پاکستانی خارجہ پالیسی کے ثمرات

خواجہ آصف کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان کا اول روز سے افغان جنگ میں شامل ہونا غلط تھا۔

anisbaqar@hotmail.com

BUTIG, PHILIPPINES:
ہندوستان جو برطانیہ کے ماتحت ایک عرصے تک رہا، مگر آزادی کے بعد ہندوستان اور پاکستان نے دو سمتوںمیں اپنی خارجہ پالیسی کا رخ کیا۔ بھارت نے ماسکو سے قربت کا آغازکیا جو کانگریس کا نکتہ آغاز تھا، جب کہ پاکستان کی قربت برطانیہ اور امریکا کی جانب رہی بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ سیٹو اورسینٹو کے ماتحت رہے اور یہاں کے حکمراں ٹولے کی سوچ کا انداز بھی امریکا اور برطانیہ کے رخ پر رہا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی آمد نے پاکستان میں خارجہ پالیسی کے اس خول کو توڑ ڈالا جس میں وہ قید تھا اور بہت سے انقلابی اقدامات کیے۔ مگر بھارت میں جو زمینی اصلاحات پنڈت جواہر لعل نہرو نے کیں وہ شہید بھٹو بھی کرنے سے قاصر رہے کیونکہ ان کی کابینہ کا بااثر طبقہ زرعی اصلاحی پالیسی سے متفق نہ تھا اور یہی وہ طبقہ تھا جس نے نصرت بھٹوکو احتجاج کی سیاست سے پیپلز پارٹی کو روک دیا۔

جب سے پاکستان میں انقلاب کے چراغ کی لو سرد پڑگئی اور اب مضبوط بائیں بازو کی سیاست جاتی رہی۔ انسانی جسم کا بایاں بازو جو دل کی حرکت کا غماز ہے وہ سرد پڑگیا۔ اس کا عکس آپ آج بھی ملکی سیاست کے آئینے پر دیکھ سکتے ہیں، بظاہر ہمارے وزیر خارجہ امریکا کے خلاف گفتگوکر رہے ہیں لیکن امریکا کے قریب ترین سیاسی حلیف سے ہر آڑے وقت میں امداد کے طالب رہتے ہیں۔

ہمارے وزیر اعظم کے مطابق دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے 120 ارب ڈالر کے نقصانات برداشت کیے اور ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ بقول موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے امریکا نے ان قربانیوں کا اعتراف نہ کیا مگر اسی موضوع سخن پر خواجہ آصف نے جس انداز میں امریکا سے خطاب کیا اس سے امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں مزید بگاڑ آنے کو ہے جس کا مداوا سیاسی حکومت خود کرنے سے قاصر ہے۔

خواجہ آصف کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان کا اول روز سے افغان جنگ میں شامل ہونا غلط تھا اور اب صورتحال اس قدر پیچیدہ ہو چکی ہے کہ اس کا نمٹنا آسان نہیں۔ جن تنظیموں پر آج امریکا بندش اور نابودی کی باتیں کر رہا ہے ان کی پرورش اور عروج پر امریکا کا ہی ہاتھ ہے۔ خواہ ری پبلکن کے حکمراں ہوں یا ڈیموکریٹک حکمران دراصل یہ صورتحال حالیہ تناظر میں مزید پیچیدہ اس لیے ہوچکی ہے کہ افغان جنگ میں جب ایک صورتحال میں سوویت یونین کی پسپائی ہوچکی تو امریکی مقاصد پورے ہوچکے اب دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ یہ دور کہ اب وہاں کون سا نظام حیات شروع ہو۔

امریکا کا اپنا نکتہ نظر کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کا پھیلاؤ اور وہاں پر امریکی نظام زندگی کا تسلط ہو اور وہاں کی وہ قوتیں جو سوویت یونین کو زک پہنچانے میں پیش پیش تھیں وہ اپنی نظریاتی حکومتیں قائم کرنا چاہتی تھیں جس میں اسامہ بن لادن کی لابی تھی جس پر امریکا بمباری میں پیش پیش تھا۔ ایسی صورت میں جب امریکا اپنے کل کے ساتھی کو آج تہس نہس کرنے میں تلا ہوا تھا پاکستان ان قوتوں سے اچانک کیسے متصادم ہوجاتا جو امریکا چاہتا تھا۔ لہٰذا یہاں ایک ایسا مشکل وقت آیا کہ پاکستان اپنے ہی دوستوں کو کیسے ختم کرنے پر تیار ہوجائے۔


دوئم اس جنگ میں اچانک کیسے رخ بدل ڈالے لہٰذا پاکستان کو اپنے ہم خیال لوگوں کو قائل کرنا آسان نہ تھا۔ امریکا نے پاکستانی عوام کو اسلام کا نام لے کر سوویت یونین کے خلاف اعلان جہاد کیا محض اپنے مفادات کی جنگ میں جھونک دیا اور پاکستانی حکمران اس جنگ کے آخری نتائج سمجھ نہ سکے۔ جب کہ بھارت نواز لابی نے جس کی سربراہی عبداللہ عبداللہ کر رہے تھے وہ کلیدی حیثیت کے حامل ہوگئے اور پاکستان نواز جنگجو پناہ لینے کے لیے دربدر ہوتے گئے۔ جیسے کہ اسامہ بن لادن جو ایبٹ آباد سے گرفتار بلا ہوئے ان تمام مواقعے کو بھارتی لابی نے استعمال کیا اور امریکی قیادت قربانیوں سے منحرف ہوتی گئی جب کہ آج پاکستانی حکمرانوں کو احساس ہوا کہ امریکی قیادت ان کو سمجھ نہ سکی۔

