پانی کا اسراف کیوں



ہوا کے بعد زندگی پانی سے مشروط ہے، اسی لیے اس قدرت کے کارخانے میں ہوا اور پانی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں لیکن جس طرح ہوا میں موجود آکسیجن گیس زندگی کے لیے ناگزیر ہے اسی طرح کرہ ارض پر موجود پانی میں سے ''میٹھا پانی'' زندگی اور بطور خاص انسانی زندگی کے لیے لازمی جز ہے۔ بظاہر یہ امر عام آدمی کے لیے اطمینان کا باعث ہے کہ کرہ ارض ایک چوتھائی حصہ خشکی اور تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن کرہ ارض پر ''زندگی'' کی بقا کے لیے درکار صاف اور میٹھا پانی اس تہائی حصے پانی کا مجموعی طور پر صرف 3 فیصد ہوتا ہے جس میں سے صرف ایک فیصد دریائوں، جھیلوں، کنوئوں، چشموں اور آبشاروں کی صورت میں دستیاب ہے۔

جب کہ باقی 2 فیصد حصہ برف اور بڑے گلیشیئرز پر مشتمل ہے جس کا حصول دشوار اور کثیر اخراجات کا متقاضی ہے اور اس صورتحال سے انسان جب آشنا ہوتا ہے تو وہ چوکڑی بھول جاتا ہے۔ دنیا پر بڑھتی ہوئی آبادی کے دبائو اور صنعتی ممالک کی جانب سے قوانین فطرت کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے بڑھتی ہوئی آلودگی کی وجہ سے جہاں اس وقت کرہ ارض کو شدید موسمی تغیرات و ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے وہیں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت ''گلوبل وارمنگ'' کی وجہ سے مختلف النوع مسائل جنم لے رہے ہیں۔

انسانی آبادی میں بے تحاشا اضافے سے صنعتی و گھریلو اور آبادکاری کے لیے میٹھے پانی کی طلب و رسد کے درمیان بڑھتے ہوئے واضح فرق اور میٹھے پانی کی قلت کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک کے ماہرین نے جو تحفظ حیات کے حوالے سے ایک عرصے سے کام کررہے ہیں بقائے حیات کے لیے موجود میٹھے اور صاف پانی کے ذخائر میں تشویشناک حد تک کمی کو نوٹ کیا ہے بلکہ مستقبل کی ضروریات کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بیشتر ترقی یافتہ ممالک نے ماہرین کے زیر نگرانی ''زندگی'' کی اہم بنیادی ضرورت میٹھے اور صاف ''پانی'' کے ذخائر میں اضافے ان کے تحفظ اور نئے ذرایع کی تلاش کے لیے اربوں ڈالر لاگت کے حامل تحقیقی و ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع کر رکھا ہے۔

علاوہ ازیں بیشتر ممالک سمندری پانی کو ڈی سیلینیشن پلانٹس کے ذریعے میٹھا کرکے اپنی ضروریات پوری کررہے ہیں لیکن یہ طریقہ انتہائی مہنگا ہے اس سے عالمی سطح پر جو صورتحال بنتی نظر آرہی ہے وہ انتہائی خطرناک ہے اور یوں لگتا ہے کہ طاقتور ممالک جس طرح ماضی میں مختلف چھوٹے ممالک کے جملہ وسیلوں پر قبضہ کرکے اپنے زیر تصرف لاتے رہے ہیں بالکل اسی طرح مستقبل قریب میں طاقتور ممالک کی جانب سے ''پانی'' کے وسائل کے حصول کے لیے کمزور اور مخالف ممالک پر فوج کشی کرکے ان کے وسائل کو اپنے تصرف میں لانے کا جنون پنپنے لگے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف ممالک کے درمیان ہونے والی مستقبل کی جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت پڑوسی ملک بھارت ہے جس نے دونوں ممالک کے درمیان سندھ طاس معاہدہ ہونے کے باوجود اس کی پاسداری کرنے کے بجائے خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائوں پر ڈیم بناکر پاکستان کے حصے کا پانی روک کر اس کے سرسبز کھیتوں کھلیانوں کو صحرا میں بدلنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس حوالے سے پاکستان بھارت سے احتجاج کے بعد عالمی عدالت انصاف سے انصاف کے لیے رجوع کرچکا ہے جہاں تاحال اس پر کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوپائی اور نہ پاکستان کے تحفظات دور ہوسکے ہیں۔

کاسمو پولیٹن شہر کراچی جس کی موجودہ آبادی 20 ملین سے زائد ہے اس کی پانی کی ضروریات 1530 ملین گیلن روزانہ کی ہیں تاہم کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اس وقت شہر کراچی کو تمام تر ذرایع سے صرف 665 ملین گیلن پانی فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہے، اس گمبھیر صورت حال میں جب کہ ہمیں شہری ضروریات کے مطابق مطلوبہ مقدار میں پانی میسر ہی نہیں کیا ہم نے اس پر غور کیا کہ ہم اس نعمت ربی کا کس قدر غیر ضروری اور بے دریغ استعمال کرکے اپنی آیندہ نسلوں کو پیاسا مارنے کا سامان کررہے ہیں۔

