کیا واقعی پی آئی اے ٹائی ٹینک کی طرح ڈوب رہا ہے
پی آئی اے کا ایک تابناک دورتھا جب خودکوایشیا کی بہترین ایئرلائن منوایا،اب 400 ارب کامالی خسارہ۔
پی آئی اے میں بڑھتے واقعات محض اتفاق ہیں، یا پھر ان غیرمعمولی اورانہونی باتوں کے تانے بانے کہیں اوربنے جارہے ہیں۔
چند روز قبل فلائٹ کچن میں بغیردستانے کھانے پیک کرنے سمیت رونما ہونے والے دیگرغیرمعمولی واقعات کہیں اس بات کا اشارہ تونہیں کہ سوچی سمجھی سازش کے تحت جان بوجھ کربدنامی کا طوق قومی ایئرلائن کے گلے میں ڈالا جارہا ہو، اوپن اسکائی پالیسی کے ذریعے پے درپے نقصان پہنچا کرکیا قومی ایئرلائن کوعلاقائی ایئرلائن تک محد ودکیے جانے کی سازش پر عمل ہورہاہے؟۔
بہت زیادہ پرانی بات نہیں بلکہ ماہ وسال پہلے کی بات ہے کہ پی آئی اے کے جہاز اپنی تابندہ روایات کے ساتھ دنیا بھرکے ہوائی اڈوں پر اتراکرتے تھے،یہ پی آئی ایک کا وہ تابناک دورتھا،جب اس کے پاس عصرحاضر کے مختلف گنجائش والے جدید جہازوں کے بیڑے کے علاوہ انتہائی ماہراورقابل کپتانوں کی بھرپورٹیم اورجہازوں کے ہنرمندوں کی فوج ظفر موج تھی۔
اس دور میں قومی ایئرلائن نے نہ صرف مشرق بعیدکے بیشترممالک کے جہازوں کی مرمت اوران کوانتظامی طورپر پاؤں پرکھڑاکرنے کے متعدد عملے مظاہرے کیے بلکہ اس کے پاس خودکوایشیا کی بہترین ایئرلائن منوانے کے لیے ایک پورا انتظامی ڈھانچہ موجود تھا مگر پھر گزرتے برسوں کے ساتھ پی آئی اے حکومت کے لیے ایک ایسا سفید ہاتھی بن گیا،جو 400 ارب کے مالی خسارے تلے دبنے سے۔
نوبت یہاں تک پہنچی کہ اسے ہر ماہ اور بسااوقات یومیہ بنیاد پربھاری بھرکم رقوم جاری کرکے مصنوعی سانسیں دینا پڑ رہی ہیں،یہاں تک کہ موجودہ مشیر ہوابازی نے اس ایئر لائن کو ٹائی ٹینک جہاز تک کہہ دیا،ماضی بعید میں قومی ایئرلائن سے منسلک غیرمعمولی واقعات پراگرایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو ایک لمبی فہرست ہے مگردوروز قبل فلائٹ کچن کے منظرعام پر آنے والے واقعے نے تو اگلا پچھلا ساراحساب برابرکردیا۔
تصویروں میں کچن کے مختلف حصوں میں موجود فلائٹ کچن کا عملہ نہ صرف بغیر دستانوں کے سلاد کے لیے کھیراتراش رہا ہے بلکہ مسافروں کو جہازوں پر فراہم کرنے والے لنچ باکسز میں بغیر دستانوں،چمچ یا کفگیر کے سالن اور چاول دونوں ہاتھوں سے مٹھی بھربھر کے ڈال رہے ہیں۔
ترجمان کی جانب سے جاری اعلامیے میں اسے ایک سازش قراردیا گیا اور یہ دلیل پیش کی گئی کہ یہ واقعہ پی آئی اے کو بدنام کرنے کے لیے گھڑا گیا ہے کیونکہ فلائٹ کچن کے اندر موجود عملہ اس بات سے آگاہ ہے کہ ان کی تصویریں بن رہی ہیں،ایک لمحے کے لیے اگر ایسا تصور کر بھی لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عملے کے ان افراد کے خلاف کارروائی کے لیے کیا کوئی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی ؟۔
کیا تصویروں میں پہچانے جانے والے ملازمین کے خلاف کوئی محکمانہ کارروائی عمل میں لائی گئی؟۔آئندہ ایسے واقعات کے تدارک کے لیے کیا خصوصی اقدامات کیے گئے اورسب سے اہم سوال کے اگر ایسا ہو رہا تھا تو پی آئی اے کے سیکیورٹی،ویجلنس والے کہاں تھے اور کیا یومیہ بنیاد پر فلائٹ کچن میں کھانے کا معیار چیک نہیں کیا جاتا ؟۔
فلائٹ کچن اسکینڈل پر پی آئی اے انتظامیہ کی مجرمانہ خاموشی اس بات کی غماز ہے کہ پچھلے واقعات کی طرح یہ معاملہ بھی دبا دیا گیا ہے، ورنہ تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پی آئی اے انتظامیہ اس واقعے کو بے نقاب کر نے کے لیے حتی المقدور اپنی کوشش ضرور کرتی، ایئر لائن انتظامیہ شاید اس لاپروائی اور محکمانہ غفلت میں ایک بات یکسرفراموش کردیتی ہے کہ آج بھی پاکستان کے سادہ شہر ی جہاز کی ٹیل پر بنے قومی پرچم کو دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور اتنی خرابیوں کے باوجود دیگر ملکی اور خلیجی ممالک کی ایئرلائنوں پر پی آئی اے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اب ایک نظر پی آئی اے کے دامن کو آلودہ کرنے والے ملے جلے واقعات پر بھی ڈال لی جائے،برطانیہ سمیت یورپ اور امریکا کے مختلف بین الاقومی ہوائی اڈوں جہاز کے عملے سے مہنگے ترین موبائل فونز اورپرفیوم کی برآمدگی کے بعد ماضی قریب میںکچھ دیگر ایسے واقعات مشاہدے میں آئے جسے دیکھ کر اس با ت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ غیر دانستہ طور پر نہیں ہورہا بلکہ جان بوجھ کر بھی ان واقعات کے ذریعے قومی ایئرلائن کی بدنامی کا سامان پیداکیا جاتاہے۔
وی آئی پی پروٹوکول کے لیے جہازوں کو کئی کئی گھنٹے روکنا، مہنگے ترین کرایوں پر بیرون ملک سے لیز پرجہازوں کا حصول ، ایک چینی مسافر خاتون کو کاک پٹ کی سیرکروانا ،جہازوں سے بالتریب 25 کلو ،14 کلو اور 7 کلو ہیروئن برآمد ہونا ،پی آئی اے کے ایک اے تھری ٹین جہاز کو ناکارہ قرادیے جانے کے بعد بیرون ملک کے میوزیم کو سونپنا اور پھر اس کا اسرائیلی فلم میں استعمال ہونا ،یا پھر نیویارک کے تاریخی روٹ کو بند کر نے جیسے اقدامات یقینی طورپر کچھ گڑبڑکا احساس دلارہے ہیں کیونکہ نیویارک کو جن وجوہ کی بنا پر بند کیا گیا کم وبیش وہی وجوہ ٹورنٹو کے بین الاقوامی روٹ سے بھی جڑی ہیں۔
اوپن اسکائی پالیسی کے ذریعے پی آئی اے کی ریڑھ کی ہڈی پرجو ضرب لگائی گئی ہے وہ بھی کیا محض اتفاق ہے،پاکستان میں 2016 میں نافذ ہونے والی اوپن اسکائی پالیسی کی وجہ سے کراچی ،لاہور ،اسلام آباد ،سیالکوٹ ،پشاور ،کوئٹہ ،فیصل آباد ،ملتان سمیت ملک کے چھوٹے بڑے ایئر پورٹس پر خلیجی ممالک کو پروازیں اڑانے کے اجازت نامے سول ایوی ایشن نے ریوڑیوں کی طرح بانٹے ہیں اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ تمام خلیجی ایئر لائنیں ہفتہ وار بنیاد پر 450 سے زائد پروازیں آپریٹ کررہی ہیں۔
دنیا بھر میں اوپن اسکائی پالیسی کو رد کیا جاتارہا ہے،اور فیئراسکائی پالیسی کی سفارش کی جاتی ہے جس میں ملک کی نیشنل کیریئر کو فوائد کے لحاظ سے ترجیح دی جاتی ہے ، امریکا جیسا ملک بھی اپنے یہاں اوپن اسکائی پالیسی کو رد کرچکا ہے۔
چند روز قبل فلائٹ کچن میں بغیردستانے کھانے پیک کرنے سمیت رونما ہونے والے دیگرغیرمعمولی واقعات کہیں اس بات کا اشارہ تونہیں کہ سوچی سمجھی سازش کے تحت جان بوجھ کربدنامی کا طوق قومی ایئرلائن کے گلے میں ڈالا جارہا ہو، اوپن اسکائی پالیسی کے ذریعے پے درپے نقصان پہنچا کرکیا قومی ایئرلائن کوعلاقائی ایئرلائن تک محد ودکیے جانے کی سازش پر عمل ہورہاہے؟۔
بہت زیادہ پرانی بات نہیں بلکہ ماہ وسال پہلے کی بات ہے کہ پی آئی اے کے جہاز اپنی تابندہ روایات کے ساتھ دنیا بھرکے ہوائی اڈوں پر اتراکرتے تھے،یہ پی آئی ایک کا وہ تابناک دورتھا،جب اس کے پاس عصرحاضر کے مختلف گنجائش والے جدید جہازوں کے بیڑے کے علاوہ انتہائی ماہراورقابل کپتانوں کی بھرپورٹیم اورجہازوں کے ہنرمندوں کی فوج ظفر موج تھی۔
اس دور میں قومی ایئرلائن نے نہ صرف مشرق بعیدکے بیشترممالک کے جہازوں کی مرمت اوران کوانتظامی طورپر پاؤں پرکھڑاکرنے کے متعدد عملے مظاہرے کیے بلکہ اس کے پاس خودکوایشیا کی بہترین ایئرلائن منوانے کے لیے ایک پورا انتظامی ڈھانچہ موجود تھا مگر پھر گزرتے برسوں کے ساتھ پی آئی اے حکومت کے لیے ایک ایسا سفید ہاتھی بن گیا،جو 400 ارب کے مالی خسارے تلے دبنے سے۔
نوبت یہاں تک پہنچی کہ اسے ہر ماہ اور بسااوقات یومیہ بنیاد پربھاری بھرکم رقوم جاری کرکے مصنوعی سانسیں دینا پڑ رہی ہیں،یہاں تک کہ موجودہ مشیر ہوابازی نے اس ایئر لائن کو ٹائی ٹینک جہاز تک کہہ دیا،ماضی بعید میں قومی ایئرلائن سے منسلک غیرمعمولی واقعات پراگرایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو ایک لمبی فہرست ہے مگردوروز قبل فلائٹ کچن کے منظرعام پر آنے والے واقعے نے تو اگلا پچھلا ساراحساب برابرکردیا۔
تصویروں میں کچن کے مختلف حصوں میں موجود فلائٹ کچن کا عملہ نہ صرف بغیر دستانوں کے سلاد کے لیے کھیراتراش رہا ہے بلکہ مسافروں کو جہازوں پر فراہم کرنے والے لنچ باکسز میں بغیر دستانوں،چمچ یا کفگیر کے سالن اور چاول دونوں ہاتھوں سے مٹھی بھربھر کے ڈال رہے ہیں۔
ترجمان کی جانب سے جاری اعلامیے میں اسے ایک سازش قراردیا گیا اور یہ دلیل پیش کی گئی کہ یہ واقعہ پی آئی اے کو بدنام کرنے کے لیے گھڑا گیا ہے کیونکہ فلائٹ کچن کے اندر موجود عملہ اس بات سے آگاہ ہے کہ ان کی تصویریں بن رہی ہیں،ایک لمحے کے لیے اگر ایسا تصور کر بھی لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عملے کے ان افراد کے خلاف کارروائی کے لیے کیا کوئی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی ؟۔
کیا تصویروں میں پہچانے جانے والے ملازمین کے خلاف کوئی محکمانہ کارروائی عمل میں لائی گئی؟۔آئندہ ایسے واقعات کے تدارک کے لیے کیا خصوصی اقدامات کیے گئے اورسب سے اہم سوال کے اگر ایسا ہو رہا تھا تو پی آئی اے کے سیکیورٹی،ویجلنس والے کہاں تھے اور کیا یومیہ بنیاد پر فلائٹ کچن میں کھانے کا معیار چیک نہیں کیا جاتا ؟۔
فلائٹ کچن اسکینڈل پر پی آئی اے انتظامیہ کی مجرمانہ خاموشی اس بات کی غماز ہے کہ پچھلے واقعات کی طرح یہ معاملہ بھی دبا دیا گیا ہے، ورنہ تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پی آئی اے انتظامیہ اس واقعے کو بے نقاب کر نے کے لیے حتی المقدور اپنی کوشش ضرور کرتی، ایئر لائن انتظامیہ شاید اس لاپروائی اور محکمانہ غفلت میں ایک بات یکسرفراموش کردیتی ہے کہ آج بھی پاکستان کے سادہ شہر ی جہاز کی ٹیل پر بنے قومی پرچم کو دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور اتنی خرابیوں کے باوجود دیگر ملکی اور خلیجی ممالک کی ایئرلائنوں پر پی آئی اے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اب ایک نظر پی آئی اے کے دامن کو آلودہ کرنے والے ملے جلے واقعات پر بھی ڈال لی جائے،برطانیہ سمیت یورپ اور امریکا کے مختلف بین الاقومی ہوائی اڈوں جہاز کے عملے سے مہنگے ترین موبائل فونز اورپرفیوم کی برآمدگی کے بعد ماضی قریب میںکچھ دیگر ایسے واقعات مشاہدے میں آئے جسے دیکھ کر اس با ت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ غیر دانستہ طور پر نہیں ہورہا بلکہ جان بوجھ کر بھی ان واقعات کے ذریعے قومی ایئرلائن کی بدنامی کا سامان پیداکیا جاتاہے۔
وی آئی پی پروٹوکول کے لیے جہازوں کو کئی کئی گھنٹے روکنا، مہنگے ترین کرایوں پر بیرون ملک سے لیز پرجہازوں کا حصول ، ایک چینی مسافر خاتون کو کاک پٹ کی سیرکروانا ،جہازوں سے بالتریب 25 کلو ،14 کلو اور 7 کلو ہیروئن برآمد ہونا ،پی آئی اے کے ایک اے تھری ٹین جہاز کو ناکارہ قرادیے جانے کے بعد بیرون ملک کے میوزیم کو سونپنا اور پھر اس کا اسرائیلی فلم میں استعمال ہونا ،یا پھر نیویارک کے تاریخی روٹ کو بند کر نے جیسے اقدامات یقینی طورپر کچھ گڑبڑکا احساس دلارہے ہیں کیونکہ نیویارک کو جن وجوہ کی بنا پر بند کیا گیا کم وبیش وہی وجوہ ٹورنٹو کے بین الاقوامی روٹ سے بھی جڑی ہیں۔
اوپن اسکائی پالیسی کے ذریعے پی آئی اے کی ریڑھ کی ہڈی پرجو ضرب لگائی گئی ہے وہ بھی کیا محض اتفاق ہے،پاکستان میں 2016 میں نافذ ہونے والی اوپن اسکائی پالیسی کی وجہ سے کراچی ،لاہور ،اسلام آباد ،سیالکوٹ ،پشاور ،کوئٹہ ،فیصل آباد ،ملتان سمیت ملک کے چھوٹے بڑے ایئر پورٹس پر خلیجی ممالک کو پروازیں اڑانے کے اجازت نامے سول ایوی ایشن نے ریوڑیوں کی طرح بانٹے ہیں اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ تمام خلیجی ایئر لائنیں ہفتہ وار بنیاد پر 450 سے زائد پروازیں آپریٹ کررہی ہیں۔
دنیا بھر میں اوپن اسکائی پالیسی کو رد کیا جاتارہا ہے،اور فیئراسکائی پالیسی کی سفارش کی جاتی ہے جس میں ملک کی نیشنل کیریئر کو فوائد کے لحاظ سے ترجیح دی جاتی ہے ، امریکا جیسا ملک بھی اپنے یہاں اوپن اسکائی پالیسی کو رد کرچکا ہے۔