ایک اچھی روایت
ملک بھر میں امن وامان کی صورت حال بھی کلی طور پر تسلی بخش نہیں ہے
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے 16 مارچ کی شب اپنے الوداعی خطاب میں قوم کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار منتخب جمہوری حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کرلی جو غیر معمولی اور تاریخی واقعہ ہے اور اب کوئی طالع آزما شب خون نہیں مارسکتا۔ وزیر اعظم نے تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کا شکریہ ادا کیا کہ جن کے تعاون سے جمہوریت کو تقویت ملی انھوں نے اپنے خطاب میں حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کا احاطہ پیش کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ ہم دودھ اور شہر کی نہریں تو نہیں بہا سکے لیکن ورثے میں ملے ہوئے مسائل کو ضرور کم کیا۔
وزیر اعظم نے واضح کیا کہ ملک میں الیکشن کمیشن، عدلیہ اور میڈیا آزاد ہے لہٰذ ا آیندہ عام انتخابات میں دھاندلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔انھوں نے بجاطور پر کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں جمہوری حکومت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں لیکن ہمارا اور ہمارے اتحادیوں کا عزم نہیں ڈگمگایا۔ ہم نے برداشت کو نئے معنی دیے کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا ملک میں کوئی سیاسی قیدی نہیں، ہم نے ہر کسی کے مینڈیٹ کا احترام کیا اس نئے طرز سیاست کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم نے آغاز بھی اتفاق رائے سے کیا اور آج اسمبلیوں کا اختتام بھی اتفاق رائے سے کر رہے ہیں۔خطاب کے آخر میں وزیر اعظم نے تمام سیاسی قوتوں، قومی اداروں، سول سوسائٹی اور ذرایع ابلاغ سے اپیل کی کہ وہ سب مل کر انتخابی عمل کو آزاد ، پرسکون اور خوشگوار ماحول میں مکمل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور ثابت کردیں کہ ہم ایک باشعور، پرامن، ذمے دار اور جمہوری قوم ہیں۔
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ ملک کی 65 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب جمہوری حکومت اپنے اقتدار کی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوگئی جس سے بلاشبہ جمہوریت کے تسلسل کو استحکام ملا ہے ہرچند کہ بعض عاقبت نااندیش بدخواہوں اور مخالفین نے حکومت گرانے کی اپنی سی ہزارہا کوششیں کیں، وقفے وقفے سے حکومت کے خاتمے کی ڈیڈ لائن بھی دی جاتی رہی۔ منفی پروپیگنڈے، بے بنیاد اسکینڈل، من گھڑت کہانیاں اور سازشی تھیوریاں نئے رنگ اور آہنگ کے ساتھ میڈیا کی زینت بنتی رہیں کبھی عدلیہ اور کبھی فوج کی جانب التجائی نظروں سے دیکھا جاتا رہا اگر چہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی رخصتی سے حکومت کو وقتی طور پر ایک جھٹکا ضرور لگا۔
لیکن صدر آصف علی زرداری کی دانشمندی، برداشت اور مفاہمانہ پالیسی کے باعث حکومت مشکل صورت حال سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی تاہم صد آفرین کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اول دن ہی سے پاک فوج کو سیاسی آلودگیوں سے دور اور پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی تک محدود رکھنے کا عزم صمیم کر رکھا ہے وہ پہلے آرمی چیف ہیں جو ملک میں جمہوریت کے استحکام کی علامت ہیں۔ اگرچہ فوج نے گزشتہ پانچ سالوں میں بجا طور پر مشکل صورت حال کا سامنا کیا بالخصوص دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پانچ ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کیا، سوات میں بے جگری سے لڑتے ہوئے دہشت گردوں کا صفایا کیا، فوج آج بھی اس عفریت کے خلاف برسر پیکار ہے۔