جی ہاں یہ حقیقت ہے لیکن اس کا ادراک ہمیں اس لیے نہیں ہو پارہا کہ ہماری ایک بڑی اکثریت تعلیم سے محروم ہونے کے سبب دنیا میں ہونے والے موسمی تغیرات و تبدیلیوں سے آگاہ ہے اور نہ گلوبل وارمنگ جیسی اصطلاح سے آشنا۔ ہم اپنے گرد و پیش کے روزمرہ معمولات پر نظر ڈالیں تو کہیں نلکے سے پائپ لگاکر گھروں کے در و دیواروں کو گھنٹوں دھویا جارہا ہے تو کہیں سیکڑوں گیلن میٹھا پانی ہم اپنی گاڑیوں کو دھونے دھلانے میں ضایع کررہے ہیں یا پھر اپنے وسیع عریض لان میںسبزہ سینچنے کے لیے پائل کے ذریعے پانی لگا کر بھول جاتے ہیں، اس کا احساس ہمیں اس وقت ہوپاتا ہے جب گھر کے بالائی ٹینک کا پانی ہماری عدم توجہی کے سبب لان کے ذریعے گلیوں اور سڑکوں پر بلاوجہ بہہ کر ضایع ہوجاتا ہے۔

حالانکہ بحیثیت انسان ہمیں اس امر کا احساس ہونا چاہیے کہ صاف اور میٹھا پانی ہی زندگی کا دوسرا نام ہے کیونکہ حقیقت ہے کہ کچھ کھائے بغیر انسان کئی روز تک زندہ رہ سکتا ہے لیکن اگر اسے پینے کا صاف اور میٹھا پانی میسر نہ ہو تو وہ موت کی وادی میں پہنچ جاتا ہے۔ جہاں بحیثیت انسان ہماری یہ ذمے داری ہے کہ آیندہ نسلوں کے تحفظ کے لیے پانی کا ضیاع روکیں وہیں بحیثیت مسلمان ہمیں یہ بھی احساس ہونا چاہیے کہ ہمارا رب بھی ہم پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کا استعمال کیسے کرتے ہیں۔ اس کی واضح مثال اﷲ کے وہ احکامات قرآنی ہیں جس میں اس خالق کائنات نے بارہا نشاندہی کی ہے جو کچھ یوں ہے کہ قرآن پاک کی سورہ اعراف کی آیت 31 ہے کہ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

سورہ بنی اسرائیل کی آیت 27 میں ہے کہ فضولیات میں اڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ جب کہ سورۃ الانبیا کی آیت 13 میں ہے کہ جن نعمتوں میں عیش کرتے ہو تم سے اس بارے میں (بازپرس) پوچھا جائے گا۔ مندرجہ بالا آیات ربانی اس امر کی جانب ہمیں متوجہ کراتے ہوئے واضح نشاندہی کرتی ہیں کہ پانی بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ہے اور اس کا بے دریغ استعمال اور اس میں عدم اعتدال اسراف بے جا ہے اور یقینا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے نہ صرف حساب لے گا بلکہ اس کے اسراف پر بھی سزا دے گا۔ قبل اس کے کہ گیا وقت ہاتھ نہ آئے اور ہم صاف اور میٹھے پانی جیسے اہم نعمت سے محروم ہوجائیں ہمیں بحیثیت مسلمان اور انسان اپنی ذمے داریوں کو محسوس کرتے ہوئے پانی کے بے دریغ اور ناجائز استعمال کی روک تھام کرنی چاہیے۔

پانی کی اس بے قدری کا خاتمہ کرتے ہوئے آئیے ہم اس بات کا عہد کریں کہ اپنے روزمرہ کے معمولات میں خواہ گھر پر ہوں یا دفتر میں مسجد میں ہوں یا کارخانے میں پانی کو کفایت سے خود بھی استعمال کریں گے اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں گے۔ وضو کرنا ہو تو نلکا کھول کر پانی کی بھاری مقدار میں ضایع کرنے کے بجائے ایک لوٹا پانی سے وضو کیا جائے، نہاتے ہوئے شاور کھول کر پانی بہانا ضروری نہیں ہے بلکہ ایک بالٹی پانی سے باآسانی نہانے کے عمل سے گزرا جاسکتا ہے، شیو کرتے یا دانت صاف کرتے وقت بیسن کا نلکا کھول کر بہانے سے بہتر ہے کہ ایک کپ پانی سے اس عمل کو باآسانی مکمل کرکے پانی کی بچت کی جائے۔

گھر کے فرش اور در و دیوار پانی سے دھونے کے بجائے گیلے پوچھے اور جھاڑن سے صاف کرکے ان کی رونق بڑھائی جاسکتی ہے، لان اور پودوں کی آبیاری کے لیے بالٹی شاور کا استعمال عام کیا جائے، اگر ٹینک نلکے یا پانی اپنی کی لائن میں رسائو ہو تو اس کی فوری درستگی اور حاجت کے وقت ٹوائلٹ فلیش کے غیر ضروری استعمال میں کمی کرکے پانی کے استعمال میں کفایت کی جاسکتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا مستقبل، ہمارا دین کسی بھی صورت پانی کے استعمال میں لاپرواہی کی اجازت نہیں دیتا۔

آیئے! ہم ذمے دار باشعور شہری ہونے کا ثبوت دیں خود بھی پانی کو بچائیں اور دوسروں کو اپنی ضایع نہ کرنے کی ترغیب دیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہم اگر انفرادی طور پر روزانہ ایک گیلن پانی کی ذمے داری کے ساتھ بچت کا اہتمام کریں تو 20 ملین گیلن یومیہ پانی کی بچت ہوسکتی ہے جس سے شہر میں ترقی اور خوشحالی کی رفتار تیز ہوسکتی ہے اور زندگی کو دوام بخشا جاسکتا ہے۔ اس لیے یکجا اور متحد ہوکر زندگی کی بقا کے لیے پانی کے استعمال میں کفایت شعاری اپنائیں تاکہ آیندہ نسل کی زندگی سہل اور محفوظ ہوسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں