سیاست کیسے چلتی
عمران کی سیاست انتخابی دھاندلیوں پر پاناما پر چلی اورطاہر القادری ریاست کو بھول کر سانحہ ماڈل ٹاؤن پر سیاست چلاتے رہے۔
سپریم کورٹ مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران حکومتی اداروں سمیت متعدد بار کہہ چکی ہے کہ وہ ملک کا بھی خیال کریں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ملک نہ ہوتا تو کسی کی جرأت تھی کہ دور غلامی میں احتجاجی جلسے، جلوس، لانگ مارچ اور دھرنے کیے جاسکتے۔ یہ پاکستان میں ہماری آزادی ہی ہے کہ وہ سب کچھ کیا جا رہا ہے جس کا قیام پاکستان سے قبل تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔
آزادی سے قبل اگر بعض تحریکیں چلیں وہ اہم مقاصد اور آزادی کے حصول کے لیے تھیں۔ مسلم لیگ اور کانگریس نے اپنی بقا اور سیاست چمکانے کے لیے کوئی تحریک نہیں چلائی تھی۔ جیسی تحریکیں اب پاکستان میں مختلف سیاسی جماعتیں اپنی سیاست چمکانے اور اپنی بقا کے لیے چلارہی ہیں۔
1988 سے قبل ملک میں جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ اور جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے خلاف سیاسی جماعتوں نے تحریکیں چلائیں۔ ایوب خان کے خلاف تحریک سے ملک کو دوسرا مارشل لا ملا۔ بھٹو صاحب کی نام نہاد عوامی حکومت کے خلاف تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیا کا طویل مارشل لا جس کے بعد سے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے والی نام کی جمہوریت بحالی ہوئی تو اپنی سیاست چمکانے کے لیے ایک دوسرے کی مخالفت اور مدت پوری نہ کرنے دینے کے لیے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے اپنی اپنی تحریکیں جاری رکھیں اور کوئی اپنی مدت اقتدار پوری نہ کرسکا۔
پی پی اور مسلم لیگ ن نے ایک دوسرے کی حکومتوں کی برطرفی پر جشن منائے پھر 1999 میں نواز شریف کی جنرل پرویز کے ہاتھوں برطرفی پر پیپلزپارٹی اور نواز مخالفوں نے خوشی کے شادیانے بجائے مگر جب جنرل پرویز نے نواز شریف کی جلا وطنی کے بعد پی پی کے خلاف ڈنڈا اٹھایا تو محترمہ بے نظیر اپنے شوہر کو قید میں چھوڑ کر خود اپنی مرضی سے جلاوطن ہوگئیں۔
پرویز مشرف نے مسلم لیگ ق قائم کرکے محترمہ اور میاں پر ملک واپسی اور اقتدار سے محروم رکھنے کے حربے استعمال کیے تو دونوں لندن میں میثاق جمہوریت پر مجبور ہوئے جس کا مقصد ملک کی ترقی، سیاسی استحکام اور خوش حالی کی بجائے یہ تھا کہ پرویز مشرف کے 2007ء کے انتخابات میں پی پی یا ن لیگ جو بھی اقتدار میں آئے اسے مدت پوری کرنے دی جائے گی اور ایک دوسرے کی مخالفت نہیں کی جائے گی۔
2007 میں پرویز مشرف وردی اتار کر بھی مضبوط اور وردی میں منتخب ہونے والے انتہائی مضبوط صدر مملکت اور مسلم لیگ ق نہایت مضبوط تھی مگر محترمہ کی شہادت نے پانسا پلٹ دیا اور پرویز مشرف کی چالیں ناکام ہوگئیں اور پیپلزپارٹی زیادہ نشستیں لے کر حکومت بنانے اور ن لیگ کی مدد سے پرویز مشرف کی صدارت ختم کرانے میں کامیابی کے بعد جب آصف زرداری نے صدر بننے کی کوشش کی تو مسلم لیگ ن جو ججز بحالی میں آصف زرداری سے ناراض ہوگئی تھی آصف زرداری کے مقابلے میں صدارتی امیدوار لائی اور صدر آصف زرداری اپنی حکومت کے باعث صدر بن گئے اور ججوں کی بحالی کے وعدے سے پھر گئے۔
نواز شریف نے ججوں کی بحالی کے لیے لانگ مارچ شروع کیا تو مداخلت پر جج بحال ہوئے جس کا کریڈٹ نواز شریف اور عمران خان نے لینے کی کوشش کی مگر مسلم لیگ ن فرینڈلی اپوزیشن بنے رہنے پر مجبور ہوئی مگر 2013ء کے عام انتخابات کے باعث نواز شریف وزیراعظم گیلانی کو ہٹوانے کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے مگر پی پی اپنا دوسرا وزیراعظم لے آئی جس کے بعد ن لیگ نے فرینڈلی سیاست ختم کی تو کینیڈا میں رہنے والے ڈاکٹر طاہر القادری کو سیاست نہیں ریاست بچانے کا خیال آگیا اور اسلام آباد میں بے مقصد دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔
خود گرم کنٹینر میں سخت سردی میں محفوظ اور ٹھنڈ میں ٹھٹھرتے اپنے کارکنوں سے خطاب میں آصف زرداری پر گرجتے برستے رہے اور جاتی پی پی حکومت نے ان سے زبانی یقین دہانیوں سے قادری صاحب کو دھرنا ختم کراکر کینیڈا جانے کا موقع دیا اور ریاست محفوظ رہی اور طاہر القادری کی سیاست چل پڑی اور پاکستان عوامی تحریک میں جان پڑ گئی۔ پی پی حکومت سے نالاں لوگوں نے نواز شریف سے بہتر سمجھ کر عمران خان کو ابھرنے کا موقع دیا اور وہ ملک کی تیسری سیاسی قوت بن کر پی پی اور ن لیگ کے خلاف اپنی سیاست بڑھانے لگ گئے۔
عمران خان 2018 تک نواز شریف کو اقتدار میں نہیں دیکھ سکتے تھے اس لیے چار حلقوں کی مبینہ دھاندلیوں کو بنیاد بناکر کسی ریفری کے اشارے پر لاکھوں افراد نکلے مگر خان لاہور سے نکل پڑے اور ڈاکٹر طاہر القادری سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمے دار شریف برادران کو قرار دے کر ان سے استعفیٰ لینے نکلے مگر اسلام آباد تک عمران خان سے الگ دھرنے پر بیٹھ گئے مگر عمران کے دھرنے میں لوگوں میں موسیقی اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے میں ان کے جذبات انتہا پر ہوتے جس کے بعد دونوں ناکام ہوکر لوٹ گئے کسی کو بھی استعفیٰ نہ ملا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس اب تک شہدائے ماڈل ٹاؤن کا ایشو ہے جب کہ عمران خان کی دھاندلیاں وہ کام نہ دکھاسکیں جو پاناما نے دکھادیا اور پاناما سے اقامہ نکل آیا ور نواز شریف کی نا اہلی نے عمران خان کا مقصد پورا کردیا۔ ساڑھے چار سال عمران کی سیاست انتخابی دھاندلیوں پر پاناما پر چلی اور طاہر القادری ریاست کو بھول کر سانحہ ماڈل ٹاؤن پر سیاست چلاتے رہے جب کہ پیپلزپارٹی کو کوئی ایشو نہ مل سکا تو انھوں نے فرینڈلی اپوزیشن چھوڑدی اور نواز شریف اور عمران خان کی مخالفت پر اپنی سیاست چلانے پر اب توجہ مرکوز کردی ہے۔
آزادی سے قبل اگر بعض تحریکیں چلیں وہ اہم مقاصد اور آزادی کے حصول کے لیے تھیں۔ مسلم لیگ اور کانگریس نے اپنی بقا اور سیاست چمکانے کے لیے کوئی تحریک نہیں چلائی تھی۔ جیسی تحریکیں اب پاکستان میں مختلف سیاسی جماعتیں اپنی سیاست چمکانے اور اپنی بقا کے لیے چلارہی ہیں۔
1988 سے قبل ملک میں جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ اور جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے خلاف سیاسی جماعتوں نے تحریکیں چلائیں۔ ایوب خان کے خلاف تحریک سے ملک کو دوسرا مارشل لا ملا۔ بھٹو صاحب کی نام نہاد عوامی حکومت کے خلاف تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیا کا طویل مارشل لا جس کے بعد سے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے والی نام کی جمہوریت بحالی ہوئی تو اپنی سیاست چمکانے کے لیے ایک دوسرے کی مخالفت اور مدت پوری نہ کرنے دینے کے لیے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے اپنی اپنی تحریکیں جاری رکھیں اور کوئی اپنی مدت اقتدار پوری نہ کرسکا۔
پی پی اور مسلم لیگ ن نے ایک دوسرے کی حکومتوں کی برطرفی پر جشن منائے پھر 1999 میں نواز شریف کی جنرل پرویز کے ہاتھوں برطرفی پر پیپلزپارٹی اور نواز مخالفوں نے خوشی کے شادیانے بجائے مگر جب جنرل پرویز نے نواز شریف کی جلا وطنی کے بعد پی پی کے خلاف ڈنڈا اٹھایا تو محترمہ بے نظیر اپنے شوہر کو قید میں چھوڑ کر خود اپنی مرضی سے جلاوطن ہوگئیں۔
