سیاسی تاریخ کا ایک اور باب بند ہوا

قیام پاکستان کے وقت کوئی مقامی افسر اس درجے پر نہیں تھا کہ وہ فضائیہ کی کمان سنبھال سکے۔

muqtidakhan@hotmail.com

پاک فضائیہ کے پہلے سربراہ اور طویل عرصہ سیاست میں فعال رہنے والے ائیر مارشل اصغرخان اللہ کو پیارے ہوئے۔اللہ نے انھیں97 برس کی طویل عمر دی ۔ ان کی موت نے ملک کی سیاسی تاریخ کا ایک اور باب بند کر دیا۔ وہ ایک ایسے انسان تھے، جن کی شخصیت کے کئی پہلو تھے، اگر ایک طرف وہ لاجواب ہوا باز اور اعلیٰ پائے کے منتظم تھے، تو دوسری طرف متلون مزاج سیاستدان تھے، جس کا نقصان انھیں اٹھانا پڑا۔

اسی متلون مزاجی کی وجہ سے وہ اپنے پاکیزہ کردار، دیانتداری اور کھرے طرز عمل کے باوجود سیاسی خواہشات کی تکمیل میں مسلسل ناکام رہے ۔ آج کی نوجوان نسل ان کی شخصیت، کردار اور طرز سیاست سے قطعی ناواقف ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اختصار کے ساتھ ان کی فوجی اور سیاسی زندگی کے کچھ واقعات کو نئی نسل کی معلومات کے لیے پیش کیا جائے۔

ائیر مارشل اصغر خان کا تعلق سرینگر کے پٹھان خاندان سے تھا۔ والد سمیت تمام بھائی (سوائے ایک) فوج میں شامل ہوئے۔ انھوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز زمینی فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ سے کیا، لیکن جلد ہی وہ رائل برٹش ائیر فورس(RAF) میں شامل ہوگئے۔ وہ شروع ہی سے منطقی سوچ کے حامل انسان تھے۔ جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

جب وہ فلائیٹ لیفٹیننٹ تھے، تو حکومت برطانیہ نے انھیں خیر پور(میرس) میں ایک قافلے پر بمباری کے احکامات دیے وہ جہاز لے کر جب اس علاقے میں پہنچے اور نیچے دیکھا توانھیںاس قافلے میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نظر آئی۔یہ دیکھنے کے بعد وہ واپس چلے گئے اور خواتین اور بچوں کو بمباری کا نشانہ بنانے سے انکار کردیا۔ سزا کے طور پر انھیں برما کے محاذ پر بھیج دیا گیا۔

جنیات کا اصول ہے کہ والدین کی خصوصیات بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے بڑے فرزند عمر اصغر خان مرحوم1974میں جب پاک فوج میں کپتان تھے، تو انھوں نے بلوچوں پر فائرنگ سے انکار کر دیا تھا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ائیرمارشل کو بانی پاکستان کے ADC ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ بعد میں انھیں ونگ کمانڈر کے عہدے پر ترقی دے کر اسٹاف کالج کا کمانڈنٹ مقرر کیا گیا۔

قیام پاکستان کے وقت کوئی مقامی افسر اس درجے پر نہیں تھا کہ وہ فضائیہ کی کمان سنبھال سکے۔اس لیے قیام ملک کے دس برس بعد تک ملکی فضائیہ کی قیادت برطانوی افسران کرتے رہے۔ بالآخر1957 میں اس وقت کے صدر مملکت اسکندر مرزا نے انھیں فضائیہ کا سربراہ مقرر کردیا۔ یوں صرف36برس کی عمر میں انھوں نے فضائیہ کی کمان سنبھالی۔ان کی ہوا بازی میں مہارت تو دوسری عالمی جنگ کے دوران ثابت ہوچکی تھی۔ اب ان کی انتظامی صلاحیتوں کا امتحان تھا۔ یہ ائیر مارشل کی انتظامی اور قائدانہ صلاحیتوں کا کمال تھا کہ محض چند برسوں کے اندر انھوں نے فضائیہ کو دنیا کی چند معروف فضائی افواج کی صف میں لاکھڑا کیا۔

ان کی اصول پسندی کی دوسری مثال یہ ہے کہ 1965میں رن کچھ کے مقام پر جب بھارت کے ساتھ چھیڑ چھاڑشروع ہوئی، تو فضائیہ کو اعتماد میں نہ لینے پر وہ مستعفی ہوگئے، مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان کی تیار کردہ فضائیہ نے 1965کی جنگ میں پرانے جنگی جہازوں کے ساتھ جس ماہرانہ انداز میں حصہ لیا ، وہ تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ وہ نہ صرف1965کی جنگ کے بارے میں ملکی منصوبہ سازوں کے کامیابی کے دعوؤں کو ہمیشہ رد کیاکرتے تھے ، بلکہ 1948سے کارگل محاذ آرائی تک ہونے والی ہر جنگ کے بارے میں اپنے شدید تحفظات کا اظہارکیا کرتے تھے۔1965کی جنگ کے بارے میں ان کی کتابThe war of 1965 نے خاصی مقبولیت حاصل کی۔


ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں قومی ائیر لائین کی سربراہی سونپی گئی۔ ان کی آمد سے قبلPIA ایک عام سی ائیر لائن تھی، لیکن انھوں نے اپنی انتظامی اور ماہرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے دنیا کی دس بہترین ائیر لائنوں کی صف میں لاکھڑا کیا، مگر یہاں پھر ان کے ایوب خان سے اختلافات ہوگئے اور وہ مستعفی ہوکر سیاست کی جانب راغب ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب طلبہ کے ملک گیر مظاہرے شروع ہوچکے تھے۔ بھٹو پیپلز پارٹی قائم کرکے ایوب خان کے خلاف میدان میں اتر چکے تھے، ابتدا میں انھوں نے بھٹو کا ساتھ دیا۔

بھٹو کے سیاسی انداز سے غیر مطمئن ہوکر جسٹس پارٹی کے نام سے اپنی الگ جماعت تشکیل دی، مگر سال بھر بعد ہی اس جماعت کو نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کی پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی (PDP)میں ضم کردیا، مگر جلد ہی غیر مطمئن ہوکر ان سے الگ ہوگئے اور 1970 کے اوائل میں تحریک استقلال کے نام سے ایک نئی جماعت تشکیل دی۔

ائیر مارشل گو کہ اعلیٰ پائے کے منتظم تھے، لیکن انھیں سیاستدانوں کی طرح شاطرانہ چالیں نہیں آتی تھیں، اس لیے ہربار کوئی نہ کوئی ٹھوکر کھا جاتے تھے۔ کبھی ان کا کھراپن اور بااصول ہونا آڑے آتا، کبھی ان کی دیانت داری رکاوٹ بنتی رہی اور کبھی متلون مزاجی۔مگر ان کی سب سے بڑی خوبی ان کی اخلاقی جرأت اور بے باک (Blunt) ہونا تھا۔ وہ اپنے خیالات کا بغیر کسی مصلحت اور نفع نقصان کی پرواہ کیے بغیر اظہار کردیا کرتے تھے۔جس کی ان گنت مثالیں ہیں۔

مارچ1971 میں جب سابقہ مشرقی پاکستان میں حکومت پاکستان نے آپریشن کا فیصلہ کیا، تو وہ گنتی کے ان چند رہنماؤں میں شامل تھے، جنہوں نے اس عمل کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ بھٹومخالفت میں بننے والے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد (PNA) میں اس حد تک فعال ہوگئے کہ اس وقت کے بری فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق کو آئینی کردار ادا کرنے کے لیے خط تک لکھ ڈالا۔جو ان کے سیاسی کیرئیر پر ایک داغ بن گیا، لیکن 1979میںجب بھٹو کو پھانسی دی گئی، تووہ پہلے سیاسی رہنما تھے جنہوں نے اسے عدالتی قتل قرار دیا۔

1980میں جب مفتی محمود ، نوابزادہ نصراللہ خان اور بیگم نصرت بھٹو مرحومہ نے تحریک بحالی جمہوریت (MRD)تشکیل دی تواس میں آمریت کے خلاف ایک بار پھر فعال ہوگئے۔ جمہوریت کی بحالی کے لیے ہونے والی جدوجہد میں اتنی سرگرمی سے حصہ لیا کہ جنرل ضیا انھیں گھر میں نظر بند کرنے پر مجبور ہوگیا، مگر وہ اپنے ضمیر کی آواز پرہمیشہ میدان عمل میں مستعد رہے۔

اصغرخان کی جرأت مندی کی ایک مثال ان کا ایک خفیہ ایجنسی کی جانب سے سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کوپیپلز پارٹی کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد (IJI)کی تشکیل پر آمادہ کرنے کی خاطردی جانے والی رقم کے معاملے کو عدالت عظمیٰ میں لے جانا ہے، جس کا فیصلہ طویل عرصے کے بعد جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں سامنے آیا، مگر اس پر عمل درآمد ہنوز تشنہ تعبیر ہے، جس کی آرزو لیے وہ اس دنیا سے چلے گئے۔

ان کی جماعت تحریک استقلال کا منشور حقیقی معنی میں لبرل، سیکیولر اور متوسط طبقے کے تصورات کا ترجمان تھا، مگر ان کی متلون مزاجی کے سبب یہ جماعت ملکی سیاست میں کوئی نمایاں کردار ادا نہیں کرسکی۔ گوکہ اس جماعت نے ملک کے سیاسی افق پر چمکنے والی کئی سیاسی شخصیات دیں، جن میں میاں نواز شریف، بیرسٹر اعتزاز احسن، میاں خورشید محمود قصوری، نثار کھوڑو سمیت ان گنت سیاسی ر ہنما اور کارکن شامل ہیں جنہوں نے تحریک استقلال کی سیاسی نرسری سے تربیت حاصل کرنے کے بعد ملک کی دیگر جماعتوں میںجا کر وزارت عظمیٰ سے وزارت خارجہ و داخلہ سمیت اہم عہدوں پرذمے داریاں نبھائیں، مگر اس جماعت کو خود کبھی اقتدار میں آنا نصیب نہیں ہوا۔

بہر حال ائیر مارشل اصغر خان کی موت سے پاکستان میں شرافت، جرأت مندی اور شفاف طرزسیاست کا ایک اور باب بند ہوگیا۔ ان کی زندگی کے نشیب وفراز سیاسیات کے طالب علموں اور متوشش شہریوں کو بہت کچھ سیکھانے اور سمجھانے کا ذریعہ ہے۔ بشرطیکہ ہم ان رہنماؤں کے طرزعمل سے کچھ سیکھنے پر آمادہ ہوں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی مغفرت کرے۔کیا عجب قلندر صفت انسان تھے، جو اپنی با وقار یادیں چھوڑ گئے ہیں۔
Load Next Story