ٹرمپ سے کس طرح نمٹا جائے
پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ امریکی صدر کے بیان کو اتنی زیادہ اہمیت نہ دیتا اور صبر و تحمل سے کام لیتا۔
ISLAMABAD:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بارے میں یہ تاثر بڑی کامیابی کے ساتھ پیدا کر لیا ہے کہ وہ تنازعات کو جنم دینے کی لامحدود صلاحیت رکھتے ہیں، ابھی امریکا اور باقی دنیا ان کے کسی پچھلے بیان یا اقدام پر تنقید یا مذمت ہی کر رہی ہوتی ہے کہ وہ ایک نئی پھلجھڑی چھوڑ دیتے ہیں۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنیکا معاملہ ابھی گرم ہی تھا کہ انھوں نے ٹویٹ کے ذریعے پاکستان کو لتاڑ دیا۔
سوشل میڈیا پر نئے سال کے اپنے پہلے پیغام میں انھوں نے پاکستان کو جھوٹا اور دھوکے بازگردانتے ہوئے اعتراف کیا کہ ہم نے 15سال میں 33ارب ڈالردیکر بیوقوفی کی، پاکستان ہمارے رہنماؤں کو بیوقوف سمجھتا ہے، دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتا ہے اور افغانستان میں دہشت گردوں کو نشانہ بنانے میں ہمیں معمولی مدد دیتا ہے۔
اس بیان سے ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر کام کرتے ہیں، پاکستان پر اتنے سخت الزامات انھوں نے ٹویٹ کے ذریعے لگائے حالانکہ ایسی باتیں سرعام نہیں کی جاتیں سفارتی زبان میں اور سفارت کاروں کے ذریعے کی جاتی ہیں، مگر ڈونلڈ ٹرمپ شاید ٹویٹ کے ذریعے سفارت کاری کا ایک نیا دور شروع کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ امریکی صدر کے بیان کو اتنی زیادہ اہمیت نہ دیتا اور صبر و تحمل سے کام لیتا، رد عمل کے طور پر زیادہ سے زیادہ ایک ٹویٹ کردیا جاتا اور پھر خاموشی سے ٹرمپ انتظامیہ کے اہم عہدیداروں سے رابطہ کیا جاتا اور خاموش سفارت کاری سے دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمی و بدگمانی کی دیوار گرانے کی کوشش کی جاتی جس کا سب سے بڑا سبب افغانستان کی موجودہ صورت حال ہے جہاں طالبان پوری طرح امریکی فوج کے قابو میں نہیں آ رہے جب کہ ٹرمپ جلد از جلد افغانستان میں اپنی فوجی فتح کا اعلان کرنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے ڈیموکریٹس مخالفین کو نیچا دکھا سکیںکہ تم جو کام برسوں میں نہیں کر سکے وہ میں نے چٹکی بجاتے ہی انجام تک پہنچا دیا ہے۔
ٹرمپ کے سخت بیان کے بعد پاکستان نے اسی دن امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج ریکارڈ کرایا۔ امریکی سفیر پر واضح کیا کہ اربوں ڈالر کی امداد کا بیان بالکل غلط ہے ، اس کی وضاحت پیش کی جائے، ٹرمپ کے بیان سے پیدا شدہ ہلچل پر اگلے دن وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کاہنگامی اجلاس ہوا۔
کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ پاکستان امریکی صدر کے الزامات کے باوجود جلد بازی میں کوئی قدم نہیں اٹھائے گا، کمیٹی نے واضح کیا کہ پاکستان کو افغانستان میں اتحادیوں کی ناکامی کا ذمے دار قرار نہیں دیا جاسکتا اور قوم اپنے وطن کی حفاظت کرنا جانتی ہے، پاکستان پر الزام لگا کر افغانستان میں امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے قبل آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس بھی ہوئی جس میںصورتحال پرتفصیلی غورکیا گیا اور حکومت کے لیے سفارشات تیار کی گئیں۔