آخری دن …
آخری چند دنوں میں مرکزی و صوبائی حکومتیں اور ان کے اتحادی ملکی خزانے پر ٹوٹ پڑے
ISLAMABAD:
جمہوریت کے نام پر ان پانچ برسوں میں عوام کا جو حال ہوا ہے اس کی گواہی اس حکومت کے خاتمے پر آج ہر عام آدمی کہ چہرے پہ نظر آتا احساس تشکر واضح طور پر دے سکتا ہے۔ ان گزرتے برسوں کا کرب اس قدر زیادہ ہے کہ اس درد سے اپنے آپ کو نکالنے کے لیے بہت عرصہ درکار ہو گا۔
ان پانچ سالہ دور حکومت میں پیپلز پارٹی کی عوام پہ اس قدر نوازشات رہی ہیں کہ ایک کالم میں گنوانا شاید میرے بس کی بات نہیں۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والوں نے عوام کے منہ سے نوالہ، سر سے چھت اور بدن سے کپڑے نوچنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس کے باوجود آخری دن حکومت کو کیا خیال آیا کہ وہ اسے شاید سیاسی زندگی کا ہی آخری دن سمجھ بیٹھے اور لوٹ کھسوٹ کا ایسا بازار گرم کیا کہ دیکھنے والے بھی حیران، پریشان رہ گئے۔
آخری چند دنوں میں مرکزی و صوبائی حکومتیں اور ان کے اتحادی ملکی خزانے پر ٹوٹ پڑے اور مجموعی طور پر 5 کھرب کی اس کرپشن میں سب حصے دار رہے۔ سنا ہے کہ بعض خواتین ارکان نے تو اپنے میک اپ کے خرچے بھی میڈیکل بلوں میں ڈال کر وصول کیے۔ سندھ اسمبلی کے ممبران پانچ سال میں کراچی میں بدامنی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، بوری بند لاشیں تو ختم کروا نہیں سکے، ہاں جاتے جاتے آخری دن وزیراعلیٰ اور اسمبلی کے تمام ممبران اپنے لیے تاحیات مراعات کا بل ضرور منظور کروا گئے۔ فہمیدہ مرزا صاحبہ بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں، ناصرف اپنے لیے تاعمر مراعات کی ایک لمبی فہرست منظور کرلی بلکہ اپنے سے پہلے اسپیکروں کو بھی جاتے جاتے نواز گئیں۔ حکمت و تدبر اور عوام دوستی سے محروم حکمرانی کا اس سے بدترین دور اور کیا ہوگا۔
حکومت کا آخری دن شروع ہونے سے ٹھیک ایک رات پہلے عوام اس وقت حیرت زدہ ہوگئی جب شام کو اچانک ایک نوٹس آیا کہ کل تمام نجی اور سرکاری بینک کھلے رہیں گے۔ اور اگلے دن رہے سہے پیسے بھی نکال لیے گئے۔ دوسری طرف رات کو اچانک یہ خبر میڈیا پہ گردش کرنے لگی کہ چیئرمین سی ڈی اے طاہر شہباز کو تبدیل کرکے طارق پیر زادہ کو نیا چیئرمین سی ڈی اے لگادیا گیا ہے۔ جس کے بعد یہ پتا چلا کہ اسلام آباد بھی لٹ گیا۔ آخری دن گریڈ 22 کے سو افسروں کو ایک ایک کنال کے پلاٹ دیے گئے، افسروں کی پروموشنز کی گئیں۔ ان کے محکمے تبدیل کیے گئے۔ اوگرا نے وزیراعظم کے کہنے پر 70 نئے سی این جی لائسنس جاری کیے۔ اور پھر رات دس بجے قوم سے اپنے الوداعی خطاب میں وزیراعظم صاحب اپنی ناکامی کا بڑی سادگی سے اعتراف کرتے ہوئے فرما گئے کہ میں مانتا ہوں کہ ہم پانچ سال میں ملک میں کوئی دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہاسکے۔
وزیراعظم صاحب عوام کو اپنی پانچ سالہ کارکردگی کا کیا جواب دیں گے، ہر طرف صرف کرپشن، کرپشن اور کرپشن ہی نظر آتی ہے۔ اس پر یہ ڈھٹائی کہ جب بھی حکومتی نمایندوں کے آگے کارکردگی کا سوال اٹھایا جاتا ہے تو آزادی رائے کو جمہوریت کا حسن کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے۔ ان پانچ برسوں کا مختصر جائزہ یہ ہے کہ آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں کہ نہ بجلی ہے، نہ پانی، نہ گیس ہے، نہ جان و مال کا تحفظ، مہنگائی، چور بازاری، کرپشن نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ ملکی ادارے تباہی کی حدوں کو چھو رہے ہیں اور معیشت کا تو آج یہ حال ہے کہ آئی ایم ایف کی بیساکھی کے بغیر دو قدم بھی چلنا دشوار ہے۔
اگر ہم صرف چند استعمال کی چیزوں کا پانچ سال پہلے اور آج کا موازنہ کریں تو ہمیں بخوبی احساس ہوجائے گا کہ ہم نے ان برسوں میں کیا کھویا کیا پایا، مثلاً پٹرول کی قیمت 56 سے 108، ڈیزل 39 سے 116، سی این جی 30 سے 75، جو کہ ہفتے میں سات دن ملنا نایاب ہے۔ دوسری طرف کھانے کی چند روزمرہ کی اہم اشیا جن کے بغیر گزارا مشکل ہے، آٹا 16 سے 44، چینی 21 سے 53، دودھ 34 سے 74، کوکنگ آئل 70 سے 190 تک جا پہنچا ہے۔ بجلی کا اب یہ حال ہے کہ جو لوڈ شیڈنگ 5 سال پہلے 30 فی صد تھی اب 150 فی صد تک پہنچ چکی ہے، اتنی مہنگی ہونے کے باوجود لوگوں کے لیے دستیاب نہیں ہے۔ معاشی حالت کا اندازہ ڈالر کی قیمت سے ہی لگا لیں جو کہ 60 سے بڑھ کر اب 100 تک جا پہنچا ہے اور سونے کی قیمت 30,000 تولے سے بڑھ کر اب 60,000 تک ہوگئی ہے۔
اب ذرا امن و امان کی صورت حال پر نگاہ ڈالیں تو پورے ملک میں ہی حالات کافی سنجیدہ حد تک جاچکے ہیں اور خاص طور پر کراچی کا تو یہ حال ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جب کراچی کی گلیوں میں بے گناہوں کا خون نہ بہا ہو۔ ان پانچ برسوں میں اوسط 15 بے گناہ لوگ روزانہ کراچی میں مارے گئے اور 63 لوگ روزانہ پورے ملک میں اپنی جان کی بازی ہارتے رہے، کراچی میں مافیا گینگ کارندوں کی طرف سے مخالفین کے سر کاٹے گئے،لاشیں جلائی گئیں ،راکھ گٹر میں بہا دی گئی ۔
ہاں اسی شہر کراچی میں جس پر جھگڑا ہے کہ شہر کس کا ہے؟ صورتحال اس درجہ بدتر اس لیے ہوئی کہ ہمارے تمام ادارے اشرافیہ کی حفاظت پر مامور رہے۔ لوگوں کو دہشت گردی کی عفریت سے یہ کس طرح نکالتے ، اپنی حکومت ہونے کے باوجود ان کے وزیر داخلہ پانچ برس صرف عوام کو ہی ڈراتے رہے۔ بی بی کے قاتلوں کا تو سراغ لگا نہ سکے۔ زرداری صاحب جو یہ فرماتے تھے کہ ہمیں محترمہ کے قاتلوں کا علم ہے تو کم از کم حکومت کے آخری دن ہی سہی ان قاتلوں کا نام لے کر اپنے کارکنوں کے زخموں پر ہی مرہم رکھ دیتے۔
اگر تو جمہوری حکومتوں کا آخری دن اس طرح کا ہوتا ہے تو اﷲ معافی دے، آیندہ ہم اس طرح کے آخری دن آنے کی شاید کبھی دعا نہ مانگیں۔ یہ پانچ سال تو جیسے تیسے کرکے گزر ہی گئے اب آگے آنے والے دن اس سے بھی زیادہ اہم ہیں، ابھی انتخابات سے قبل بہت سے مشکل مراحل ہمارے سامنے ہیں جس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ورنہ جمہوریت کے نام پر ان پانچ برسوں کا کڑا وقت جس طرح اس قوم نے کاٹا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ 18 کروڑ عوام کی جمہوریت کے لیے قربانی رائیگاں چلی جائے اور جمہوریت ایک دفعہ پھر ہم سے روٹھ جائے۔
[email protected]