صحافت کی بے چین دنیا
صحافت کی یہ بد قسمتی ہی ہے کہ ہم نے ازخود سے اپنی غیر جانبداری کو ختم کر لیا
KARACHI:
زندگی بھر سیاست اور سیاستدانوں پر نہ جانے کتنا کچھ لکھا کتنے صفحے کالے کیے اس کا کوئی شمار نہیں، اب سیاست کی بے توقیری دیکھ دیکھ کر اکتاہٹ سی ہوگئی ہے اور طبیعت سیاست پرمزید لکھنے کو تیار نہیں ہوتی بلکہ اکثر اوقات تو دل اور دماغ میں یہی جھگڑا رہتا ہے، دماغ سیاست کی طرف چل پڑتا ہے جب کہ دل جو کہ سیاست سے اکتا چکا ہے دوسری طرف نکل جانے کو کہتا ہے اسی کشمکش میں لکھنا جاری ہے اور جب تک سانسوں میں دم ہے اور دماغ چل رہاہے یہ لکھنا چلتا ہی رہے گا کہ ایک لکھنے والے کی زندگی ہی یہی ہے کہ جو کچھ اس کے دل و دماغ میں ہے وہ اس کو لکھ کر کاغذ پر منتقل کرتا رہے اور اپنے اندر کے بوجھ کو ہلکا کرتا رہے۔
اب تو یہ بھی یاد نہیں کہ روزی روز گار کے سلسلے میں پہلی دفعہ کب باقاعدہ طور پر لکھنے کا آغاز کیا تھا لیکن ایک بات ضرور ہے کہ عمر صحافت کی دنیا میں ہی گزر گئی اور لگتا ہے کہ اچھی ہی گزر گئی کہ سوائے کالم کے اپنا نام کبھی کسی دوسری جگہ چھپا ہوا نہیں دیکھا حالانکہ آج کل کے بے رحم معاشرے اورخاص طور پر صحافت کی نام نہاد نئی قسم سوشل میڈیا پر اپنے کئی ہم عصروں کی پگڑیاں سرِ بازار اچھلتی اکثر دیکھتا ہوں اور اس بات پر نادم بھی ہوتا ہوں کہ میرا نام ان قلمکاروں کی صف میں شامل کیوں نہیں۔
میرے جیسے پرانے وقتوں کے کئی نامور اخبار نویس اپنی زندگیاں صحافت کی غریبانہ بلکہ فریبانہ دنیا میں کاٹ کر چلے گئے اور کچھ انتظار میں ہیں۔ ہمیں صحافت نے اپنے پُرفریب عشق میں مبتلا کیے رکھا، ایک اخبار نویس اور صحافت کا تعلق عاشق و معشوق کا ہی رہا اور شاید اس کے بغیر گزارا بھی ممکن نہیں تھا کہ آج کے جدید دور کے وسائل بھی میسر نہیں تھے اور نہ ہی روپے پیسے کی اتنی ریل پیل تھی کہ ہم اس کے لیے لڑھک جاتے البتہ کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے کچھ دوست کسی اور وجہ سے ضرور لڑھک جاتے تھے ۔
اپنے وقت کے جید اور اپنے کام پر عبور رکھنے والے ہمارے استادوں نے قلم کی حرمت کے بارے میں اتنے پُراثر الفاظ میں وعظ و نصیحت کیا جن کی تاثیر آج تک برقرار ہے اور ان کے لب ولہجہ کی گونج آج بھی کانوں میں رس گھولتی سنائی دیتی ہے، وہ لوگ اپنے وقت کے امام کہے جا سکتے ہیں جنہوں نے صحافت کا پیشہ بطور مشن شروع کیا اور اس مشن کو نہ صرف خود جاری رکھا بلکہ آنے والے نوجوانوں کو بھی اپنا صحافتی ورثہ منتقل کر گئے۔
صحافت کا شعبہ اتنا مضبوط اور امیر کبھی نہیں تھا جتنا اب ہے بلکہ گئے وقتوں میں تو ایک اخبار نویس کے اخراجات اس کی صحافتی مزدوری سے بس پورے ہی ہوتے تھے آسودگی نام کی کسی شے کا صحافیوں کے ہاں سے گزر ہی نہیں تھا، یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ آسودگی کا لفظ لکھتے تو تھے لیکن اس کے عملی معنی سے نا آشنا تھے۔
ایک آنکھ مچولی تھی جو اخبار نویسوں اوران کے گھر والوں کے درمیان چلتی رہتی تھی لیکن پھر بھی گزر اوقات ہو ہی جاتی تھی بلکہ اگر میری بات لکھی جائے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتے تھے اور اپنی اس فاقہ مستی میں مست رہتے تھے کیونکہ یہ ہم نے از خود اختیار کی ہوئی تھی کسی نے ہم پر تھوپی نہیں تھی، صحافت ایک نشہ تھا ایک لگن اور جذبہ کے تحت اس نشے میں سرشار رہتے تھے کوئی گلہ یا شکوہ شکایت نہیں تھی۔
