مسلم لیگ کا منشور
انسان کو باعزت زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ دو وقت کی روٹی ملے
پاکستان مسلم لیگ کے صدر میاں محمد نواز شریف نے اپنی پارٹی کے تجربہ کار ماہرین کا تیار کردہ منشور 2013 کے انتخابات کے پیش نظر آیندہ پانچ سال کے لیے ملک وقوم کی قسمت سدھارنے کے لیے مضبوط معیشت، مضبوط پاکستان اور بدلیںگے ہم پاکستان کے عزائم اور ٹارگٹ پر مبنی پیش کردیاہے۔ اور کہاہے کہ یہ عوام کا منشور ہے اور ان کی ان خواہشات کا منشور ہے جو اپنے دلوں اور دماغوں میں بسائے ہوئے ہیں۔
یہ بظاہر ایک انقلابی، تعمیراتی، فلاحی اور اصلاحی پروگرام نظر آتاہے، ایسا لگتاہے کہ موجودہ مسلم لیگیوں کے سینے میں ملک وقوم کی بہتری کا ویسا ہی درد ہے جیسا کہ تحریک پاکستان کے دور میں مسلم لیگی بانیان پاکستان کے دل میں تھا، اس منشور کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتاہے کہ ہماری ہر شعبہ زندگی میں گھری ہوئی قوم کو درپیش مسائل کا ایک شافی اورکافی حل تجویز کیاگیاہے۔
انسان کو باعزت زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ دو وقت کی روٹی ملے زندگی کا تحفظ ہو سر چھپانے کے لیے چھت کا بندوبست ہو۔ جب انسان مل جل کر ایک معاشرہ تشکیل دیتے ہیں تو ایک قوم بن جاتے ہیں، پھر انھیں قوموں کی برادری میں مناسب مقام بھی چاہیے، اگر کوئی قوم اپنے مسائل میں الجھی ہوئی ہو تو بین الاقوامی طورپر اپنا مقام کھودیتی ہے، پاکستانی قوم کو اس وقت درپیش ان گنت مسائل کو حل کرنے کے لیے ماشاء اﷲ مسلم لیگ کے پاس میاں نواز شریف جیسی سیاسی تجربات کی بھٹی سے گزری ہوئی دور اندیش اور دیدہ ور قیادت موجود ہے اور ان کے پاس ایک با صلاحیت تجربہ کار مخلص کمٹڈ نظریاتی 2ndلیڈر شپ کی ایک لمبی لسٹ بھی موجود ہے، اس لیے امید ہے کہ یہ پارٹی عوام کے دکھوں کو کافی حد تک دور کرسکے گی۔
اگر ان کے اندر خلوص رہا اور اقتدار میں آنے کے بعد اس منشور پر ایماندارانہ طورپر عمل کیا تو واقعی اس سے ہمارے بہت سے مسائل دور ہوسکتے ہیں اور یہ منشور ایک مقدس دستاویز اور قومی میثاق ثابت ہوسکتاہے۔
پاکستان کے عوام دل کی گہرائیوں سے اﷲ تعالیٰ سے دست بددعا ہیں کہ ان مسلم لیگیوں کو اس منشور کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔نیزعوام الناس تو یہ بھی چاہیںگے کہ جس طرح تمام سیاسی پارٹیوں اور دیگر اسٹیک ہورلڈرز نے پچھلے پانچ سالوں میں پیپلزپارٹی کو اپنے منشور پر عمل در آمد کرنے کا موقع دیا۔ اسی طرح مسلم لیگ کو آیندہ پانچ سال دیے جائیں اور ان پر اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دبائو ڈالتے رہیں اس طرح امید ہے کہ پاکستان کو درپیش بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔اب اس منشور کے چیدہ چیدہ نکات کی طرف آتے ہیں۔
کسی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے بنیادی ضرورت انرجی یا توانائی کی ہوتی ہے جس کا اس وقت وطن عزیز میں بڑا بحران ہے، توانائی کی شدید کمی نے ہمارے ملک کو تاریکی اور غربت کے اندھیروں میں ڈبویا ہوا ہے، اندازہ لگایاگیاہے کہ توانائی کی کمی سے5ارب ڈالر سالانہ نقصان ہورہاہے، اس منشور کے مطابق اسے دو سال میں حل کرنے کا عزم ظاہر کیاگیاہے، نیز کوئلے سے بھی 5,000/=میگاواٹ بجلی حاصل کی جائے گی اور تھر کول کے ذرایع سے پورا استفادہ کیاجائے گا۔
