قومی ترانے کا احترام
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ قانونی طور پر قومی ترانہ گانا لازمی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
BEIJING:
جب میں سیالکوٹ شہر میں رہتا تھا' جو اب پاکستان کا حصہ ہے، تو میں باقاعدگی سے کنٹونمنٹ میں واقع سینما گھروں میں جایا کرتا تھا۔ لیکن مجھے جس بات سے کوفت ہوتی تھی کہ مجھے برطانوی ترانے کے احترام میں کھڑا ہونا پڑتا تھا ''گاڈ سیو دی کنگ...'' (خدا بادشاہ کو بچائے...)'' سینما ہال کے دروازے کو کنڈی نہیں لگائی جاتی تھی بلکہ انھیں فلم بینوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا چاہیں تو احترام میں کھڑے رہیں چاہیں تو باہر نکل جائیں۔ کوئی مجبوری نہیں تھی البتہ جب برطانیہ کا قومی ترانہ بجایا جاتا تو آپ سے توقع کی جاتی تھی کہ اس کے احترام میں کھڑے ہو جائیں۔
برطانوی حکمرانوں کو انسانی حقوق کا بڑا احساس تھا اس لیے انھوں نے عوام پر ترانے کے احترام کی کوئی پابندیاں عائد نہیں کیں اور نہ ہی کوئی جرمانہ وغیرہ لگایا۔ ہندی فلموں کے بعد برطانوی قومی ترانہ بجایا جاتا تھا لیکن چونکہ فلم بین اٹھ کر جانا شروع کر دیتے تھے جب کہ ترانہ بجتا رہتا تھا پھر حکام نے یہ سوچ کر کہ کہیں اس طرح برطانیہ کے بادشاہ یا برطانوی ملکہ کی بے عزتی نہ ہو، برطانوی ترانہ بجانا ہی بند کر دیا۔ بھارت میں قومی ترانہ بجانے پر قانونی بحث ہوتی رہی ہے۔ 2013ء میں مہاراشٹر کی اسمبلی نے قانون پاس کیا کہ فلم شروع ہونے سے پہلے لازمی طور پر قومی ترانہ بجایا جائے۔
1960ء کی دہائی میں قومی ترانہ فلم کے اختتام پر بجایا جاتا لیکن چونکہ لوگ فلم ختم ہونے کے بعد عام طور پر سینما گھر سے باہر نکل جاتے تھے اس لیے قومی ترانہ بجانے کی روایت ختم کر دی گئی۔ موجودہ قوانین کے تحت ترانہ سننے کے لیے کسی کو مجبور نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی سزا وغیرہ دی جاتی ہے۔ 1971ء میں ترانے کی توقیر کا قانون پاس کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ جب بھارتی ترانہ ''جنا گنا منا'' بجایا جائے اور جو جان بوجھ کر نہیں گائے گا یا اس دوران مداخلت پیدا کرے گا۔
اس کو سزائے قید دی جائے گی، قید کی مدت تین سال تک ہو سکتی ہے یا جرمانہ ہو گا یا دونوں یعنی قید اور جرمانہ دونوں ہونگے۔ قومی ترانے کی سرکاری طوالت 52 سیکنڈ ہے (یعنی ایک منٹ سے آٹھ سیکنڈ کم) البتہ سینما گھروں میں جو ترانہ بجایا جاتا ہے اس کی طوالت قدرے زیادہ ہوتی ہے۔
وزارت داخلہ نے 2015ء میں جو حکمنامہ جاری کیا اس میں کہا گیا تھا کہ خواہ قومی ترانہ گایا جائے یا اس کی دھن بجائی جائے تمام حاضرین پر ''اٹین شن'' ہو کر کھڑا ہونا لازمی ہو گا۔ لیکن جب نیوریل یا ترانے کی دستاویزی فلم دکھائی جا رہی ہو تو اس موقع پر ترانے پر کھڑے ہونے کی پابندی نہیں ہو گی کیونکہ اس صورت میں لوگوں کے کھڑے ہونے پر فلم میں مداخلت ہو سکتی ہے جس سے ترانے کی تکریم میں اضافے کے بجائے الٹا بے توقیری ہو گی۔
اس حوالے سے جو قانون ہے وہ یہی کہتا ہے کہ یہ معاملہ عوام کی خوش ذوقی پر چھوڑ دیا جائے۔ ضروری نہیں کہ سب ہی ترانہ گائیں یا اس کی دھن بجائیں اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کا حکم اور ترانے کی خلاف ورزی کی سزائیں واضح نہیں۔ جب کہ عدالتی حکم کچھ اور معاملات کی تعذیریں بھی بناتا ہے۔
جہاں تک قومی ترانہ بجانے کے اصولوں کا تعلق ہے تو ان میں کہا گیا ہے کہ ترانہ صدر مملکت کے لیے بجایا جا سکتا ہے' وزیراعظم کے لیے نہیں اور عوام کس وقت مل کر خوص ترانہ گائیں گے اور چونکہ سپریم کورٹ کے احکامات اس بارے میں واضح نہیں ہیں کہ جن کی خلاف ورزی پر کیا سزا دی جائے گی تو ایسی مثالیں موجود ہیں کہ مختلف اقوام میں آزادی کے موقع پر وہ کس طرح قومی ترانے کی پذیرائی کرتے ہیں اور کئی مقامات پر لوگوں کے لیے قومی ترانے کے احترام میں کھڑا ہونا لازمی قرار دیا جاتا ہے۔
لیکن یہ بھی ان کی شخصی تکریم کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا ہے کہ سینما گھروں میں قومی ترانہ فلم شروع ہونے سے پہلے بجایا جائے جس کے احترام میں سب کو لازمی طور پر کھڑا ہونا چاہیے۔ لوگوں کو احساس ہونا چاہیے کہ وہ ایک قوم سے تعلق رکھتے ہیں اور قومی ترانہ اور قومی پرچم کی عزت و احترام کرتے ہیں۔
اکتوبر 2017ء کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس چندرا چڈ نے اشارہ دیا کہ 2016ء کے حکم میں ترمیم کی جانی چاہیے ''یعنی یہ بات کیوں لازمی ہے کہ سب لوگ قومی احترام کے معاملے کا کھلم کھلا اظہار کریں؟ لوگ سینما گھروں میں تفریح حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں لہٰذا اس تفریح میں کسی قسم کی آمیزش نہیں ہونی چاہیے۔
معاشرے کو تفریح کی ضرورت ہوتی ہے لیکن حکومت نے عدالت کو بتایا کہ نومبر 2016ء سے پہلے والی پوزیشن کو بحال کیا جائے گا جب سینما گھروں میں قومی ترانہ بجانا لازمی نہیں تھا۔ لہٰذا فاضل عدالت کو نومبر 2016ء سے پہلے والی پوزیشن بحال کرنے پر غور کرنا چاہیے۔
فاضل عدالت نے 30 نومبر 2016ء کو جو حکم صادر کیا تھا جس سے پہلے تمام سینما گھروں میں قومی ترانہ بجانا لامی تھا۔ چند سال پہلے سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے کیرالہ کے ایک اسکول کو حکم جاری کیا کہ ان تین بچوں کو جنھیں قومی ترانہ نہ گانے کی وجہ سے اسکول سے نکال دیا گیا تھا حالانکہ وہ ترانے کے وقت کھڑے ہوئے تھے۔ البتہ ترانہ گا نہیں رہے تھے کیونکہ ان کا مذہبی عقیدہ انھیں ترانہ گانے کی اجازت نہیں دیتا۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ قانونی طور پر قومی ترانہ گانا لازمی قرار نہیں دیا جا سکتا اور اگر کوئی قومی ترانہ بجتے وقت کھڑا ہو جاتا ہے مگر ترانہ گاتا نہیں ہے تو اس میں ترانے کی بے عزتی کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ لیکن عدالت نے اس پہلو پر کوئی رائے نہیں دی کہ اگر کوئی شخص ترانہ بجتے وقت کھڑا بھی نہیں ہوتا تو کیا وہ ترانے کی بے عزتی کا مرتکب ہو گا یا نہیں۔ عدالتی حکم ان الفاظ پر ختم ہوا ''ہماری روایت ہمیں صبر و تحمل کا درس دیتی ہے۔ ہمارا فلسفہ صبر و تحمل اور برداشت کی تلقین کرتا ہے۔ ہمارا آئین بھی اسی روایت کا حامل ہے لہٰذا ہمیں اس میں کسی اور چیز کو ملوث یا خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔
لیکن بدقسمتی سے کسی واضح فیصلے کی عدم موجودگی کی وجہ سے بہت کے ہائی کورٹوں نے اس مسئلہ پر مختلف آرا کا اظہار کیا ہے۔ مثال کے طور پر اگست 2014ء میں پولیس نے کیرالہ میں سات افراد پر فرد جرم عائد کر دی جن میں دو عورتیں بھی تھیں کیونکہ وہ تری ونڈرم شہر کے ایک تھیٹر میں ترانہ بجنے کے دوران احترام میں کھڑے نہیں ہوئے تھے۔
ان میں سے ایک 25 سالہ سلمان نامی مسلمان تھا جسے باقاعدہ گرفتار کر لیا گیا کیونکہ وہ بیٹھ کر ترانے کی ہوٹنگ کر رہا تھا۔ اس پر قومی ترانے کی توہین کا الزام بھی عاید کر دیا گیا کہ اس نے قومی پرچم کی بھی توہین کی ہے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے واضح اور صاف صاف احکامات ہونے چاہئیں کہ ترانہ بجتے وقت سب کو کھڑا ہونا چاہیے لیکن ملک کے کئی علاقوں میں قومی ترانے کے احترام میں کھڑا ہونا لازمی نہیں سمجھا جاتا اور اصول و ضوابط میں یہ کہیں درج نہیں ہے کہ اگر کوئی ترانے کے احترام میں کھڑا نہیں ہوتا تو اس صورت میں اس کی سزا کیا ہو گی یا اس پر کتنا جرمانہ کیا جائے گا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)