چین نے فوری طور پر پاکستان کی حمایت کی اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ عالمی برادری کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی غیر معمولی خدمات کو تسلیم کرنا چاہیے۔روس اور ترکی نے بھی پاکستان کی حمایت میں آواز بلند کی ہے مگر افسوس کسی قابل ذکرعرب مسلم ملک مصر یا سعودی عرب نے اب تک پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔ایران'ملائشیا اور انڈونیشیا بھی خاموش ہیں۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے درمیان اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں تاہم اس مرتبہ یہ تعلقات انتہائی نچلی سطح پر اس وقت پہنچے جب امریکی صدر نے افغان پالیسی کا اعلان کیا اور پاکستان کی اہمیت کو یکسر نظرانداز کرکے بھارت کو اپنا اسٹرٹیجک اتحادی بنا لیاظاہر ہے کہ پاکستان اس امریکی اقدام سے خوش نہیں ۔
نئی افغان پالیسی کے بعد وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن اور پھر وزیر دفاع جیمز میٹس کے پاکستان کے دورے، نائب امریکی صدر مائیک پنس کا افغانستان میں پاکستان کو دھمکی آمیز پیغام اور اب امریکی صدر کا انتہائی سخت بیان، یہ سب چیزیں واضح کررہی ہیں کہ امریکا پاکستان کو دیوار کے ساتھ لگانے پر تلا ہوا ہے اور اپنے بیانیے کو درست تسلیم کرانے کے لیے کسی حد تک بھی جاسکتا ہے۔
پاک امریکا تعلقات کو جو خطرات پہلے صرف بیانات کی سطح پر تھے اسے اب ٹرمپ انتظامیہ نے پالیسی کی شکل دیدی ہے جس کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان کونئی حکمت عملی وضع کرنی ہو گی اور امریکا کی ناراضی کو جو غصے کی سطح تک پہنچ چکی ہے اس کو ٹھنڈ ا کرنے کی تدبیرکرنا ہو گی اس کا م کے لیے پاکستان کو ایسے ممالک کی مدد لینا ہو گی جن کی بات امریکا میں سنی جاتی ہے ۔
پاکستان پر الزامات لگاتے ہوئے ٹرمپ یہ حقیقت بھول گئے کہ جن ڈالروں کی وہ بات کر رہے ہیں وہ امریکا نے پاکستان کو خیرات میں نہیں دیے بلکہ ان خدمات اور سہولتوں کے معاوضے کے طور پر ادا کیے جو پاکستان نے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کو مہیا کیں۔ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ میں 33ارب ڈالر کی جس امداد کا ذکر کیا ہے، خود امریکی اداروں کی رپورٹ نے ٹرمپ کے اس جھوٹ کو بے نقاب کردیا ہے۔
کانگریشنل ریسرچ سروس کی جاری رپورٹ کے مطابق امریکا نے پاکستان کو 2002 سے اب تک صرف 19 ارب ڈالر امداد دی ہے جب کہ 14 ارب 50 کروڑ ڈالر وہ رقم ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگی اخراجات کی مد میں ادا کی گئی ہے۔
اگر امریکی صدر پاکستان کو 33ارب ڈالر دیکر یہ توقع کررہے ہیں کہ وہ افغانستان میں امریکا کو جنگ میں کامیابی دلائے گا تو پھر ٹرمپ کو پاکستان پر الزامات لگانے سے پہلے اپنے اداروں سے معلوم کرنا چاہیے تھا کہ 15سال میں افغانستان میں 900 ارب ڈالرز سے لے کر 1.2کھرب ڈالرز کے خرچ اور ایک لاکھ سے زائد فوجیوں کے افغانستان میں قیام کے باوجود امریکا کو کامیابی کیوں نہیں ملی ہے؟
دنیا جانتی ہے کہ نائن الیون کے بعد اگر پاکستان امریکا کو لاجسٹک سپورٹ فراہم نہ کرتا تواس کی مشکلات ہزاروں گنا بڑھ جاتیں، اس جنگ میں شرکت کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت اور معاشرت کو خاصا نقصان پہنچا ہے، 120ارب ڈالر کے مالی نقصان کے ساتھ پاکستان کے ہزاروں فوجی اور شہری افغانستان پر امریکا کی فوج کشی کے باعث پاکستان کے اندر ہونے والی دہشت گردی اور اس کے خاتمے کے لیے کی گئی بلا امتیاز کارروائیوں میں جاں بحق ہوچکے ہیں، لیکن اس کے باوجود امریکا پاکستان ہی کومورد الزام ٹہرا رہا ہے ۔
مبصرین کی نظر میں نئے سال میں نہ صرف پاک امریکا تعلقات میں کشیدگی بڑھے گی بلکہ جنوبی ایشیاء میں بھارت و امریکی اشتراک سے پاکستان کے لیے نئے چیلنجز درپیش ہونگے، پاکستان کو ڈرون حملوں اور معاشی پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔
ایسے حالات میں جوش کے بجائے ہوش سے کام لیناہو گا۔ اس پیچیدہ اور گمبھیر صورت حال کے تناظر میں پاکستان کو خطے کے ممالک بالخصوص اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بناکر انھیں اعتماد میں لینا چاہیے، جیسا کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں 6 ملکی اسپیکرز کانفرنس ہوئی، جس میں پاکستان، ایران، ترکی، افغانستان، چین اور روس کے پارلیمانی سربراہان و مندوبین نے شرکت کی، اس کانفرنس کے ذریعے پاکستان کو ایک پرامن اور دہشت گردوں کا دشمن ملک ثابت کرنے کی ایک مثبت اور خوش آیند کوشش کی گئی۔
چھ ملکی اسپیکرز کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے اس کے موقف کی تائید اس امر کی مظہر ہے کہ یہ ممالک جغرافیائی طور پر پاکستان کی اہمیت سے بخوبی آگاہ اور اس سے بہتر تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔
پاکستان کے پالیسی سازوں کوبڑی برد باری کے ساتھ امریکا کی بدلتی ہوئی پالیسی پر گہری نظر رکھ کر ممکنہ چیلنجز سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے، یہ وقت اجتماعی دانش کو بروئے کار لانے کا ہے، حکومت سیاسی اور عسکری رہنماؤں کے ساتھ سرجوڑ کر بیٹھے، مشترکہ حکمت عملی وضع کی جائے، دوست ملکوں اور اپنے عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔مسئلہ بے حد سنگین اور پیچیدہ ہے اس لیے بہترین قومی مفاد میں یہ ہوگا کہ جذبات میں آکر کسی بھی مہم جوئی سے گریزکیا جائے۔
خوش آیند امر یہ ہے کہ خود امریکا میں ٹرمپ اپنے اقدامات کے باعث تیزی سے غیر مقبول ہوتے جا رہے ہیںاور کوئی بعید نہیں کہ ان کے قریبی رفقا ایک ایک کر کے ساتھ چھوڑنا شروع کر دیں۔صحافی مائیکل وولف کی تہلکا خیز کتاب فائر اینڈ فیوری میں یہی پیش گوئی کی گئی ہے کہ ٹرمپ اپنے ہی اقدامات کے نتیجے میں بے توقیر ہو جائیں گے اس وقت تک پاکستان صبروتحمل سے کام لے اور امریکی امداد کی معطلی سے معیشت پر پڑنے والے ممکنہ منفی اثرات سے نمٹنے کی تدبیر کرے۔
پاکستان ایک خود مختار ملک ہے، اسے حقیقی معنوں میں اپنے فیصلے خود کرنے والا ملک بنایا جائے تو عوام بھی دل و جان سے حکومت کے ہر اقدام کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ امریکا کے لیے بہترہو گا کہ وہ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست سے سبق سیکھے اور افغانستان میں قیام امن کے لیے افغان عوام کے تمام طبقوں کے ساتھ کھلے دل کے ساتھ مذاکرات کرے ' طاقت کے زور پر اپنی بات منوانے کی پالیسی ترک کرے کیوں کہ پندرہ سال تک جنگ و جدل کا بازارگرم رکھنے کے باوجود وہ پورے افغانستان میں اپنی قائم کردہ پہلی حامد کرزئی اور اب دوسری اشرف غنی حکومت کی عملداری قائم نہیں کرسکا۔