہشت گردی کی نذر ہوگئے ہیں۔ کیا امریکی صدر کو ان حقائق کا علم نہیں؟ اب امریکا دنیا کی واحد سپر پاور رہا نہ دنیا اب امریکا کی غلام بنے رہنے کے لیے تیار ہے، ان حقائق کے پس منظر میں اب ٹرمپ کو دھونس دھاندلی کے بجائے افہام و تفہیم کے ساتھ دہشت گردی کے مخالفوں کو ساتھ ملاکر یہ جنگ لڑنی چاہیے۔
Load Next Story