پیئے جائو ساغر ِجمہوریت
مگر یہ تمام افراد تاریخ کے اسباق کو بھولے بیٹھے ہیں کہ جانے کب اور کس وقت ایک بگولہ نما طوفان اٹھے
جمہوریت کی سمجھوتہ ایکسپریس تمام صوبائی دارالحکومتوں میں کھڑی رہی اور اسمبلی کے ممبران اپنی مراعات کو خود ہی استعمال کرنے میں مصروف رہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس کا کوئی بھی پارٹی لیڈر بے چارجمہور کی فریاد سننے نہ آیا۔ مرزا غالب نے کیا خوب کہا ہے:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
اب تو ان لیڈران کی نئی نسل نئے تیرونشتر لے کر آگئی ہے اپنے کہنہ مشق جمہوریت پرست اجداد کی تجربہ گاہ سے خوب آشنا اور پھر دور جدید کے فنون سے وابستہ بھلا کون کرے گا ان کو اسیر،الیکشن کمیشن نے 63/62 کی شقوں کو شامل کردیا تھا مگر ساتھ ہی ان کے نکاس کا طریقہ بھی درج تھا کہ بینکنگ کورٹ کا ایک پرچہ بھی جو تمام مروجہ قوانین کو پار کرتا ہوا اسٹے آرڈر (Stay Order) کی ایک سند منسلک کرکے ہر شق سے نجات، یہ ایک ایسا گیم ہے کہ جس میں ہر ہوشیار عوام دشمن مسند وزارت پر فائز ہوسکتا ہے۔
مگر یہ تمام افراد تاریخ کے اسباق کو بھولے بیٹھے ہیں کہ جانے کب اور کس وقت ایک بگولہ نما طوفان اٹھے اور خلق خدا ان کے ساتھ ہوجائے اسی لیے تو سرمایہ دارانہ جمہوریت میں غریب عوام کو خوش کرنے کے لیے عوام کو چٹنی اور اچار سے گزر بسر کرنے کا بندوبست کردیتے ہیں اور یہاں تو فقط وعدہ فردا۔ وعدہ کرنے والوں کو کم ازکم اتنا تو دیکھ لے اے مرد ناداں کہ سمجھوتہ ایکسپریس کے مسافر تو چلتے چلتے کس قدر زرکثیر لے کے گئے سب وعدہ فردا کا منشور لیے چلتے بنے مگر یہ کہیں گئے نہیں ہیں یہ سب پھر براجمان ہوں گے اور اس مرتبہ ان کے تیرونشتر زیادہ تیز دھار والے ہوں گے۔
ابھی کیا کم گزری ہے ، عوام پر جان کے لالے پڑے ہیں اہل علم سوئے مقتل روانہ کیے جارہے ہیں ہر فرقہ اور مسلک کی ممتاز شخصیت عدم کو روانہ کی جارہی ہے نہ درد ہے کسی کی جان کا نہ یہ کہ ان کے پسماندگان کا کیا ہوگا مگر ساغر جمہوریت کو پیئے جاؤ اور اپنی پیاس بجھاتے رہو۔ گزشتہ 50 برسوں میں سرزمین پاک نے اپنے ہم وطنوں کی اتنی لاشیں نہ اٹھائیں جتنی گزشتہ دس برسوں اور خصوصیت سے ان پانچ برسوں میں اٹھانی پڑی ہیں پاکستان میں جمہوریت کا عجب بیج بویا گیا ہے عوام ایک دوسرے سے دست و گریباں ہی نہیں بلکہ گور غریباں سجانے میں مصروف ہیں۔
لوگ اس قدر غافل ہیں کہ وہ یہ بھی سمجھ نہیں پاتے کہ ان سے کوئی جرم سرزد ہورہا ہے اور خدا بزرگ و برتر ان اعمال سے خوش نہیں وہ جب عدل و انصاف کی عدالت لگائے گا جب جسم کا ہر عضو خود صاحب زبان بن کر گویا ہوگا ہم خود اپنی وکالت نہ کرسکیں گے جب نہ کسی بااثر کی سفارش چلے گی وہ خود روز محشر میں بلبلا رہا ہوگا ، کیا واقعی ہم نے ہر قسم کے عدل و انصاف کا دامن چھوڑ دیا ہے اور حرص دنیا میں گرفتار ہوگئے۔ پوری دنیا میں سبز پاسپورٹ ندامت کا میزان بنتا جارہا ہے اگر یہ خوں ریزی نہ رکی تو پاکستان کے وجود کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
یہ خوبصورت محل وقوع یہ حسین گزرگاہ وسط ایشیا کی یہ بندرگاہ جس پر سب کی نظریں ہیں وہ کسی بہانے کی تلاش میں ہیں کشت و خون کی آڑ میں کوئی اور طاقت ہم پر کہیں وار کرنے کی تیاری تو نہیں کر رہی ہے کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے صاحبان اقتدار ہم سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ اس کشت وخون کو کیوں بند نہیں کرسکتے ۔ گزشتہ دو دہائیوں سے سلطنتوں کا شیرازہ جس تیزی سے بکھرتے دیکھا انڈونیشیا، افریقی ممالک خاص طور سے کشت و خون کی وجہ سے ٹوٹتے جارہے ہیں اگر عوام یک وتنہا رہ گئے تو پھر کیا وہ خود اپنی حفاظت پر مامور ہوجائیں ؟
یہی وہ دور ہوتا ہے جب حکومتیں ناکام ہوتی ہیں تو پھر ملک میں ملیشیا معرض وجود میں آتی ہے مختلف بستیوں میں شام کو مارچ ہوتا ہے ہر رنگ کا لباس ان کا پھر یونیفارم بنتا ہے اور آخر کار ایک ملک میں کئی گروپوں کی حکمرانی ہوتی ہے یہ سب کچھ لبنان میں ہوچکا ہے ، کراچی میں آثار دکھائی دیتے ہیں، سابق یوگو سلاویہ میں ہم نے دیکھا کہ مارشل ٹیٹو کا آئینی ملک مغرب نے کس طرح مسمار کیا، آخر یہ قدم کدھر بڑھ رہے ہیں۔ امن و آشتی ہمارے وطن میں کب اور کیسے راج کرے گی، اس پر کسی جماعت کا منشور نہیں دکھائی دیتا ہے، ہر شخص اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کر رہا ہے ، ہر بازی گر اپنی بازی گری میں مصروف ہے۔
اسمبلی کے ممبران ملک کا سرمایہ لے اڑے مگر ان کو یہ خیال نہیں کہ ملک کی یونیورسٹیاں فیس بڑھانے کے باوجود بدحالی کا شکار ہیں ۔ سندھ کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے، کیا کراچی یونیورسٹی سندھ کی یونیورسٹی نہیں، کیا ڈاؤ یونیورسٹی سندھ کی یونیورسٹی نہیں یہ رقم ان پر کیوں خرچ نہیں ہوئی۔ کوئی لیپ ٹاپ بانٹنے میں مصروف ہے گاؤں میں اسکول بے یارومددگار پڑے ہیں بچے فرش زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کون بدلے گا میرے وطن کی قسمت ؟پاکستان بنانے والی نسل قبرستانوں میں سو گئی ان کی قربانیوں کی داستانیں اس شوروغوغے میں کھوگئیں۔
یاد رکھیے کہ پاکستان میں ایسی تعمیر حزب اختلاف موجود نہیں جو ملک کی تقدیر بدل دے، تبدیلی یا انقلاب کی آواز تو سنائی دیتی ہے مگر اسے بھی نقار خانے میں طوطی کی صدا سمجھنا چاہیے کیونکہ سپاہ انقلاب کون بنائے گا جو زبان، نسل، رنگ، مذہبی عقائد سے بالاتر ہوکر ایسے گلشن کی آبیاری کرے جس میں گلشن کے ہر پھول کی مہک آتی ہو، ہر رنگ و نسل کے لوگ اس کے پاسدار ہوں شاید ان مسائل کی تندی ابھی اتنی نہیں بڑھی کہ لوگ یہ محسوس کرسکیں کہ انقلاب کا وقت ابھی دور ہے ممکن ہے کہ اس انتخاب کے بعد انقلاب کا نعرہ شدت پکڑ جائے کیونکہ سمجھوتہ ایکسپریس پھر آنے والی اس بار کے سمجھوتے ماضی سے زیادہ کٹھن ہوں گے۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں غضب کا رن پڑنے کو ہے اور بلوچستان کی تصویر واضح نہیں کہ قوم پرستوں کا رویہ کیا ہوگا؟ قوم پرست اپنا زاویہ نگاہ تو بدلنے سے رہے اور یہ عمل ملک کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کو خاصا نقصان ہوسکتا ہے کیونکہ قوم پرستوں نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا شروع کردیا ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں البتہ ایم کیو ایم کے ووٹ بینک میں کچھ بہتری کے آثار نظر آتے ہیں خصوصاً لیاری کی نشست میں یہاں بھی پیپلز پارٹی کو مشکل کا سامنا کرنا ہوگا۔ نبیل گبول کی ایم کیو ایم میں شمولیت سے پیپلز پارٹی کی قومی اسمبلی کی نشست کو شدید خطرہ ہوگا خواہ نتائج کچھ بھی ہوں البتہ اس کا ایک کلیدی فائدہ کراچی کی تہذیبی اور سماجی سرگرمی پر ضرور پڑے گا کیونکہ بہت سے اردو بولنے والوں کی شادیاں لیاری کے قدیم باسیوں میں ہوئی تھیں۔
ان کو ایک دوسرے کے گھر جانے میں کافی مشکلات پیش آتی تھیں، ان میں ایک سماجی بہتری ضرور آئے گی۔ سیاسی مضمرات کو تو ایک دو ماہ قبل ہی بتایا جاسکتا ہے کیوںکہ لوگوں کے رویے کو بدلتے دیر نہیں لگتی مگر یہ تصور کرلینا کہ الیکشن کے بعد کراچی یا ملکی حالات پر کوئی واضح فرق ہوجائے گا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کیونکہ زمینی حقائق میں ملک گیر پیمانے پر کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ گزشتہ ہفتے ریڈرز کلب میں ایک ادبی نشست منعقد ہوئی جس میں مظہر عارف نے ماضی اور حال پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے کلام سے سامعین سے خاصی داد و تحسین حاصل کی اس کے چند اشعار ساکنان کراچی کے لیے رشک کا منظر پیش کر رہے ہیں:
شہر وہ کیا ہوئے کیا شہر ہوا کرتے تھے
چھوٹی گلیوں میں بڑے لوگ رہا کرتے تھے
یاد تو ہوگا کہ بات اتنی پرانی بھی نہیں
چاہنے والے جو ہوتے تھے وفا کرتے تھے
ایسا لگتا تھا کہ برسوں کی شناسائی ہے
اجنبی لوگ بھی اس طرح ملا کرتے تھے
پہلے اور اب میں فرق صرف یہ ہوا کہ پہلے شاعر و ادیب معاشرے با ربط ہوا کرتے تھے ، سجاد ظہیر، فیض صاحب، احمد فراز، حبیب جالب یہ سب قافلہ سالار اور آہنگ عوام ہوتے تھے مگر اب وہ بھی اپنے گھروندوں میں اور اپنی محفلوں میں خود قید ہیں تو پھر کوئی تبدیلی کیوں رونما ہوگی پھر وہی سمجھوتہ ایکسپریس چند نئے ڈبوں کے ساتھ تمام صوبائی دارالحکومتوں میں کھڑی ہوجائے گی۔