توانائی کا مسئلہ حل ہوگا تو بند صنعتوں، نئے کارخانوں اور فیکٹریوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا شروع ہوگا اور پیداوار بڑھے گی، نئی سرمایہ کاری آئے گی۔ جس سے پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر میں30لاکھ روزگار کے مواقعے نکلیںگے، نیشنل یوتھ پالیسی کے پروگرام کے ذریعے دس لاکھ نوجوانوں کو ملازمتیں دی جائیںگی، کم از کم تنخواہ15,000 روپے ماہانہ ہوگی، ہر قسم کی آمدنی پر منصفانہ طورپر ٹیکس لگاکر ریونیو بڑھایاجائے گا، مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے سادگی اختیار کی جائے گی، پر تعیش اور غیر ضروری اشیاء کی در آمد کی نہ صرف حوصلہ شکنی کی جائے گی بلکہ بھاری ڈیوٹیز بھی لگائی جائیں گی۔
نجی شعبے کے اشتراک سے برآمدات کو 100 ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا، ٹیکس جی ڈی پی شرح موجودہ9% سے15تک لاکر بجٹ خسارہ4%تک لایاجائے گا۔انھی اقدامات کے ذریعے مہنگائی، بیروزگاری اور غربت پر قابو پایاجائے گا اور خوراک کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ہر انسان کا بنیادی حق قرار دیاجائے گا، معیشت کو سرکاری کنٹرول اور بیوروکریسی کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے اصلاحات کی جائیںگی۔
اس وقت ملک میں رہائشی یونٹوں کی شدید کمی ہے، اس کے لیے500،500گھروں پر مشتمل1000بستیاں بسائی جائیںگی۔ غیر دانشمندانہ پالیسیوں کی وجہ سے قومی ادارے انحطاط کا شکار ہیں، پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل ملز، واپڈا اور دیگر اداروں کو نجکاری اور تشکیل نو کے امتزاج سے منافع بخش بنایاجائے گا، نئے سی این جی اسٹیشنوں پر پابندی لگائی جائے گی لیکن عوام کو سستی ٹرانسپورٹ کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کو گیس ترجیحاً دی جائے گی، ریلوے کی اصلاح کرکے بند ٹرینوں کو چلایاجائے گا اورکراچی سے پشاور تک بلٹ ٹرین چلائی جائے گی،نئے منصوبوں کے مطالبے کے پیش نظر بہاولپور جنوبی پنجاب اور ہزارہ کے صوبے بنائے جائیںگے، فاٹا کے عوام نے بھی چاہا تو وہاں بھی صوبہ بنادیںگے، نیز بلدیاتی انتخابات6ماہ میں کرانے کا وعدہ کیاگیاہے۔
ملک میں پھیلی ہوئی دہشت گردی انتہا پسندی اور عسکریت کے خاتمے کے لیے سب سیاسی قوتوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے تعاون طاقت کے بجائے سیاسی اقدامات کے ذریعے موثر اور ہمہ گیر حکمت عملی اختیار کرکے امن وامان بحال کریںگے۔
انسداد رشوت ستانی ا ور کرپشن کے احتساب کے لیے قومی احتساب کمیشن تجویز کیاگیاہے۔
آزادانہ خارجہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے قومی مقاصد کو پیش نظر رکھاجائے گا، نیز ڈرون حملے برداشت نہیںکیے جائیںگے، دہری شہریت والے سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلایاجائے گا، دفاعی بجٹ کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری لازمی ہوگی، تینوں افواج کے سربراہان کی تقرری صرف میرٹ اور سینارٹی پر ہوگی، کراچی پاکستان کا اقتصادی دارالخلافہ ہے اسے مختلف مافیا کی گرفت سے آزاد کراکر امن بحال کرائیںگے، پولیس کی تطہیر کی جائے گی اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بلا امتیاز آپریشن کرکے کاروباری سرگرمیاں بحال کرائی جائیںگی۔
مسلم لیگی کہتے ہیں کہ یہ منشور دور حاضر کی ایک عظیم دستاویز ہے اور پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک قومی میثاق ہے، جس پر عمل کرکے پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کے برابر لایاجاسکتاہے، اس کے زیادہ تر نکات قابل عمل ہیں اور صنعت وتجارت اور معیشت کے نبض شناس ماہرین کا خیال ہے کہ اس منشور کے مطابق جامع منصوبہ بندی کی جائے تو اس کے ثمرات جلد ہی عوام، ملکی معیشت، صنعت وتجارت کے فروغ ہونے سے ضرور مل سکتے ہیں۔
یہ بظاہر ایک انقلابی، تعمیراتی، فلاحی اور اصلاحی پروگرام نظر آتاہے، ایسا لگتاہے کہ موجودہ مسلم لیگیوں کے سینے میں ملک وقوم کی بہتری کا ویسا ہی درد ہے جیسا کہ تحریک پاکستان کے دور میں مسلم لیگی بانیان پاکستان کے دل میں تھا، اس منشور کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتاہے کہ ہماری ہر شعبہ زندگی میں گھری ہوئی قوم کو درپیش مسائل کا ایک شافی اورکافی حل تجویز کیاگیاہے۔
انسان کو باعزت زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ دو وقت کی روٹی ملے زندگی کا تحفظ ہو سر چھپانے کے لیے چھت کا بندوبست ہو۔ جب انسان مل جل کر ایک معاشرہ تشکیل دیتے ہیں تو ایک قوم بن جاتے ہیں، پھر انھیں قوموں کی برادری میں مناسب مقام بھی چاہیے، اگر کوئی قوم اپنے مسائل میں الجھی ہوئی ہو تو بین الاقوامی طورپر اپنا مقام کھودیتی ہے، پاکستانی قوم کو اس وقت درپیش ان گنت مسائل کو حل کرنے کے لیے ماشاء اﷲ مسلم لیگ کے پاس میاں نواز شریف جیسی سیاسی تجربات کی بھٹی سے گزری ہوئی دور اندیش اور دیدہ ور قیادت موجود ہے اور ان کے پاس ایک با صلاحیت تجربہ کار مخلص کمٹڈ نظریاتی 2ndلیڈر شپ کی ایک لمبی لسٹ بھی موجود ہے، اس لیے امید ہے کہ یہ پارٹی عوام کے دکھوں کو کافی حد تک دور کرسکے گی۔
اگر ان کے اندر خلوص رہا اور اقتدار میں آنے کے بعد اس منشور پر ایماندارانہ طورپر عمل کیا تو واقعی اس سے ہمارے بہت سے مسائل دور ہوسکتے ہیں اور یہ منشور ایک مقدس دستاویز اور قومی میثاق ثابت ہوسکتاہے۔
پاکستان کے عوام دل کی گہرائیوں سے اﷲ تعالیٰ سے دست بددعا ہیں کہ ان مسلم لیگیوں کو اس منشور کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔نیزعوام الناس تو یہ بھی چاہیںگے کہ جس طرح تمام سیاسی پارٹیوں اور دیگر اسٹیک ہورلڈرز نے پچھلے پانچ سالوں میں پیپلزپارٹی کو اپنے منشور پر عمل در آمد کرنے کا موقع دیا۔ اسی طرح مسلم لیگ کو آیندہ پانچ سال دیے جائیں اور ان پر اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دبائو ڈالتے رہیں اس طرح امید ہے کہ پاکستان کو درپیش بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔اب اس منشور کے چیدہ چیدہ نکات کی طرف آتے ہیں۔
کسی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے بنیادی ضرورت انرجی یا توانائی کی ہوتی ہے جس کا اس وقت وطن عزیز میں بڑا بحران ہے، توانائی کی شدید کمی نے ہمارے ملک کو تاریکی اور غربت کے اندھیروں میں ڈبویا ہوا ہے، اندازہ لگایاگیاہے کہ توانائی کی کمی سے5ارب ڈالر سالانہ نقصان ہورہاہے، اس منشور کے مطابق اسے دو سال میں حل کرنے کا عزم ظاہر کیاگیاہے، نیز کوئلے سے بھی 5,000/=میگاواٹ بجلی حاصل کی جائے گی اور تھر کول کے ذرایع سے پورا استفادہ کیاجائے گا۔
توانائی کا مسئلہ حل ہوگا تو بند صنعتوں، نئے کارخانوں اور فیکٹریوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا شروع ہوگا اور پیداوار بڑھے گی، نئی سرمایہ کاری آئے گی۔ جس سے پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر میں30لاکھ روزگار کے مواقعے نکلیںگے، نیشنل یوتھ پالیسی کے پروگرام کے ذریعے دس لاکھ نوجوانوں کو ملازمتیں دی جائیںگی، کم از کم تنخواہ15,000 روپے ماہانہ ہوگی، ہر قسم کی آمدنی پر منصفانہ طورپر ٹیکس لگاکر ریونیو بڑھایاجائے گا، مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے سادگی اختیار کی جائے گی، پر تعیش اور غیر ضروری اشیاء کی در آمد کی نہ صرف حوصلہ شکنی کی جائے گی بلکہ بھاری ڈیوٹیز بھی لگائی جائیں گی۔
نجی شعبے کے اشتراک سے برآمدات کو 100 ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا، ٹیکس جی ڈی پی شرح موجودہ9% سے15تک لاکر بجٹ خسارہ4%تک لایاجائے گا۔انھی اقدامات کے ذریعے مہنگائی، بیروزگاری اور غربت پر قابو پایاجائے گا اور خوراک کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ہر انسان کا بنیادی حق قرار دیاجائے گا، معیشت کو سرکاری کنٹرول اور بیوروکریسی کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے اصلاحات کی جائیںگی۔
اس وقت ملک میں رہائشی یونٹوں کی شدید کمی ہے، اس کے لیے500،500گھروں پر مشتمل1000بستیاں بسائی جائیںگی۔ غیر دانشمندانہ پالیسیوں کی وجہ سے قومی ادارے انحطاط کا شکار ہیں، پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل ملز، واپڈا اور دیگر اداروں کو نجکاری اور تشکیل نو کے امتزاج سے منافع بخش بنایاجائے گا، نئے سی این جی اسٹیشنوں پر پابندی لگائی جائے گی لیکن عوام کو سستی ٹرانسپورٹ کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کو گیس ترجیحاً دی جائے گی، ریلوے کی اصلاح کرکے بند ٹرینوں کو چلایاجائے گا اورکراچی سے پشاور تک بلٹ ٹرین چلائی جائے گی،نئے منصوبوں کے مطالبے کے پیش نظر بہاولپور جنوبی پنجاب اور ہزارہ کے صوبے بنائے جائیںگے، فاٹا کے عوام نے بھی چاہا تو وہاں بھی صوبہ بنادیںگے، نیز بلدیاتی انتخابات6ماہ میں کرانے کا وعدہ کیاگیاہے۔
ملک میں پھیلی ہوئی دہشت گردی انتہا پسندی اور عسکریت کے خاتمے کے لیے سب سیاسی قوتوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے تعاون طاقت کے بجائے سیاسی اقدامات کے ذریعے موثر اور ہمہ گیر حکمت عملی اختیار کرکے امن وامان بحال کریںگے۔
انسداد رشوت ستانی ا ور کرپشن کے احتساب کے لیے قومی احتساب کمیشن تجویز کیاگیاہے۔
آزادانہ خارجہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے قومی مقاصد کو پیش نظر رکھاجائے گا، نیز ڈرون حملے برداشت نہیںکیے جائیںگے، دہری شہریت والے سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلایاجائے گا، دفاعی بجٹ کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری لازمی ہوگی، تینوں افواج کے سربراہان کی تقرری صرف میرٹ اور سینارٹی پر ہوگی، کراچی پاکستان کا اقتصادی دارالخلافہ ہے اسے مختلف مافیا کی گرفت سے آزاد کراکر امن بحال کرائیںگے، پولیس کی تطہیر کی جائے گی اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بلا امتیاز آپریشن کرکے کاروباری سرگرمیاں بحال کرائی جائیںگی۔
مسلم لیگی کہتے ہیں کہ یہ منشور دور حاضر کی ایک عظیم دستاویز ہے اور پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک قومی میثاق ہے، جس پر عمل کرکے پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کے برابر لایاجاسکتاہے، اس کے زیادہ تر نکات قابل عمل ہیں اور صنعت وتجارت اور معیشت کے نبض شناس ماہرین کا خیال ہے کہ اس منشور کے مطابق جامع منصوبہ بندی کی جائے تو اس کے ثمرات جلد ہی عوام، ملکی معیشت، صنعت وتجارت کے فروغ ہونے سے ضرور مل سکتے ہیں۔