نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصافِ حمیدہ
نبی کریم ﷺ کے پاس جو مہمان آتا آپ ﷺ خود ہی اس مہمان کی خاطر تواضع فرماتے تھے۔
نبی آخر الزماں، محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺ کا اسوۂ حسنہ اور آپ ﷺ کی تعلیمات عالیہ صرف کسی ایک گروہ انسانی یا کسی مخصوص زمانے تک محدود نہیں۔ یہ قیامت تک کے بنی نوع انسان کے لیے وہ منشور حیات ہے جو ہر عہد اور ہر خطے کے انسان کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ آپ ﷺ نے ہر قسم کے نسلی، لسانی، علاقائی اور گروہی تعصبات کا خاتمہ کردیا۔ خطبہ حجۃ الوداع تہذیب انسانی کا وہ پہلا جامع آئین ہے جس نے احترام آدمیت اور انسانی حقوق کے بنیادی اصول متعین کیے۔
نبی کریم ﷺ انسانیت کی خدمت و امداد کے لیے اپنا سب کچھ لٹا دیتے تھے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور دیکھا کہ دور تک آپ ﷺ کی بکریوں کا ریوڑ پھیلا ہوا ہے تو اس نے آپ ﷺ سے جانوروں کی درخواست کی اور آپ ﷺ نے بکریاں اسے دے دیں۔ اس شخص نے اپنے قبیلے میں جاکر کہاکہ اسلام قبول کرلو محمد ﷺ ایسے فیاض ہیں کہ مفلس ہوجانے کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے اسلام کے واسطے سے کسی ایسی چیز کا سوال نہیں ہوا جو آپ ﷺ نے نہ دی ہو۔ ایک شخص آپ ﷺکے پاس آیا۔ آپ ﷺ نے اس کو دو پہاڑوں پر بکریاں دے دیں۔ (یعنی اتنی بکریاں تھیں کہ دو پہاڑوں کے بیچ میں جو جگہ ہوتی ہے وہ بھر گئی تھی) وہ لوٹ کر اپنی قوم کے پاس گیا اور کہنے لگا اے میری قوم کے لوگو! مسلمان ہوجاؤ کیونکہ محمد ﷺ اتنا کچھ دیتے ہیں کہ پھر احتیاج کا ڈر نہیں رہتا۔)
ایثار و قربانی: نبی کریم ﷺ کی عادات میں ایثار و قربانی کا وصف ہر لمحہ اور ہر موقع پر نظر آتا تھا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک عورت نے آپ ﷺکو ایک چادر پیش کی اور آپ ﷺ کو چادر کی ضرورت بھی تھی۔
ترجمہ:حضرت سہیل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ خاتون نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میں یہ چادر آپ ﷺکے پہننے کے لیے لائی ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے وہ چادر ان سے قبول کرلی جیسے آپﷺ کو اس کی ضرورت رہی ہو پھر اسے پہن لیا۔ صحابہؓ میں سے ایک صحابی نے نبی کریم ﷺ کے بدن پر وہ چادر دیکھی اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ بڑی عمدہ چادر ہے۔ آپ ﷺ مجھے فرما دیجیے تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ لے لیں۔
مہمان نوازی:نبی کریم ﷺ کے پاس جو مہمان آتا آپ ﷺ خود ہی اس مہمان کی خاطر تواضع فرماتے تھے اور جو بھی آپ ﷺ کی خدمت میں مہمان آتا وہ خواہ مسلم ہوتا یا غیر مسلم آپ ﷺ بلا تفریق اس کی مہمان نوازی فرماتے تھے۔
مساوات:نبی کریم ﷺ کی نظر میں امیر و غریب اور آقا و غلام سب یکساں تھے جیسا کہ حضرت بلال حبشیؓ ، حضرت سلمان فارسیؓ اور حضرت صہیب رومیؓ سب غلام رہ چکے تھے لیکن یہ سب کے سب آپ ﷺ کی بارگاہ میں رؤسائے قریش سے کم مرتبہ نہ تھے۔ ایک موقع پر حضرت سلمانؓ اور بلالؓ موجود تھے، اتفاق سے ابو سفیان آ نکلے ان کے بارے میں مذکورہ اصحاب نے کچھ کہا جسے امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں بیان کیاہے۔
ترجمہ:عائذ بن عمرو سے روایت ہے کہ ابو سفیان حضرت صہیبؓ اور حضرت بلالؓ کے پاس اسلام قبول کرنے سے پہلے آیا اور بھی چند لوگ بیٹھے تھے۔ انھوں نے کہا اللہ کی تلواریں اللہ کے دشمن کی گردن پر اپنے موقع پر نہ پہنچیں (یعنی اللہ کا دشمن نہ ماراگیا) ابو بکر صدیقؓ نے کہا تم قریش کے بوڑھے اور سردار کے حق میں ایسا کہتے ہو (ابو بکر صدیقؓ نے مصلحت سے ایسا کہاکہ کہیں ابو سفیان ناراض ہوکر اسلام بھی قبول نہ کرے) اور رسول ﷺکے پاس آئے آپ ﷺ سے بیان کیا آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابو بکرؓ تم نے شاید ناراض کیا ان لوگوں کو (یعنی حضرت سلمانؓ حضرت صہیبؓ اور حضرتؓ بلالؓ کو) اگر تم نے ان کو ناراض کیا تو اپنے رب کو ناراض کیا۔ یہ سن کر ابو بکرؓ ان لوگوں کے پاس آئے اور کہنے لگے اے بھائیو! میں نے تم کو ناراض کیا وہ بولے نہیں۔ اللہ تم کو بخشے اے ہمارے بھائی!
