فراموش شدہ بھگت سنگھ

جذبات اس قدر برانگیختہ تھے کہ کوئی بھی اس کے ساتھی (ہنس راج ووہڑا) کا نام لینے پر تیار نہیں تھا


Kuldeep Nayar March 22, 2013

عجیب بات ہے کہ بھگت سنگھ کو یاد کرنے کے لیے کوئی اجلاس یا سیمینار منعقد نہ ہوا حالانکہ وہ ہر انڈین کی یادداشت میں زندہ ہے۔ میں ابھی پرائمری اسکول میں ہی تھا جب ٹھیک 82 سال قبل یعنی 23 مارچ 1931ء کو بھگت سنگھ کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ اگرچہ آٹھ سے زیادہ دہائیاں گزر چکی ہیں مگر اس نقصان کے احساس میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ برطانوی راج کے خلاف اس قدر شدید احتجاج ہوا کہ اس نے پورے ملک کو یکجان کر دیا۔

جذبات اس قدر برانگیختہ تھے کہ کوئی بھی اس کے ساتھی (ہنس راج ووہڑا) کا نام لینے پر تیار نہیں تھا جو وعدہ معاف گواہ بن گیا تھا۔ ہنس راج بھگت سنگھ کا بہت قریبی ساتھی تھا لیکن جونہی وہ گرفتار ہوا اس نے اس سارے راز اگل دیے۔ اگرچہ اس کا اپنا موقف مختلف ہے۔ اس نے کہا چونکہ سُکھ دیو نے' جسے کہ بھگت سنگھ کے ساتھ ہی پھانسی دیدی گئی تھی' اس نے سب کچھ پولیس کو بتا دیا تھا بعدازاں ہنس راج نے انگریزوں کو دیگر تفصیلات بیان کر دیں یعنی انقلابی لوگ کہاں بم بناتے تھے اور ملک میں ان میں سے بعض کے ٹھکانے کہاں کہاں تھے۔

اگرچہ بھگت سنگھ نے اپنے باپ کو اس بنا پر معاف نہیں کیا کیونکہ اس نے ٹریبونل کو باقاعدہ تحریری درخواست دی تھی کہ اس کا بیٹا بیگناہ ہے اور پولیس آفیسر جان ساونڈر کے قتل سے اس کا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ اس کا والد ایک پُر خلوص محب وطن تھا جس نے ملک کی آزادی کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی۔ اپنے بیٹے کے لیے اس کے دل میں جو پدرانہ شفقت کے جذبات تھے اس سے کبھی کبھی انقلابی بھگت سنگھ کو خجالت ہوتی تھی۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ اس کی آنکھوں میں نظر آنے والی پریشانی کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے بیٹے سے معذرت طلب کر رہا ہے۔

بھگت سنگھ نے ایک خط کے ذریعے اپنے باپ کی سرزنش کی تھی۔ اس نے ہنس راج کو لکھا ''مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ نے اس مرحلے میں اور ان حالات میں اس قسم کے عرضداشت لکھنا کیوں مناسب خیال کیا... آپ جانتے ہیں کہ سیاسی میدان میں میرے نظریات ہمیشہ آپ سے مختلف رہے ہیں۔ میں نے ہمیشہ آزادانہ طور پر کردار ادا کیا ہے اور آپ کی طرف سے اس کی توثیق کی کبھی پروا نہیں کی۔

جیل کے ہیڈ وارڈن چڑت سنگھ نے اسے اشارہ کیا کہ ملاقات کا وقت ختم ہو گیا تھا لیکن بھگت سنگھ نے پرواہ نہ کی۔ اپنی فیملی کے ساتھ محبت اس پر غالب آ چکی تھی۔ چڑت سنگھ نے اسے جلدی کرنے کو کہا۔ اس کے گھر والے اس سے یکے بعد دیگرے گلے ملتے رہے۔ اس نے اپنی ماں کے قدم چھوٹے۔ اگرچہ یہ انتہائی احترام کی علامت تھی مگر سب کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اس کی بہنیں سسکیاں لے رہی تھیں۔ بھگت سنگھ بہت پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے اپنے پیاروں کو مل جل کر رہنے کا آخری پیغام دیا' اپنے ہاتھ باندھے اور وہاں سے رخصت ہو گیا' اپنی کوٹھڑی میں واپس جاتے ہوئے اس نے سُکھ دیو اور راج گرو کو دیکھا جو ابھی تک آہنی سلاخوں کے پیچھے تنہا اور مایوس کھڑے تھے۔ چڑت سنگھ کے منع کرنے کے باوجود اس نے رک کر ان سے بات چیت کی۔

اس نے انھیں بتایا کہ بس ایک دو روز میں قصہ ختم ہونے کو تھا۔ یہ بات اس کی فیملی کے ساتھ ملاقات سے ہی ظاہر تھی۔ اپنے سیل میں واپس جاتے وقت بھگت سنگھ نے اپنے کرتے کو چھوا تو وہ اس کے اہل خانہ کے آنسوئوں سے بھیگ چکا تھا۔ اس کا سب سے چھوٹا بھائی کلتار رو رو کر ہلکان ہو رہا تھا۔ وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ چمٹ رہا تھا اور سسکیاں لے لے کر اسے الوداع کہہ رہا تھا ''تمہارے بغیر زندگی جینے کا کوئی فائدہ نہیں'' اس کا غمزدہ معصوم چہرہ بھگت سنگھ کا دل چیر رہا تھا۔ جونہی اس کے پیچھے اس کے سیل کا دروازہ بند ہوا تو اس نے اپنا پین نکالا اور بھائی کے نام اردو میں ایک خط لکھا۔ وہ اپنے نجی خطوط بالعموم اردو میں ہی لکھتا تھا۔

کلتار کو خط لکھنے کے بعد اسے امید تھی کہ اس کے الفاظ سے اس کے بھائی کو حوصلہ مل جائے گا۔ لیکن ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کا کیا ہو گا جو اس پر اعتقاد رکھتے تھے؟ اپنے بھائی کو خط لکھنے کے بعد بھگت سنگھ نے اپنی نوٹ بک نکال لی لیکن اس میں نہ وہ اپنی ذاتی باتیں لکھتا تھا اور نہ ہی کسی بات پر اپنا ردعمل بیان کرتا تھا بلکہ اس میں وہ اپنی زیر مطالعہ کتابوں میں سے اپنے پسندیدہ اقتباسات نقل کرتا تھا۔ یہ اقتباسات عموماً انگریزی میں ہوتے جن میں ارسطو' افلاطون' ڈیکارٹ' ہوبز' لاک' روسو' ٹالسٹائی' برٹرینڈ رسل' کارل مارکس اور اینگلز جیسے مفکرین شامل تھے۔

بھارتی ادیبوں میں وہ رابندر ناتھ ٹیگور اور لاجپت رائے کو پڑھتا تھا۔ بھگت سنگھ کو شاعری بھی بہت پسند تھی اور وہ ورڈز ورتھ، بائرن اور عمر خیام کی شاعری پڑھ کر جھومتا تھا لیکن اس کا سب سے زیادہ پسندیدہ شاعر غالب تھا جس کے شعروں کے وہ بہت حوالے دیتا تھا۔ اپنے گھر والوں سے آخری ملاقات نے اس کو جذباتی طور پر اندر سے ہلا کر رکھ دیا تھا تاہم بھگت سنگھ نے اپنے جذبات پر قابو پا لیا اور کتابوں کے مطالعے میں مصروف ہو گیا۔

جونہی اس کی پھانسی کی خبر پھیلی تو پوری قوم سوگ میں ڈوب گئی۔ پورے ملک میں جلوس نکلنے شروع ہو گئے۔ بہت سے لوگوں نے کھانا پینا ترک کر دیا۔ زیادہ تر لوگوں نے بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ لیں اور اظہار غم کے لیے اپنے کاروبار بند کر دیے۔ اس موقع پر تمام انگریز بھی گھروں کے اندر چھپے رہے۔ بھارتی لیڈروں میں جواہر لال نہرو پہلے تھے جنہوں نے بھگت سنگھ کو خراج عقیدت پیش کیا۔

نہرو نے کہا بھگت سنگھ ایک بے داغ لڑنے والے تھا جسں نے کھلے میدان میں نکل کر دشمن کا سامنا کیا۔ وہ ایک نوجوان جانباز تھا جس کے دل میں ملک کی بھر پور محبت موجزن تھی۔ وہ ایک ایسی چنگاری کی مانند تھا جو چشم زدن میں شعلہ جوالا بن کر شہر شہر پھیل گیا اور پورے ملک میں چھا گیا۔ جس سے تاریکی چھٹ گئی اور چہار سو اجالا چھا گیا۔ مہاتما گاندھی نے بہت بھرپور خراج پیش کیا اور اس کی ہمت و شحاعت کی بڑی تعریف کی۔

انھوں نے کہا کہ ''بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی موت کو زیادہ تر لوگوں نے اپنے ذاتی نقصان سے تعبیر کیا ہے۔ میں ان نوجوانوں کی یاد کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں'' لیکن زیادہ تر لوگ گاندھی جی سے ناراض ہو گئے تھے کیونکہ ان کے خیال میں گاندھی نے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی جان بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا تھا۔ کانگریسی لیڈروں نے عوام کی خفگی کو کم کرنے کے لیے بہت سی وضاحتیں دینے کی کوشش کی کہ وہ کس وجہ سے پھانسی کی سزا نہیں رکوا سکے لیکن لوگوں کا غیظ و غضب کم نہ ہو سکا۔

گزشتہ تین سال سے بھارتی اور پاکستانی عین اس چوک پر بھگت سنگھ کی سالگرہ منا رہے ہیں جہاں اسے پھانسی دی گئی تھی۔ اس کی قد آدم تصویر پر پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں اور موم بتیاں جلائی جاتی ہیں۔ ہم اشفاق اللہ کی پھانسی کو بھی یاد کرتے ہیں جو اپنے گلے میں قرآن پاک لٹکا کر تختہ دار پر چڑھا۔ اس موقع پر وہ اپنا ایک شعر بھی گنگنا رہا تھا جس سے اس کے مذہبی جذبات کے بجائے حب الوطنی کے جذبات عیاں تھے۔

کچھ آرزو نہیں ہے' ہے آرزو تو یہ

رکھے کوئی ذرا سی خاک وطن کفن میں

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں