سوا ارب بھارتیوں کی معلومات 500 روپے میں دستیاب

دنیا کے سب سے بڑے بایومیٹرک ڈیٹابیس میں نقب لگالی گئی۔


ندیم سبحان میو January 11, 2018
وہ سوفٹ ویئر بھی حاصل کیا گیا جس کے ذریعے جعلی آدھار کارڈ چھاپے جاسکتے ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

یونیک آئڈنٹیفکیشن اتھارٹی آف انڈیا ( یو آئی ڈی اے آئی) بھارت کا سرکاری ادارہ ہے جس کا قیام 2009ء میں عمل میں آیا تھا۔

اتھارٹی کے قیام کا مقصد فرداً فرداً تمام بھارتی شہریوں کی معلومات حاصل کرکے انھیں ایک ڈیٹا بیس کی شکل دینا تھا۔ چناں چہ یو آئی ڈی اے آئی کے تحت '' آدھار کارڈ'' کے پروجیکٹ پر کام شروع ہوا۔ اس منصوبے کے تحت شہریوں کو آدھار کارڈ کا اجرا شروع کیا گیا۔

اس کارڈ کے لیے ملک بھر میں مراکز قائم کیے گئے جہاں شہری آکر اپنی تمام معلومات بہ شمول نام، ولدیت، پتا، تصویر وغیرہ کی معلومات جمع کرواتے اور پھر انھیں آدھار کارڈ جاری کردیا جاتا۔ ہر کارڈ کا بارہ ہندسی نمبر جُدا جُدا ہوتا ہے جو صرف حامل کارڈ کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ یو آئی ڈی اے آئی کے ڈیٹا بیس میں یہ نمبر داخل کرنے کے بعد اس فرد کی تمام معلومات ظاہر ہوجاتی ہیں۔ یہ نظام پاکستان میں نادرا کے نظام کے طرز ہی پر ہے۔

بھارت میں آدھار کارڈ کو وہی اہمیت حاصل ہے جو پاکستان میں کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کو۔ ہر سرکاری کام کے لیے آدھار کارڈ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ نومبر 2017ء کے اختتام تک اس ڈیٹابیس میں ایک ارب انیس کروڑ بھارتیوں نیوں کی معلومات محفوظ ہوچکی تھیں۔ اس طرح آدھار دنیا کا سب سے بڑا بایومیٹرک شناختی نظام ہے۔ بھارتیوں ن نے دنیا کا سب سے بڑا بایومیٹرک شناختی نظام تو بنالیا مگر اس کی حفاظت ان کے لیے مشکل ثابت ہورہی ہے۔ اس کا ثبوت چندی گڑھ سے شایع ہونے والے ایک روزنامے تحقیقاتی رپورٹ سے ہوتی ہے۔

روزنامے کی تحقیقاتی رپورٹر نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ دنیا کا سب سے بڑا بایومیٹرک شناختی نظام اتنا غیرمحفوظ ہے کہ 500 روپے کے عوض اس تک کوئی بھی رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ روزنامہ کے مطابق ایک وٹس ایپ گروپ میں کچھ لوگ پانچ سو روپے کے عوض خفیہ کوڈ فراہم کررہے ہیں جس کے ذریعے آدھار ڈیٹا بیس میں نقب لگائی جاسکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق رپورٹر نے اتنی رقم کے عوض خفیہ کوڈ خریدا اور پھر اس کی مدد سے آدھار ڈیٹابیس میں محفوظ معلومات تک پہنچ گئی۔ علاوہ ازیں وہ سوفٹ ویئر بھی حاصل کیا گیا جس کے ذریعے جعلی آدھار کارڈ چھاپے جاسکتے ہیں۔

اس رپورٹ کے جواب میں یو آئی ڈی اے آئی نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ رپورٹر کو آدھار کے ڈیٹابیس تک جزوی رسائی حاصل ہوئی اور وہ بھی اس سہولت کے ذریعے جو کچھ سرکاری افسران کو فراہم کی گئی تھی۔ ادارے نے اس سہولت کے غلط استعمال کی اجازت دینے کے خلاف مذکورہ سرکاری افسران اور رپورٹر کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اخبار میں شایع شدہ رپورٹ سے قطع نظر آدھار سسٹم پر ناقدین نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ انٹرنیٹ سیکیورٹی کے ماہرین کاکہنا ہے کہ اتنے وسیع ڈیٹا بیس کو جو ہیکروں کے لیے بے حد کشش رکھتا ہے، سو فی صد محفوظ بنانا انتہائی مشکل ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں