میاں نواز شریف کا دل ناشاد
سیاستدان انسانوں سے محبت کرنے کی صلاحیت سے قطعی عاری ہوتے ہیں۔
منیر نیازی نے صحیح تو کہا تھا۔ محبت اس وقت ہرگز نہیں ہوتی جب محبوب آپ کے پاس بیٹھا ہوتا ہے۔ اس کی چشم حیراں میں ستارے دمک رہے ہوتے ہیں اور اس سے ملاقاتیں جمالِ ابر و یاراں میں ہو رہی ہوتی ہیں۔ یہ تو ناآباد وقتوں والے دل ناشاد کے دنوں میں ہوا کرتی ہے۔
سیاستدان انسانوں سے محبت کرنے کی صلاحیت سے قطعی عاری ہوتے ہیں۔ ان کا محبوب صرف اقتدار ہوا کرتا ہے اور نواز شریف نے اس ضمن میں کئی برس دل ناشاد کے ساتھ گزار دیے ہیں۔ اب اقتدار انتخابات کے جمالِ ابر ویاراں کے دنوں میں ایک بار پھر ان کے قریب آتا محسوس ہو رہا ہے اور وہ بھی بہت تیزی کے ساتھ ویسے ہی خود میں اسی طرح گم ہوتے جا رہے ہیں جیسا اپنے اقتدار کے گزشتہ دنوں میں نظر آیا کرتے تھے۔ اللہ انھیں اپنے حال میں خوش رکھے۔
مگر وقت کا بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی ایک کیفیت میں بندھ کے نہیں رہتا۔ ثبات صرف تغیر کا مقدر ہے۔ سیانا سیاستدان وہی ثابت ہوتا ہے جو لمحہ موجود میں گرفتار ہو کر نہ رہ جائے۔ اپنی منزل کی طرف بڑھتے ہوئے اپنی سواری کے بیک مرر پر بھی وقتاََ فوقتاََ نظر ڈالتا رہے۔ وقتاََ فوقتاََ میں نے اس لیے لکھا ہے کہ آپ اگر بیک مرر پر ہی نظر مرکوز رکھیں تو سامنے کے ٹوئے ٹبّے نظر نہیں آتے۔ حادثے ہو جاتے ہیں۔
2008ء کے بعد کئی سالوں تک نواز شریف بس ماضی پر نظریں مرکوز رکھنے کا ناٹک رچاتے رہے۔ ''اصولی سیاست'' کے نام پر بڑی حقارت سے ان لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکاری رہے جو ان کی نظر میں جنرل مشرف کے ساتھی رہے تھے۔ میڈیا کے میرے وہ ساتھی جو رپورٹر سے کہیں بڑھ کر شاعر، مصلح اور پارسائی فروغ کا رُتبہ پا چکے ہیں۔ ان کی ''اصولی سیاست'' پر واہ واہ کرتے رہے۔ ایسا کرتے ہوئے کسی نے ایک لمحہ بھی یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہ کی کہ پنجاب میں شہباز حکومت کے استحکام کو دوام بخشنے والا ''یونیفیکشن بلاک'' کہاں سے آیا تھا۔
جن افراد نے ایسا سوچا وہ بھی جلد بھول گئے۔ اس لیے کہ اسلام آباد میں پیپلز پارٹی والوں نے بڑی ''رونق'' لگا رکھی تھی۔ جب کابینہ میں بیٹھے وزراء اپنے ہی ساتھیوں کے خلاف سپریم کورٹ کے رو برو پیش ہو کر کلام پاک ہاتھ میں لے کر کرپشن کہانیاں سنا رہے ہوں تو خیال کسی اور جانب بڑھ ہی نہیں سکتا تھا۔ پیپلز پارٹی کی اسلام آباد میں رچائی رونق نے نواز شریف اور ان کی جماعت کو میڈیا کے عقابوں سے بچائے رکھا۔ اسی بچت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک نہیں پورے دس سال تک ''مشرف کی بنائی قاف لیگ'' میں بیٹھے شیخ وقاص صاحب جب رائے ونڈ پہنچے تو شہباز شریف صاحب نے ان کی ایمان داری کی گواہی دی۔
میڈیا میں پارسائی پھیلانے والوں کے بڑے نمایندے بھی جلد بھول گئے کہ وہ بطور صحافی بڑے اصرار اور تواتر کے ساتھ ماضی کے اس وزیر تعلیم کو جعلی ڈگری والا قرار دے رہے تھے۔ خیر انھیں بھی مبارک ہو کہ شیخ وقاص کو وصول کرتے ہوئے شہباز شریف نے اقتدار میں آنے کے بعد جھنگ میں یونیورسٹی قائم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ وقاص صاحب اس سے بڑھ کر بھی کچھ مانگ لیتے تو شاید انکار نہ ہوتا۔
پرانے زمانے کے چند ''سرخے'' جو آج کل مختلف النوع این جی اوز میں بیٹھے ''سول سوسائٹی'' نام کی کسی چیز کی ترجمانی کیا کرتے ہیں انٹرنیٹ کے ذریعے یہ بات مشہور کر بیٹھے تھے کہ شریف برادران چند فرقہ پرست انتہاء پسندوں کی خفیہ سر پرستی فرماتے ہیں۔ وقاص صاحب اور ان کے خاندان کی ایسی ہی ایک تنظیم کے ساتھ پرخاش کافی مشہور ہے۔ وہ مخاصمت کیوں اور کیسے شروع ہوئی۔ اس تفصیل میں جانے کا صحافیوں کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ بس سامنے نظر آنے والی چیزیں بیان کیا کرتے ہیں۔ وقاص صاحب کو گلے لگا کر شہباز شریف نے اپنی ذات اور جماعت پر لگا الزام دھو ڈالا۔
قومی اسمبلی میں نون کی ایک اور سیٹ بھی پکی ہو گئی۔ چوپڑیاں اور وہ بھی دو دو والا معاملہ ہو گیا۔ قصہ مختصر نواز شریف نے نظریں بیک مرر سے ہٹا لی ہیں۔ ''اصولی سیاست'' کی اب ویسے بھی ضرورت نہیں۔ اٹک سے رحیم یار خان تک قومی اسمبلی کے 148 ایسے حلقے ہیں جہاں براہِ راست انتخاب ہونا ہیں۔ ان سب کو اسی طرح جیتنے کی تمنا ہے جیسے 1997ء میں ہوا تھا۔ بس رائے ونڈ حاضر ہونے والا امیدوار تگڑا ہونا چاہیے۔
مشرف کے ساتھ رہا تو کیا ہوا۔ میاں صاحب بھی تو کبھی ضیاء کی چھتری تلے بیٹھا کرتے تھے۔ شرط ہے تو صرف اتنی کہ اپنے حلقے میں تگڑا ہو اور شیر کے انتخابی نشان کے ساتھ قومی اسمبلی میں واپس آنے کے ٹھوس امکانات کا حامل۔ قمر زمان کائرہ اور نذر گوندل بھی ہاں کر دیں تو مضائقہ نہیں۔ کائرہ تو ویسے بھی گوجر گرڈ کی وجہ سے گجرات کے چوہدریوں کا ویری ہے۔ مگر اس کا دل ہے کہ مانتا نہیں۔ مان جاتا تو نون لیگ میں بیٹھا فردوس عاشق اعوان سے تو بُرا نہ دِکھتا۔ وہ تیار تھیں۔ خواجہ آصف خواہ مخواہ ضد کر بیٹھے۔ ذرا احسن اقبال جیسے نابغہ سے مشورہ کر لیتے جنھیں شکر گڑھ کے طارق انیس کے ساتھ پیار ہو گیا ہے۔
یہاں تک لکھنے کے بعد خیال آیا کہاں تک سنو گے کس کس کی سنائوں۔ میں نے آغاز منیر نیازی سے کیا تھا۔ ارادہ تو یہ تھا کہ بتدریج بڑھتا ہوا یہ بیان کر سکوں کہ نواز شریف کے جمالِ ابر و یاراں کے اس موسم کے بعد دلِ ناشاد کا قصہ کیسے شروع ہونا ہے۔ مگر ہوں محض ایک رپورٹر۔ روزمرہ کی سطحی کہانیاں بیان کرنے میں اُلجھ گیا۔ فکر کی مگر کوئی بات نہیں۔ بس کالم ہی تو لکھ رہا تھا۔ فلسفے کا مضمون نہیں۔ یہ وضاحت پھر بھی کر دوں کہ میں نواز شریف کے دلِ ناشاد کرتے ہوئے ذکر تحریک انصاف کا نہیں لانا چاہتا تھا۔ اصل مقصد یہ تھا کہ پنجاب کا قلعہ پوری طرح فتح کرنے کے خواب میں مست نواز شریف ان دنوں سوچ ہی نہیں رہے کہ پاکستان میں تین صوبے اور بھی ہیں اور ان میں کیا ماحول بن رہا ہے۔