شمالی کوریا نے اپنے ہی شہر پر میزائل گرا دیا

شمال مشرقی سمت میں انتالیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد یہ توک چون کے صنعتی علاقے میں جاگرا تھا۔


غ۔ع January 11, 2018
شمال مشرقی سمت میں انتالیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد یہ توک چون کے صنعتی علاقے میں جاگرا تھا۔ فوٹو: فائل

ایران امریکا تعلقات میں بہتری کے بعد سپرپاور کے دشمن اول کا اعزاز شمالی کوریا کو حاصل ہوگیا ہے۔

'عالمی ٹھیکیدار' کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا یہ واحد ملک ہے۔ کئی برسوں سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔ خاص طور سے ڈونلڈ ٹرمپ کے مسند صدارت پر براجمان ہونے کے بعد کشیدگی میں زیادہ شدت آگئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کا جواب کم جونگ اُن ایٹمی دھماکے یا میزائلوں کے تجربات کی صورت میں دیتے ہیں۔

شمالی کوریا گاہے بگاہے میزائلوں کے تجربات کرتا رہتا ہے۔ وہ ہائیڈروجن بم کا دھماکا بھی کرچکا ہے، جس کی کام یابی کے بارے میں اقوام عالم نے شبہات کا اظہار کیا تھا۔ میزائلوں کے تجربات پر بھی شبہات ظاہر کیے جاتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کم جونگ ان کے والد کم جونگ ال کے وقتوں ہی سے شمالی کوریا بیرونی دنیا کے لیے عملاً ایک ' کلوزڈ کنٹری' کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ملک سے متعلق کوئی خبر شاذ ہی اس کی سرحدوں سے باہر نکل پاتی ہے۔

عالمی میڈیا کی وہاں رسائی نہیں۔ شمالی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھنے والے سیاحوں کی بھی ہمہ وقت نگرانی کی جاتی ہے، اور انھیں کیمرے، لیپ ٹاپ وغیرہ ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ شمالی کوریا میں آزاد میڈیا کا کوئی تصور نہیں۔ تمام خبریں سرکاری نیوز ایجنسی جاری کرتی ہے۔

شمالی کوریا کے ایٹمی اور میزائل تجربات کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار مصنوعی سیاروں سے حاصل کردہ تصاویر کی بنیاد پر کیا جاتا رہا ہے۔ اسی بنیاد پر معروف آن لائن عالمی جریدے '' دی ڈپلومیٹ'' نے دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ برس اپریل میں کیا گیا میزائل کا تجربہ ناکام ہوگیا تھا اور یہ ہدف کو نشانہ بنانے کے بجائے آبادی پر جاگرا تھا۔

اپریل میں شمالی کوریا نے درمیانی مار کے حامل بیلسٹک میزائل Hwasong-12 کی آزمائش کی تھی۔ جریدے کے مطابق پرواز کے کچھ ہی دیر بعد میزائل دارالحکومت سے دو گھنٹے کی مسافت پر واقع توک چون نامی شہر پر جاگرا تھا۔ میزائل پک چانگ ایئرفیلڈ سے داغا گیا تھا۔

شمال مشرقی سمت میں انتالیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد یہ توک چون کے صنعتی علاقے میں جاگرا تھا۔ اس سے کچھ ہی دور رہائشی علاقہ تھا۔ جریدے کا کہنا ہے کہ آبادی میں گرنے کی وجہ سے یقیناً بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی ہوگی اور اموات بھی ہوئی ہوں گی، مگر حسب سابق اس کی کوئی خبر شمالی کوریا سے باہر نہیں نکل سکی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں