4 سال قبل مغل پورہ کے علاقے میں کمسن بچی کے اغوا، زیادتی اور قتل میں ملوث مجرم تاحال بھی نہ مل سکے۔
صوبے بھر میں بچوں کے اغوا اور زیادتی کے واقعات پنجاب پولیس کیلیے درد سر بن گئے، قصور زیادتی اسکینڈل کے بعد ایک بار پھر قصور ہی میں کمسن بچی کے اغوا، زیادتی اور قتل کے واقعے نے ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے، لاہور میں 4 سال قبل مغل پورہ کے علاقے میں کمسن بچی کے اغوا، زیادتی اور قتل میں ملوث مجرم تاحال بھی نہ مل سکے۔
مغل پورہ زیادتی کیس کا اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سمیت وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے بھی نوٹس لیا تھا، 2013 میں پیش آنے والے واقعے میں پولیس نے متعدد افرادکومشکوک جان کر حراست میں لیا تھا تاہم جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم، سی آئی اے ٹیموں سمیت پولیس تفتیش کسی بھی ملزم کو مجرم ثابت نہ کر سکی اور حراست میں لیے گئے تمام افراد ایک ایک کر کے رہا ہوتے رہے۔
فارنسک لیب کی مدد سے ملزم کا ڈی این اے تو حاصل کیا گیا مگر پولیس ملزم تک نہ پہنچ سکی، مغل پورہ زیادتی کیس میں بچی کو گھر کے باہر سے اغوا کر کے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اس کی لاش اسپتال سے ملی تھی۔
مغل پورہ زیادتی کیس کے بعدگرین ٹاؤن میں کمسن بچے کو زیادتی کا نشانہ بنا کر لاش مسجد کے پنکھے سے لٹکا دی گئی تھی، اس کیس کا مجرم شعیب پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا جبکہ ہنجروال میں زیادتی کا نشانہ بننے والی بچی اور ہربنس پورہ میں زیادتی کا نشانہ بننے والی بچی کے ملزمان بھی پکڑے گئے۔
علاوہ ازیں سبزہ زار میں چند ہفتے قبل کمسن بچی کو اس کے محلے داروں نے اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا اور گلا دبا کر قتل کردیا، اس کیس کا ملزم بھی پولیس مقابلے میں مارا گیا، واضح رہے کہ 2016 کی نسبت گزشتہ سال اغوا اور زیادتی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