اپنی تمام تر غربت کے باوجود فخر اور ایک احساس موجزن رہتا تھا کہ جو کچھ ہم لکھتے ہیں لوگ اس کو بغور پڑھتے ہیں اور پھر اس کے مطابق اپنی رائے قائم کرتے ہیں، اسی احساس کی لت تھی جو اس وقت سے پڑ گئی جب سے لکھنا شروع کیا اور اب جب لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں لیکن یہ لت ابھی تک پڑی ہوئی ہے اور نہ چاہنے کے باوجود اپنی رائے اپنی مرضی سے لکھتے ہیں لیکن شاید اب ہماری رائے پڑھنے یا اس پر عمل کرنے والوں کی تعداد کم ہو گئی ہے یا پھر معاشرہ میں اس قدر تغیر ہے کہ لوگ اب اپنی ذاتی رائے کو ہی مقدم جانتے ہیں اس کی ایک بڑی وجہ صحافت کے شعبے میں وسعت ہے جو کہ ٹیلیویژن کی صورت میں بھی آئی ہے جہاں سے دن رات اچھی بری سچی جھوٹی معلومات کا ایک خزانہ دیکھنے والوں تک پہنچتا رہتا ہے اور وہ اس میں سے اپنے مطلب کی باتوں کو پسند کر لیتے ہیں اور اپنی پسند ناپسند کی بنیاد پر اپنی رائے ترتیب دے لیتے ہیں ۔
بہر حال یہ وقت ہے جو تیزی سے بدل رہا ہے وقت رک نہیں سکتا بلکہ اس کا ساتھ دینا پڑتا ہے نہیں تو یہ آپ کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے، صحافت کی دنیا میں بھی وقت کی رفتار خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے جس نے اچھی اور معیاری صحافت کو خیرباد کہہ دیا ہے سنی سنائی باتوں پرخبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں تصدیق کا عمل یا توختم ہو گیا ہے یا پھر اس جھنجھٹ میں پڑنے کی تکلیف ہی گوارا نہیں کی جاتی کہ اگر تردید آگئی تو دیکھا جائے گا اور اسے کسی کونے کھدرے میں لگا دیا جائے گا حالانکہ خبر کی تردید رپورٹر کی نااہلی کا سب سے بڑا ثبوت ہوتی ہے۔
بہرحال وقت کے ساتھ ساتھ روایات اور اقدار بھی وقت کی تیزی کا ساتھ نہیں دے سکیں اور کسی کونے کھدرے میں چھپی اپنی بے توقیری پر نوحہ کناں ہیں لیکن ان کی آہ و زاری سننے والا کوئی نہیں کہ کسی کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ وہ روایات و اقدار کی فضول بحث میں الجھے۔
صحافت کی یہ بد قسمتی ہی ہے کہ ہم نے ازخود سے اپنی غیر جانبداری کو ختم کر لیا اور اپنی پسند نا پسند کی بنیاد پر پارٹیاں چن لی ہیں اور سر شام ٹی وی پر بیٹھ کر کبھی ان کے حق میں پراپیگنڈہ میں بھی شامل ہو جاتے ہیں ورنہ ایک عامل صحافی کا کیاکام کہ وہ سرِ بازار کسی سیاست دان یا سیاسی پارٹی کی مدح سرائی کرے لیکن ہم نے اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت کو ختم کردیا اور سرِ عام کسی نہ کسی پارٹی سے اپنے آپ کو منسلک کر لیا۔
پسند نا پسند کا عنصر پہلے بھی موجود ہوتا تھا مگر تجزیہ نگار یا رپورٹر اتنی خوبصورتی سے اپنی پسند کی پارٹی کی تعریف کرتے کہ ان کا انداز اچھا لگتا اب تو ہم نے سر بازار یہ محفل بلکہ محفلیں سجا لی ہیں اور اپنے آپ کو عوام کی نظروں میں تماشا بنا دیا ہے جس نے صحافت کے ساتھ ساتھ صحافیوں کی بھی بے توقیری کر دی ہے اور وہ بھی خود صحافیوں کے ہاتھوں۔
زندگی بھر سیاست اور سیاستدانوں پر نہ جانے کتنا کچھ لکھا کتنے صفحے کالے کیے اس کا کوئی شمار نہیں، اب سیاست کی بے توقیری دیکھ دیکھ کر اکتاہٹ سی ہوگئی ہے اور طبیعت سیاست پرمزید لکھنے کو تیار نہیں ہوتی بلکہ اکثر اوقات تو دل اور دماغ میں یہی جھگڑا رہتا ہے، دماغ سیاست کی طرف چل پڑتا ہے جب کہ دل جو کہ سیاست سے اکتا چکا ہے دوسری طرف نکل جانے کو کہتا ہے اسی کشمکش میں لکھنا جاری ہے اور جب تک سانسوں میں دم ہے اور دماغ چل رہاہے یہ لکھنا چلتا ہی رہے گا کہ ایک لکھنے والے کی زندگی ہی یہی ہے کہ جو کچھ اس کے دل و دماغ میں ہے وہ اس کو لکھ کر کاغذ پر منتقل کرتا رہے اور اپنے اندر کے بوجھ کو ہلکا کرتا رہے۔
اب تو یہ بھی یاد نہیں کہ روزی روز گار کے سلسلے میں پہلی دفعہ کب باقاعدہ طور پر لکھنے کا آغاز کیا تھا لیکن ایک بات ضرور ہے کہ عمر صحافت کی دنیا میں ہی گزر گئی اور لگتا ہے کہ اچھی ہی گزر گئی کہ سوائے کالم کے اپنا نام کبھی کسی دوسری جگہ چھپا ہوا نہیں دیکھا حالانکہ آج کل کے بے رحم معاشرے اورخاص طور پر صحافت کی نام نہاد نئی قسم سوشل میڈیا پر اپنے کئی ہم عصروں کی پگڑیاں سرِ بازار اچھلتی اکثر دیکھتا ہوں اور اس بات پر نادم بھی ہوتا ہوں کہ میرا نام ان قلمکاروں کی صف میں شامل کیوں نہیں۔
میرے جیسے پرانے وقتوں کے کئی نامور اخبار نویس اپنی زندگیاں صحافت کی غریبانہ بلکہ فریبانہ دنیا میں کاٹ کر چلے گئے اور کچھ انتظار میں ہیں۔ ہمیں صحافت نے اپنے پُرفریب عشق میں مبتلا کیے رکھا، ایک اخبار نویس اور صحافت کا تعلق عاشق و معشوق کا ہی رہا اور شاید اس کے بغیر گزارا بھی ممکن نہیں تھا کہ آج کے جدید دور کے وسائل بھی میسر نہیں تھے اور نہ ہی روپے پیسے کی اتنی ریل پیل تھی کہ ہم اس کے لیے لڑھک جاتے البتہ کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے کچھ دوست کسی اور وجہ سے ضرور لڑھک جاتے تھے ۔
اپنے وقت کے جید اور اپنے کام پر عبور رکھنے والے ہمارے استادوں نے قلم کی حرمت کے بارے میں اتنے پُراثر الفاظ میں وعظ و نصیحت کیا جن کی تاثیر آج تک برقرار ہے اور ان کے لب ولہجہ کی گونج آج بھی کانوں میں رس گھولتی سنائی دیتی ہے، وہ لوگ اپنے وقت کے امام کہے جا سکتے ہیں جنہوں نے صحافت کا پیشہ بطور مشن شروع کیا اور اس مشن کو نہ صرف خود جاری رکھا بلکہ آنے والے نوجوانوں کو بھی اپنا صحافتی ورثہ منتقل کر گئے۔
صحافت کا شعبہ اتنا مضبوط اور امیر کبھی نہیں تھا جتنا اب ہے بلکہ گئے وقتوں میں تو ایک اخبار نویس کے اخراجات اس کی صحافتی مزدوری سے بس پورے ہی ہوتے تھے آسودگی نام کی کسی شے کا صحافیوں کے ہاں سے گزر ہی نہیں تھا، یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ آسودگی کا لفظ لکھتے تو تھے لیکن اس کے عملی معنی سے نا آشنا تھے۔
ایک آنکھ مچولی تھی جو اخبار نویسوں اوران کے گھر والوں کے درمیان چلتی رہتی تھی لیکن پھر بھی گزر اوقات ہو ہی جاتی تھی بلکہ اگر میری بات لکھی جائے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتے تھے اور اپنی اس فاقہ مستی میں مست رہتے تھے کیونکہ یہ ہم نے از خود اختیار کی ہوئی تھی کسی نے ہم پر تھوپی نہیں تھی، صحافت ایک نشہ تھا ایک لگن اور جذبہ کے تحت اس نشے میں سرشار رہتے تھے کوئی گلہ یا شکوہ شکایت نہیں تھی۔
اپنی تمام تر غربت کے باوجود فخر اور ایک احساس موجزن رہتا تھا کہ جو کچھ ہم لکھتے ہیں لوگ اس کو بغور پڑھتے ہیں اور پھر اس کے مطابق اپنی رائے قائم کرتے ہیں، اسی احساس کی لت تھی جو اس وقت سے پڑ گئی جب سے لکھنا شروع کیا اور اب جب لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں لیکن یہ لت ابھی تک پڑی ہوئی ہے اور نہ چاہنے کے باوجود اپنی رائے اپنی مرضی سے لکھتے ہیں لیکن شاید اب ہماری رائے پڑھنے یا اس پر عمل کرنے والوں کی تعداد کم ہو گئی ہے یا پھر معاشرہ میں اس قدر تغیر ہے کہ لوگ اب اپنی ذاتی رائے کو ہی مقدم جانتے ہیں اس کی ایک بڑی وجہ صحافت کے شعبے میں وسعت ہے جو کہ ٹیلیویژن کی صورت میں بھی آئی ہے جہاں سے دن رات اچھی بری سچی جھوٹی معلومات کا ایک خزانہ دیکھنے والوں تک پہنچتا رہتا ہے اور وہ اس میں سے اپنے مطلب کی باتوں کو پسند کر لیتے ہیں اور اپنی پسند ناپسند کی بنیاد پر اپنی رائے ترتیب دے لیتے ہیں ۔
بہر حال یہ وقت ہے جو تیزی سے بدل رہا ہے وقت رک نہیں سکتا بلکہ اس کا ساتھ دینا پڑتا ہے نہیں تو یہ آپ کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے، صحافت کی دنیا میں بھی وقت کی رفتار خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے جس نے اچھی اور معیاری صحافت کو خیرباد کہہ دیا ہے سنی سنائی باتوں پرخبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں تصدیق کا عمل یا توختم ہو گیا ہے یا پھر اس جھنجھٹ میں پڑنے کی تکلیف ہی گوارا نہیں کی جاتی کہ اگر تردید آگئی تو دیکھا جائے گا اور اسے کسی کونے کھدرے میں لگا دیا جائے گا حالانکہ خبر کی تردید رپورٹر کی نااہلی کا سب سے بڑا ثبوت ہوتی ہے۔
بہرحال وقت کے ساتھ ساتھ روایات اور اقدار بھی وقت کی تیزی کا ساتھ نہیں دے سکیں اور کسی کونے کھدرے میں چھپی اپنی بے توقیری پر نوحہ کناں ہیں لیکن ان کی آہ و زاری سننے والا کوئی نہیں کہ کسی کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ وہ روایات و اقدار کی فضول بحث میں الجھے۔
صحافت کی یہ بد قسمتی ہی ہے کہ ہم نے ازخود سے اپنی غیر جانبداری کو ختم کر لیا اور اپنی پسند نا پسند کی بنیاد پر پارٹیاں چن لی ہیں اور سر شام ٹی وی پر بیٹھ کر کبھی ان کے حق میں پراپیگنڈہ میں بھی شامل ہو جاتے ہیں ورنہ ایک عامل صحافی کا کیاکام کہ وہ سرِ بازار کسی سیاست دان یا سیاسی پارٹی کی مدح سرائی کرے لیکن ہم نے اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت کو ختم کردیا اور سرِ عام کسی نہ کسی پارٹی سے اپنے آپ کو منسلک کر لیا۔
پسند نا پسند کا عنصر پہلے بھی موجود ہوتا تھا مگر تجزیہ نگار یا رپورٹر اتنی خوبصورتی سے اپنی پسند کی پارٹی کی تعریف کرتے کہ ان کا انداز اچھا لگتا اب تو ہم نے سر بازار یہ محفل بلکہ محفلیں سجا لی ہیں اور اپنے آپ کو عوام کی نظروں میں تماشا بنا دیا ہے جس نے صحافت کے ساتھ ساتھ صحافیوں کی بھی بے توقیری کر دی ہے اور وہ بھی خود صحافیوں کے ہاتھوں۔