عجیب کشمکش
گلاب کو اتنا حسین اور عمدہ نام دیا گیا ہے تو اس کی بہتریں خصوصیات کی وجہ سے ہی دیا جاتا ہے
ہمارا معاشرہ متضاد رویوں کے علاوہ متضاد قسم کی مثالوں اور حوالوں سے بھی یہاں کے بسنے والوں کو ایک عجیب کشمکش کا شکار رکھتا ہے جس کی وجہ سے انسانی ذہن بہت دفعہ درست سمت کا تعین نہیں کرتا اور ہر نئی لہر کے ساتھ آسانی سے بہہ جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے۔ ہمارے سماج میں روایتی طور پر یہ بات بہت زیادہ مشہور ہے کہ نام کا شخصیت پر اثر ہوتا ہے، اس لیے مسلمان ہونے کے شرف کے باعث ہم اپنے بچوں کے نام بزرگ ہستیوں کی نسبت سے ہی رکھتے ہیں اور یہ توقع بھی رکھی جاتی ہے کہ بڑے ہو کر یہ بھی اسی طرح دین کی خدمت انجام دے گا۔
یہ ہی وجہ ہوتی ہے کہ بچے کی پیدائش سے پہلے ہی ناموں کا انتخاب کرلیا جاتا ہے بلکہ اس معاملے میں صورتحال لڑائی جھگڑے تک بھی پہنچ جاتی ہے، اس کے علاوہ اگر عمر کے بڑھنے کے عمل میں بچے میں کوئی جسمانی کمی محسوس ہوتی یا کسی قسم کا کوئی ایسا معاملہ درپیش ہوتا جو طبعیات سے تعلق نہ رکھتا ہو تو دوست احباب کہتے ہیں کہ نام تبدیل کردو اس سے فرق پڑجائے گا اور بہت دفعہ حقیقی تغیر بھی واقع ہوجاتا ہے جس کی وجہ 'کچھ' بھی رہی ہو لیکن 'سہرا' کوئی نہ کوئی اپنے سر پر خود ہی باندھ لیتا ہے۔
اگر گلاب کو اتنا حسین اور عمدہ نام دیا گیا ہے تو اس کی بہتریں خصوصیات کی وجہ سے ہی دیا جاتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ پرچیاں ڈالی جائیں اور جو نام جس پھول کے لیے نکل آئے وہ منتخب کرلیا جائے۔ اس طرح تو ہر خطے کے مطابق ایک ہی پھول کے کئی نام ہوجاتے جو اس کے حقیقی جوہر سے مطابقت بھی نہ رکھتے بلکہ لوگوں کی اپنی پسند کے نام ہوتے۔
زبان جو بھی ہو لیکن گلاب کو نام اس کی خصوصیات کی بنا پر ہی دیا جاتا ہے، اور اگر کسی انسان کو بھی اس سے نسبت دی جائے تو اِس کے بعد اُس فرد کے بارے میں مزید کچھ اظہار کی ضرورت نہیں رہتی اور دیگر افراد بھی اس شخص کے بارے میں یہ ہی رائے دیتے پائے جاتے ہیں کہ یہ گلاب جیسی شخصیت کا مالک ہے، مطلب یہ کہ نام کا اثر نظر آنا شروع ہوجاتا ہے۔ ایک مزاح کے پروگرام میں خاکہ پیش ہوا جس میں بچے کا باپ پریشان ہوتا ہے کہ میرے بیٹے کا قد نہیں بڑھتا، جس پر اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کا نام 'مہنگائی' رکھ دو، روزانہ کے حساب سے بڑھ جائے گا۔ یعنی ہمارے معاشرے کی مجموعی فکر یہ ہی رہی ہے کہ نام کا اثر ہوتا ہے۔
تقریباً ایک دہائی قبل پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک میں آناً فاناً ایک 'مخلوق' کا اضافہ ہوا جو دیگر خطوں میں تو برسوں سے پائی جاتی تھی لیکن ہمارے معاشروں میں اس کی دریافت نہیں ہوئی تھی، اور اس 'پکشی' کی اہمیت دوچند اس وقت ہوگئی جب اس نے جدید ٹیکنالوجی کے بہترین استعمال کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں کئی برسوں سے قابض حکمرانوں کے تخت الٹ دیے، جی ہاں یہ تھی 'یوتھ'۔ ہمارے معاشرے بھی یہ بکثرت پائے جاتے تھے، فرق صرف یہ تھا کہ ان کو پتا نہیں تھا کہ یہ بھی اپنی کوئی شان اور جان رکھتے ہیں جس کے ذریعے دنیا میں ہر طرح کی 'تبدیلی' لائی جاسکتی ہے۔
جب کہا جاتا ہے ہر طرح کی تبدیلی، تو اس سے مراد 'ہر' طرح کی تبدیلی نہیں ہوتا بلکہ صرف اور صرف 'معاشی' حوالوں سے بہتری اور ملک سے پہلے اپنی بہتری کا خیال اور خواب ہوتا ہے، اس لیے ان حضرات کا سب سے پسندیدہ موضوع جس پر یہ بہترین خطابت کا ملکہ رکھتے ہیں وہ ملک میں جاری 'کرپشن' کا ناسور ہوتا ہے جس سے یہ تمام قسم کے مسائل کا حل 'بظاہر' نکال لیتے ہیں، جس کا حقیقت میں مطلب اپنا ہی الو سیدھا کرنا ہوتا ہے۔ بے روزگاری کا رونا دراصل اپنے ذاتی حالات کا شکوہ ہوتا ہے، جس میں آواز ملانے کے لیے اور بھی کئی 'جواں' مل جاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوان ایک دم یوتھ میں کس طرح تبدیل ہوگئے، کس طرح مفاد پرست ہوگئے، کس طرح ملک اور ملت کا غم پالنے والے صرف روزگار کے مسائل تک محدود ہوگئے، ان کو چند سال میں مورثی سیاست سے اتنی 'نفرت' کیوں ہوگئی؟
یوتھ سب سے پہلے ان لڑکے اور لڑکیوں کو قرار دیا گیا تھا جو اٹھارویں صدی کے اختتام پر یورپ میں روزگار کے حصول کے لیے دیہاتوں سے شہروں کی طرف اپنا معیار زندگی بلند کرنے کی خاطر 'ہجرت' کرکے آئے تھے اور روزگار کے حصول کے لیے مختلف جگہوں پر آباد ہوئے اور ناکامی کی صورت میں مظاہرے اور دیگر کام انجام دیتے تھے۔ یہ ایک ساتھ رہتے تھے، جس کی وجہ سے ان کے آپس کے تعلقات بھی قائم ہوئے جو کہ ناجائز ہی تھے، اس دوران وہاں ان کی اولاد بھی ہوگئیں، اب جہاں روزگار کے مسائل کا سامنا تھا وہیں ان بچوں کی آمد ان نوجوانوں کے لیے فکر اور پریشانی کا باعث بنتی اور نوبت لڑائی تک جاتی، کیونکہ اس طرح کے حالات میں اپنا گزارا مشکل تھا، ایسے بچوں کی ذمے داری کون لیتا جو 'حادثاتی' طور پر آگئے تھے۔
ایسے ہی ایک حادثاتی بچے نے ایک ناول لکھ کر اس غم کا، زندگی کے کرب کا اظہار کیا کہ جب وہ تھوڑا بڑا ہوا تو وہ مرد اور عورت جن کے ساتھ وہ رہتا تھا، جو اس کو دنیا میں لانے کا باعث تھے، اس کے اخراجات کے حوالے سے لڑتے رہتے اور جب اس کا معاملہ زیر بحث آتا تو دونوں ایک دوسرے کی طرف انگلیاں اٹھا کر کہتے You are responsible، جو کچھ عرصے بعد صرف You تک محدود رہ گیا اور تھوڑے ہی عرصے میں محلے کے افراد نے نام کو بگاڑکر اس بچے کو YoYo نام سے پکارنا شروع کردیا۔
آہستہ آہستہ وہ اس بستی کا مشہور بدمعاش بنا اور زندگی بھر اپنے جیسے YoYo's کے ساتھ مل کر چوری، ڈاکے اور عزتیں لوٹنے میں مصروف رہا، اس بستی کے ایک نوجوان نے کسی طرح اچھی تعلیم حاصل کرلی اور کہیں اور جا کر بس گیا، جہاں وہ اپنے پوتوں اور نواسوں کو اُس ڈاکو کی کہانیاں سنایا کرتا تھا، جس سے متاثر ہوکر اس کے پوتے نے بچوں کا کھلونا YoYo ایجاد کیا جس کے پیچھے یہ ہی فکر کارفرما تھی کہ کسی طرح وہ بچہ ٹھکرایا جاتا تھا اور وہ پھر ماں باپ کی محبت میں پلٹ کر ان کی طرف جاتا تھا لیکن وہ اس کو دھتکار دیتے، جس طرح ایک ڈور پر وہ پلاسٹک کا ٹکڑا اوپر نیچے ہوتا ہے، اس کا کوئی مقام نہیں ہوتا، بس وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ اپنی زندگی کی ڈور ٹوٹنے تک ادھر ادھر ڈولتا رہتا ہے، اس کھلونے کا استعمال کرنے والے باآسانی اس بات کو سمجھ سکتے ہیں۔
دنیا میں حقیقی تبدیلی ہمیشہ نوجوان ہی لائے ہیں لیکن یہ ہر دور میں مفاد کے بغیر کسی جدوجہد میں شامل ہوتے تھے، آج مذہب سے 'بیگانے' اور مذہب کے 'پروانے' سب نے نوجوانوں کو یوتھ کا نام دے دیا ہے۔ دونوں فکر رکھنے والے حسین زندگی اور بہتر معیار زندگی کا خواب دکھا کر مجمع اکٹھا کر رہے ہیں۔ نوکریوں کا اسیر کرکے انقلاب کی امید سناتے ہیں، روایتی معاشروں میں جب کسی بڑے کام کی امید ہوتی تھی تو کہا جاتا تھا کہ یہ کام تو کوئی نوجوان ہی انجام دے سکتا ہے اور نوجوان کا لفظ سن کر دماغ میں مرد ہی کا کردار سامنے آتا تھا، اور وہ ہر طرح کی آزمائش جَھیل کر حالات کا دھارا بدل دیتا تھا۔
یوتھ کی فکر دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ حضرات صنف نازک کے ساتھ کام کرنا 'فخر' سمجھتے ہیں، نوجوان سڑکوں پر جانیں دے کر انقلاب لاتے تھے اور 'یوتھ' کی خواہش ہے کہ ٹھنڈے سیمینارکے کمروں سے، مہکتی خوشبوئوں کے ساتھ فیس بک اور میڈیا کے ذریعے کوئی جادوئی انقلاب رونما ہوجائے تاکہ نہ تو ٹائیوں کی ناٹ خراب ہو اور نہ ہی اونچی ہیلوں کے ساتھ بھاگنا پڑے، ہاں اگر سڑک پر آنا پڑ ہی جائے تو کم سے کم سن گلاسز، چھتریاں اور منرل واٹر کی چھوٹی بوتلوں کا انتظام ہونا چاہیے اور رنگ جل جانے کی صورت میں اسی شام فیشل کا... سچ نام میں بہت کچھ رکھا ہے۔
یہ ہی وجہ ہوتی ہے کہ بچے کی پیدائش سے پہلے ہی ناموں کا انتخاب کرلیا جاتا ہے بلکہ اس معاملے میں صورتحال لڑائی جھگڑے تک بھی پہنچ جاتی ہے، اس کے علاوہ اگر عمر کے بڑھنے کے عمل میں بچے میں کوئی جسمانی کمی محسوس ہوتی یا کسی قسم کا کوئی ایسا معاملہ درپیش ہوتا جو طبعیات سے تعلق نہ رکھتا ہو تو دوست احباب کہتے ہیں کہ نام تبدیل کردو اس سے فرق پڑجائے گا اور بہت دفعہ حقیقی تغیر بھی واقع ہوجاتا ہے جس کی وجہ 'کچھ' بھی رہی ہو لیکن 'سہرا' کوئی نہ کوئی اپنے سر پر خود ہی باندھ لیتا ہے۔
اگر گلاب کو اتنا حسین اور عمدہ نام دیا گیا ہے تو اس کی بہتریں خصوصیات کی وجہ سے ہی دیا جاتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ پرچیاں ڈالی جائیں اور جو نام جس پھول کے لیے نکل آئے وہ منتخب کرلیا جائے۔ اس طرح تو ہر خطے کے مطابق ایک ہی پھول کے کئی نام ہوجاتے جو اس کے حقیقی جوہر سے مطابقت بھی نہ رکھتے بلکہ لوگوں کی اپنی پسند کے نام ہوتے۔
زبان جو بھی ہو لیکن گلاب کو نام اس کی خصوصیات کی بنا پر ہی دیا جاتا ہے، اور اگر کسی انسان کو بھی اس سے نسبت دی جائے تو اِس کے بعد اُس فرد کے بارے میں مزید کچھ اظہار کی ضرورت نہیں رہتی اور دیگر افراد بھی اس شخص کے بارے میں یہ ہی رائے دیتے پائے جاتے ہیں کہ یہ گلاب جیسی شخصیت کا مالک ہے، مطلب یہ کہ نام کا اثر نظر آنا شروع ہوجاتا ہے۔ ایک مزاح کے پروگرام میں خاکہ پیش ہوا جس میں بچے کا باپ پریشان ہوتا ہے کہ میرے بیٹے کا قد نہیں بڑھتا، جس پر اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کا نام 'مہنگائی' رکھ دو، روزانہ کے حساب سے بڑھ جائے گا۔ یعنی ہمارے معاشرے کی مجموعی فکر یہ ہی رہی ہے کہ نام کا اثر ہوتا ہے۔
تقریباً ایک دہائی قبل پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک میں آناً فاناً ایک 'مخلوق' کا اضافہ ہوا جو دیگر خطوں میں تو برسوں سے پائی جاتی تھی لیکن ہمارے معاشروں میں اس کی دریافت نہیں ہوئی تھی، اور اس 'پکشی' کی اہمیت دوچند اس وقت ہوگئی جب اس نے جدید ٹیکنالوجی کے بہترین استعمال کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں کئی برسوں سے قابض حکمرانوں کے تخت الٹ دیے، جی ہاں یہ تھی 'یوتھ'۔ ہمارے معاشرے بھی یہ بکثرت پائے جاتے تھے، فرق صرف یہ تھا کہ ان کو پتا نہیں تھا کہ یہ بھی اپنی کوئی شان اور جان رکھتے ہیں جس کے ذریعے دنیا میں ہر طرح کی 'تبدیلی' لائی جاسکتی ہے۔
جب کہا جاتا ہے ہر طرح کی تبدیلی، تو اس سے مراد 'ہر' طرح کی تبدیلی نہیں ہوتا بلکہ صرف اور صرف 'معاشی' حوالوں سے بہتری اور ملک سے پہلے اپنی بہتری کا خیال اور خواب ہوتا ہے، اس لیے ان حضرات کا سب سے پسندیدہ موضوع جس پر یہ بہترین خطابت کا ملکہ رکھتے ہیں وہ ملک میں جاری 'کرپشن' کا ناسور ہوتا ہے جس سے یہ تمام قسم کے مسائل کا حل 'بظاہر' نکال لیتے ہیں، جس کا حقیقت میں مطلب اپنا ہی الو سیدھا کرنا ہوتا ہے۔ بے روزگاری کا رونا دراصل اپنے ذاتی حالات کا شکوہ ہوتا ہے، جس میں آواز ملانے کے لیے اور بھی کئی 'جواں' مل جاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوان ایک دم یوتھ میں کس طرح تبدیل ہوگئے، کس طرح مفاد پرست ہوگئے، کس طرح ملک اور ملت کا غم پالنے والے صرف روزگار کے مسائل تک محدود ہوگئے، ان کو چند سال میں مورثی سیاست سے اتنی 'نفرت' کیوں ہوگئی؟
یوتھ سب سے پہلے ان لڑکے اور لڑکیوں کو قرار دیا گیا تھا جو اٹھارویں صدی کے اختتام پر یورپ میں روزگار کے حصول کے لیے دیہاتوں سے شہروں کی طرف اپنا معیار زندگی بلند کرنے کی خاطر 'ہجرت' کرکے آئے تھے اور روزگار کے حصول کے لیے مختلف جگہوں پر آباد ہوئے اور ناکامی کی صورت میں مظاہرے اور دیگر کام انجام دیتے تھے۔ یہ ایک ساتھ رہتے تھے، جس کی وجہ سے ان کے آپس کے تعلقات بھی قائم ہوئے جو کہ ناجائز ہی تھے، اس دوران وہاں ان کی اولاد بھی ہوگئیں، اب جہاں روزگار کے مسائل کا سامنا تھا وہیں ان بچوں کی آمد ان نوجوانوں کے لیے فکر اور پریشانی کا باعث بنتی اور نوبت لڑائی تک جاتی، کیونکہ اس طرح کے حالات میں اپنا گزارا مشکل تھا، ایسے بچوں کی ذمے داری کون لیتا جو 'حادثاتی' طور پر آگئے تھے۔
ایسے ہی ایک حادثاتی بچے نے ایک ناول لکھ کر اس غم کا، زندگی کے کرب کا اظہار کیا کہ جب وہ تھوڑا بڑا ہوا تو وہ مرد اور عورت جن کے ساتھ وہ رہتا تھا، جو اس کو دنیا میں لانے کا باعث تھے، اس کے اخراجات کے حوالے سے لڑتے رہتے اور جب اس کا معاملہ زیر بحث آتا تو دونوں ایک دوسرے کی طرف انگلیاں اٹھا کر کہتے You are responsible، جو کچھ عرصے بعد صرف You تک محدود رہ گیا اور تھوڑے ہی عرصے میں محلے کے افراد نے نام کو بگاڑکر اس بچے کو YoYo نام سے پکارنا شروع کردیا۔
آہستہ آہستہ وہ اس بستی کا مشہور بدمعاش بنا اور زندگی بھر اپنے جیسے YoYo's کے ساتھ مل کر چوری، ڈاکے اور عزتیں لوٹنے میں مصروف رہا، اس بستی کے ایک نوجوان نے کسی طرح اچھی تعلیم حاصل کرلی اور کہیں اور جا کر بس گیا، جہاں وہ اپنے پوتوں اور نواسوں کو اُس ڈاکو کی کہانیاں سنایا کرتا تھا، جس سے متاثر ہوکر اس کے پوتے نے بچوں کا کھلونا YoYo ایجاد کیا جس کے پیچھے یہ ہی فکر کارفرما تھی کہ کسی طرح وہ بچہ ٹھکرایا جاتا تھا اور وہ پھر ماں باپ کی محبت میں پلٹ کر ان کی طرف جاتا تھا لیکن وہ اس کو دھتکار دیتے، جس طرح ایک ڈور پر وہ پلاسٹک کا ٹکڑا اوپر نیچے ہوتا ہے، اس کا کوئی مقام نہیں ہوتا، بس وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ اپنی زندگی کی ڈور ٹوٹنے تک ادھر ادھر ڈولتا رہتا ہے، اس کھلونے کا استعمال کرنے والے باآسانی اس بات کو سمجھ سکتے ہیں۔
دنیا میں حقیقی تبدیلی ہمیشہ نوجوان ہی لائے ہیں لیکن یہ ہر دور میں مفاد کے بغیر کسی جدوجہد میں شامل ہوتے تھے، آج مذہب سے 'بیگانے' اور مذہب کے 'پروانے' سب نے نوجوانوں کو یوتھ کا نام دے دیا ہے۔ دونوں فکر رکھنے والے حسین زندگی اور بہتر معیار زندگی کا خواب دکھا کر مجمع اکٹھا کر رہے ہیں۔ نوکریوں کا اسیر کرکے انقلاب کی امید سناتے ہیں، روایتی معاشروں میں جب کسی بڑے کام کی امید ہوتی تھی تو کہا جاتا تھا کہ یہ کام تو کوئی نوجوان ہی انجام دے سکتا ہے اور نوجوان کا لفظ سن کر دماغ میں مرد ہی کا کردار سامنے آتا تھا، اور وہ ہر طرح کی آزمائش جَھیل کر حالات کا دھارا بدل دیتا تھا۔
یوتھ کی فکر دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ حضرات صنف نازک کے ساتھ کام کرنا 'فخر' سمجھتے ہیں، نوجوان سڑکوں پر جانیں دے کر انقلاب لاتے تھے اور 'یوتھ' کی خواہش ہے کہ ٹھنڈے سیمینارکے کمروں سے، مہکتی خوشبوئوں کے ساتھ فیس بک اور میڈیا کے ذریعے کوئی جادوئی انقلاب رونما ہوجائے تاکہ نہ تو ٹائیوں کی ناٹ خراب ہو اور نہ ہی اونچی ہیلوں کے ساتھ بھاگنا پڑے، ہاں اگر سڑک پر آنا پڑ ہی جائے تو کم سے کم سن گلاسز، چھتریاں اور منرل واٹر کی چھوٹی بوتلوں کا انتظام ہونا چاہیے اور رنگ جل جانے کی صورت میں اسی شام فیشل کا... سچ نام میں بہت کچھ رکھا ہے۔