ملک بھر میں امن وامان کی صورت حال بھی کلی طور پر تسلی بخش نہیں ہے تاہم جنرل اشفاق پرویز کیانی اندرونی وبیرونی حالات کی نزاکتوں اور سنگینی سے پوری طرح آگاہ رہے اور دیانت داری کے ساتھ جمہوری حکومت کے ساتھ کھڑے رہے۔ ملک میں پہلی مرتبہ جمہوری حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کے مثبت و تعمیری کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ آرمی چیف نے بلاشبہ کروڑوں عوام کے ووٹوں کے تقدس کو پامال نہیں ہونے دیا اور عوامی رائے کے احترام کی درخشندہ مثال قائم کردی یہی وجہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری کے مشیر خاص رحمن ملک نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو فیلڈ مارشل کا خطاب دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
آپ ماضی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ پاکستان میں اقتدار کی کرسی سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان رسہ کشی کا باعث بنی رہی جس میں عسکری قیادت کا پلہ بھاری رہا کہ جب کسی جنرل نے اقتدار حاصل کیا تو لگ بھگ ایک عشرے تک اس پر قابض رہا اورکبھی بھی بہ رضا و رغبت اقتدار سول حکمرانوں کے حوالے نہیں کیا، جنرل ایوب خان نے 7 اکتوبر 1958 کو صدر اسکندر مرزا کے فرمان کے تحت چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا اور تین ہفتے بعد ہی اسکندر مرزا کو معزول کرکے صدر کے منصب جلیلہ پر بھی قبضہ کرلیا۔
جنرل ایوب بلا شرکت غیرے تقریباً 10 برس تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے پھر ایک زبردست احتجاجی تحریک کے نتیجے میں انھوں نے 25 مارچ 1969 کو اپنے اختیارات کمانڈر انچیف جنرل آغا یحییٰ خان کے سپرد کردیے ان کا دور ملکی تاریخ کا بدترین زمانہ قرار دیا جاتا ہے کیونکہ جنرل یحییٰ کے غیر دانشمندانہ فیصلوں کے باعث ملک میں سیاسی و آئینی بحران پیدا ہوا۔ سابق مشرقی پاکستان میں بغاوت نے سر اٹھایا بالآخر بھارتی فوجیں وہاں داخل ہوگئیں اور ملک دولخت ہوگیا اس گھاؤ کی کسک آج بھی محسوس ہوتی ہے۔
سقوط بنگال کے بعد 2 دسمبر 1971 کو مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا اور ملک کی تعمیر نو شروع کردی یہ توقع کی جارہی تھی سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد اب کوئی طالع آزما جنرل جمہوریت پر شب خون نہیں مارے گا لیکن یہ خواب تشنہ تعبیر ہی رہا اور جنرل ضیا ء الحق نے 5 جولائی 1977 کو نہ صرف منتخب جمہوری حکومت کو ختم کیا بلکہ اسلامی دنیا کے مدبر سیاستدان اور لاکھوں عوام کے ہر دلعزیز رہنما ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا جس کے نتیجے میں ملکی سیاست بھٹو حامی اور بھٹو مخالف دو واضح حلقوں میں تقسیم ہوگئی۔
یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے جنرل ضیاء کے دور میں افغان جنگ کا نقارہ بجا انھوں نے اس میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا، لاکھوں افغان مہاجرین کو پاکستان میں پناہ دی جو اپنے ساتھ بے شمار ''تحفے'' بھی لائے اور ملک میں انتہا پسندی، دہشت گردی، فرقہ واریت، منشیات فروشی اور کلاشنکوف کلچر پروان چڑھا۔ 17 اگست 88کو ایک فضائی حادثے میں جنرل ضیاء کی ہلاکت کے بعد بے نظیر بھٹو شہید دو مرتبہ وزیر اعظم بنیں، نواز شریف کو بھی دو بار موقع ملا لیکن دونوں وزرائے اعظم کی حکومتیں آئینی مدت سے پہلے ہی ختم کردی گئیں۔
12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف نے جمہوریت پر شب خون مارا۔ 9/11 کے سانحے کے نتیجے میں کمانڈو جنرل امریکی جنگ کا حصہ بن گئے اور اس جنگ کے شعلوں نے پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ۔2008 کو جنرل مشرف رخصت ہوتے ہوئے ملک کو دہشت گردی، خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے عذابوں میں مبتلا کرگئے جن سے نجات آیندہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ 2013 اس حوالے سے ملکی تاریخ کا اہم ترین سال ہے کہ بڑی شخصیات صدر زرداری، آرمی چیف جنرل کیانی اور چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری پہلی مرتبہ اپنے اپنے شعبوں میں یادگار روایت ڈال کے جارہے ہیں کاش! کہ آنے والے اس روایت کی حفاظت کرسکیں۔