تواضع و انکساری:نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ تواضع و انکساری کی پیکر تھی آپ ﷺ نے بھی اپنے اصحابؓ کو تواضع کی تعلیم دی ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:ترجمہ:جو اپنے بھائی کے لیے تواضع سے پیش آتا ہے خدا اس کے مرتبے کو اونچا کردیتا ہے۔
سیرت مصطفی میں ہے کہ حضرت ابو امامہؓ راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنے اعصائے مبارک پر ٹیک لگائے ہوئے کاشانۂ نبوت سے باہر تشریف لائے تو ہم سب صحابہ تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے۔ یہ دیکھ کر تواضع کے طور پر ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اس طرح نہ کھڑے رہا کرو جس طرح عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم کے لیے کھڑے رہا کرتے ہیں۔ میں تو ایک بندہ ہوں۔ بندوں کی طرح کھاتاہوں اور بندوں کی طرح بیٹھتا ہوں۔عفو و درگزر:عفو و درگزر اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عفو و درگزر سے کام لیتے رہے۔ آپ ﷺ کو اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کا ایک بڑا موقع مکہ کا دن تھا لیکن نبی کریم ﷺ نے ان سب کو معاف فرمادیا جس کی برکت سے سب لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔
ایک صحابی حضرت ابو مسعودؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی جان لو جان لو، مڑ کر دیکھا تو نبی کریم ﷺ تھے، فرما رہے تھے ابو مسعودؓ جتنا تم کو اس غلام پر قابو ہے اس سے زیادہ خدا کو تم پر ہے۔ ابو مسعودؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اس نصیحت کا یہ اثر مجھ پر ہوا کہ میں نے پھر کسی غلام کو نہیں مارا (عفو و درگزر سے کام لیتا تھا۔)
نبی کریم ﷺ انسانیت کی خدمت و امداد کے لیے اپنا سب کچھ لٹا دیتے تھے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور دیکھا کہ دور تک آپ ﷺ کی بکریوں کا ریوڑ پھیلا ہوا ہے تو اس نے آپ ﷺ سے جانوروں کی درخواست کی اور آپ ﷺ نے بکریاں اسے دے دیں۔ اس شخص نے اپنے قبیلے میں جاکر کہاکہ اسلام قبول کرلو محمد ﷺ ایسے فیاض ہیں کہ مفلس ہوجانے کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے اسلام کے واسطے سے کسی ایسی چیز کا سوال نہیں ہوا جو آپ ﷺ نے نہ دی ہو۔ ایک شخص آپ ﷺکے پاس آیا۔ آپ ﷺ نے اس کو دو پہاڑوں پر بکریاں دے دیں۔ (یعنی اتنی بکریاں تھیں کہ دو پہاڑوں کے بیچ میں جو جگہ ہوتی ہے وہ بھر گئی تھی) وہ لوٹ کر اپنی قوم کے پاس گیا اور کہنے لگا اے میری قوم کے لوگو! مسلمان ہوجاؤ کیونکہ محمد ﷺ اتنا کچھ دیتے ہیں کہ پھر احتیاج کا ڈر نہیں رہتا۔)
ایثار و قربانی: نبی کریم ﷺ کی عادات میں ایثار و قربانی کا وصف ہر لمحہ اور ہر موقع پر نظر آتا تھا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک عورت نے آپ ﷺکو ایک چادر پیش کی اور آپ ﷺ کو چادر کی ضرورت بھی تھی۔
ترجمہ:حضرت سہیل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ خاتون نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میں یہ چادر آپ ﷺکے پہننے کے لیے لائی ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے وہ چادر ان سے قبول کرلی جیسے آپﷺ کو اس کی ضرورت رہی ہو پھر اسے پہن لیا۔ صحابہؓ میں سے ایک صحابی نے نبی کریم ﷺ کے بدن پر وہ چادر دیکھی اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ بڑی عمدہ چادر ہے۔ آپ ﷺ مجھے فرما دیجیے تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ لے لیں۔
مہمان نوازی:نبی کریم ﷺ کے پاس جو مہمان آتا آپ ﷺ خود ہی اس مہمان کی خاطر تواضع فرماتے تھے اور جو بھی آپ ﷺ کی خدمت میں مہمان آتا وہ خواہ مسلم ہوتا یا غیر مسلم آپ ﷺ بلا تفریق اس کی مہمان نوازی فرماتے تھے۔
مساوات:نبی کریم ﷺ کی نظر میں امیر و غریب اور آقا و غلام سب یکساں تھے جیسا کہ حضرت بلال حبشیؓ ، حضرت سلمان فارسیؓ اور حضرت صہیب رومیؓ سب غلام رہ چکے تھے لیکن یہ سب کے سب آپ ﷺ کی بارگاہ میں رؤسائے قریش سے کم مرتبہ نہ تھے۔ ایک موقع پر حضرت سلمانؓ اور بلالؓ موجود تھے، اتفاق سے ابو سفیان آ نکلے ان کے بارے میں مذکورہ اصحاب نے کچھ کہا جسے امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں بیان کیاہے۔
ترجمہ:عائذ بن عمرو سے روایت ہے کہ ابو سفیان حضرت صہیبؓ اور حضرت بلالؓ کے پاس اسلام قبول کرنے سے پہلے آیا اور بھی چند لوگ بیٹھے تھے۔ انھوں نے کہا اللہ کی تلواریں اللہ کے دشمن کی گردن پر اپنے موقع پر نہ پہنچیں (یعنی اللہ کا دشمن نہ ماراگیا) ابو بکر صدیقؓ نے کہا تم قریش کے بوڑھے اور سردار کے حق میں ایسا کہتے ہو (ابو بکر صدیقؓ نے مصلحت سے ایسا کہاکہ کہیں ابو سفیان ناراض ہوکر اسلام بھی قبول نہ کرے) اور رسول ﷺکے پاس آئے آپ ﷺ سے بیان کیا آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابو بکرؓ تم نے شاید ناراض کیا ان لوگوں کو (یعنی حضرت سلمانؓ حضرت صہیبؓ اور حضرتؓ بلالؓ کو) اگر تم نے ان کو ناراض کیا تو اپنے رب کو ناراض کیا۔ یہ سن کر ابو بکرؓ ان لوگوں کے پاس آئے اور کہنے لگے اے بھائیو! میں نے تم کو ناراض کیا وہ بولے نہیں۔ اللہ تم کو بخشے اے ہمارے بھائی!
تواضع و انکساری:نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ تواضع و انکساری کی پیکر تھی آپ ﷺ نے بھی اپنے اصحابؓ کو تواضع کی تعلیم دی ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:ترجمہ:جو اپنے بھائی کے لیے تواضع سے پیش آتا ہے خدا اس کے مرتبے کو اونچا کردیتا ہے۔
سیرت مصطفی میں ہے کہ حضرت ابو امامہؓ راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنے اعصائے مبارک پر ٹیک لگائے ہوئے کاشانۂ نبوت سے باہر تشریف لائے تو ہم سب صحابہ تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے۔ یہ دیکھ کر تواضع کے طور پر ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اس طرح نہ کھڑے رہا کرو جس طرح عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم کے لیے کھڑے رہا کرتے ہیں۔ میں تو ایک بندہ ہوں۔ بندوں کی طرح کھاتاہوں اور بندوں کی طرح بیٹھتا ہوں۔عفو و درگزر:عفو و درگزر اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عفو و درگزر سے کام لیتے رہے۔ آپ ﷺ کو اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کا ایک بڑا موقع مکہ کا دن تھا لیکن نبی کریم ﷺ نے ان سب کو معاف فرمادیا جس کی برکت سے سب لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔
ایک صحابی حضرت ابو مسعودؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی جان لو جان لو، مڑ کر دیکھا تو نبی کریم ﷺ تھے، فرما رہے تھے ابو مسعودؓ جتنا تم کو اس غلام پر قابو ہے اس سے زیادہ خدا کو تم پر ہے۔ ابو مسعودؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اس نصیحت کا یہ اثر مجھ پر ہوا کہ میں نے پھر کسی غلام کو نہیں مارا (عفو و درگزر سے کام لیتا تھا۔)