دراصل پاکستان میں جب بھی جمہوری نام کی حکومت اقتدار میں رہی وزارت خارجہ کے محاذ پر اس میں کمزوری رہی تقریباً گزشتہ 5 برس سے یہ قلمدان خالی تھا جس پر آج خواجہ آصف امریکا مخالف بیان دے رہے ہیں۔ افغان جنگ میں کنفیوژن اس قدر بڑھ گیا تھا کہ طالبان کا ایک حصہ پاکستان کی حکومت میں حصہ مانگنے لگا تھا اور پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی تھی، جس کو بڑی مشکل سے ضرب عضب کے ذریعے قابو کیا گیا۔ وقت اس قدر ہولناک ہوگیا تھا کہ پاکستانی شہروں میں طالبان نے للکارنا شروع کردیا تھا جس کے جواب میں نام نہاد جمہوری حکومت نے طالبان کے ایک گروہ سے سیاسی گفتگو کے لیے کمیٹی مقرر کردی تھی۔ گویا وہ اقتدار میں حصہ مانگ رہے تھے۔

اگر بھرپور ضرب ان کو فوج نہ لگاتی تو طالبان کا یہ حصہ اقتدار میں شراکت دار ہو جاتا۔کیا یہ وقت موجودہ سیاسی موشگافیاں کرنے والوں کو یاد نہیں۔ یہ تمام پہلو باقاعدگی سے امریکی اہل دانش کو بتانے کی ضرورت تھی۔ اشتعال انگیز بیانات سے کشیدگی میں اضافہ ہوگا، عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی کی باتیں ڈونلڈ ٹرمپ کی صاحبزادی اور خود مسٹر ٹرمپ کو زیادہ بری محسوس ہوں گی، اسی طرح روس اور چین کی طرف رخ کرنے کی باتیں امریکا کو نرم نہ کرسکیں گی۔ کیونکہ سعودی عرب کی طرف کے پاکستانی جھکاؤ اور سیاسی تعلق سے امریکا بخوبی واقف ہے اور یمن جنگ کے مضمرات کیا ہوں گے کون نہیں جانتا کہ مستقبل میں کیا ہونے کو ہے۔

بائیں بازو کے کارکن جنھوں نے پاکستان میں سوشلسٹ نظام معیشت قائم کرنے کے لیے صعوبتیں برداشت کی ہیں وہ روس اور چین کے جھکاؤ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ چین گوکہ اقتصادی طور پر مضبوط اور ڈیڑھ ارب نفوس پر مشتمل ملک ہے۔ ہم اس سے زیادہ ثقافتی رشتے استوار نہیں کرسکتے۔ بھارت میں آج بھی دنیا کے ہر ملک سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں اور ہزاروں برس مسلمانوں نے حکمرانی کی ہے۔ سیاسی اختلاف کے باوجود مسلمان ہندوؤں کے ساتھ رہتے ہیں کیونکہ ثقافتی اور معاشرتی اقدار میں خاصا اشتراک عمل ہے، جب کہ چین میں آج بھی کاکروچ اور دیگر ممنوع حرام اشیا کی فارمنگ ہوتی ہے جب کہ پاک و ہند میں ان کو کیڑے مار مہم چلا کر ختم کیا جاتا ہے۔

اتفاق اور اختلاف کی حدیں ادب، ثقافت اور زبان و بیان کے جواہر تہذیب کا حصہ ہیں، مگر کیا کہیں جب سے تنگ نظر نظریاتی طور پر گاندھی جی کی قاتل قیادت نے بھارت میں اقتدار سنبھالا ہے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، موجودہ بھارتی قیادت یہ چاہتی ہے کہ امریکا کے ذریعے پاکستان کو اس کا تابعدار ملک بنا لیا جائے تاکہ افغانستان سے لے کر اس خطے تک امریکا پاکستان کو زیر دست بنا دے، اس کشمکش نے نئی دوریاں پیدا کردیں۔

بھارت جو کبھی فلسطین کی خودمختاری کا آئینہ دار تھا آج اسرائیل کا بغل بچہ بن گیا ہے اور اپنے شورش زدہ علاقوں میں اسرائیلی صلاح کار فوجی کارروائی میں مصروف ہیں، جب کہ پاکستان کی جانب سے یمن کی جنگ پر 40 ملکی افواج کو کوئی بیزاری نظر نہیں آتی۔ یہی سعودی عرب اور ایران کا نکتہ انحراف ہے اس لیے پاکستان کے لیے یہ مشکل وقت ہے کہ وہ اتفاق کا انجن دونوں ملکوں سے کیسے گزاریں کہ کسی قسم کی نااتفاقی پروان نہ چڑھے۔ یہ کام سیاسی حکومت کا ہے جب کہ فوجی دانشور نہایت نازک کام کو توازن سے انجام دے رہے ہیں جب کہ سیاسی حکومت بروقت عملی اقدامات سے گریزاں ہے۔
Load Next Story