پرویز مشرف نے مسلم لیگ ق قائم کرکے محترمہ اور میاں پر ملک واپسی اور اقتدار سے محروم رکھنے کے حربے استعمال کیے تو دونوں لندن میں میثاق جمہوریت پر مجبور ہوئے جس کا مقصد ملک کی ترقی، سیاسی استحکام اور خوش حالی کی بجائے یہ تھا کہ پرویز مشرف کے 2007ء کے انتخابات میں پی پی یا ن لیگ جو بھی اقتدار میں آئے اسے مدت پوری کرنے دی جائے گی اور ایک دوسرے کی مخالفت نہیں کی جائے گی۔
2007 میں پرویز مشرف وردی اتار کر بھی مضبوط اور وردی میں منتخب ہونے والے انتہائی مضبوط صدر مملکت اور مسلم لیگ ق نہایت مضبوط تھی مگر محترمہ کی شہادت نے پانسا پلٹ دیا اور پرویز مشرف کی چالیں ناکام ہوگئیں اور پیپلزپارٹی زیادہ نشستیں لے کر حکومت بنانے اور ن لیگ کی مدد سے پرویز مشرف کی صدارت ختم کرانے میں کامیابی کے بعد جب آصف زرداری نے صدر بننے کی کوشش کی تو مسلم لیگ ن جو ججز بحالی میں آصف زرداری سے ناراض ہوگئی تھی آصف زرداری کے مقابلے میں صدارتی امیدوار لائی اور صدر آصف زرداری اپنی حکومت کے باعث صدر بن گئے اور ججوں کی بحالی کے وعدے سے پھر گئے۔
نواز شریف نے ججوں کی بحالی کے لیے لانگ مارچ شروع کیا تو مداخلت پر جج بحال ہوئے جس کا کریڈٹ نواز شریف اور عمران خان نے لینے کی کوشش کی مگر مسلم لیگ ن فرینڈلی اپوزیشن بنے رہنے پر مجبور ہوئی مگر 2013ء کے عام انتخابات کے باعث نواز شریف وزیراعظم گیلانی کو ہٹوانے کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے مگر پی پی اپنا دوسرا وزیراعظم لے آئی جس کے بعد ن لیگ نے فرینڈلی سیاست ختم کی تو کینیڈا میں رہنے والے ڈاکٹر طاہر القادری کو سیاست نہیں ریاست بچانے کا خیال آگیا اور اسلام آباد میں بے مقصد دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔
خود گرم کنٹینر میں سخت سردی میں محفوظ اور ٹھنڈ میں ٹھٹھرتے اپنے کارکنوں سے خطاب میں آصف زرداری پر گرجتے برستے رہے اور جاتی پی پی حکومت نے ان سے زبانی یقین دہانیوں سے قادری صاحب کو دھرنا ختم کراکر کینیڈا جانے کا موقع دیا اور ریاست محفوظ رہی اور طاہر القادری کی سیاست چل پڑی اور پاکستان عوامی تحریک میں جان پڑ گئی۔ پی پی حکومت سے نالاں لوگوں نے نواز شریف سے بہتر سمجھ کر عمران خان کو ابھرنے کا موقع دیا اور وہ ملک کی تیسری سیاسی قوت بن کر پی پی اور ن لیگ کے خلاف اپنی سیاست بڑھانے لگ گئے۔
عمران خان 2018 تک نواز شریف کو اقتدار میں نہیں دیکھ سکتے تھے اس لیے چار حلقوں کی مبینہ دھاندلیوں کو بنیاد بناکر کسی ریفری کے اشارے پر لاکھوں افراد نکلے مگر خان لاہور سے نکل پڑے اور ڈاکٹر طاہر القادری سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمے دار شریف برادران کو قرار دے کر ان سے استعفیٰ لینے نکلے مگر اسلام آباد تک عمران خان سے الگ دھرنے پر بیٹھ گئے مگر عمران کے دھرنے میں لوگوں میں موسیقی اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے میں ان کے جذبات انتہا پر ہوتے جس کے بعد دونوں ناکام ہوکر لوٹ گئے کسی کو بھی استعفیٰ نہ ملا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس اب تک شہدائے ماڈل ٹاؤن کا ایشو ہے جب کہ عمران خان کی دھاندلیاں وہ کام نہ دکھاسکیں جو پاناما نے دکھادیا اور پاناما سے اقامہ نکل آیا ور نواز شریف کی نا اہلی نے عمران خان کا مقصد پورا کردیا۔ ساڑھے چار سال عمران کی سیاست انتخابی دھاندلیوں پر پاناما پر چلی اور طاہر القادری ریاست کو بھول کر سانحہ ماڈل ٹاؤن پر سیاست چلاتے رہے جب کہ پیپلزپارٹی کو کوئی ایشو نہ مل سکا تو انھوں نے فرینڈلی اپوزیشن چھوڑدی اور نواز شریف اور عمران خان کی مخالفت پر اپنی سیاست چلانے پر اب توجہ مرکوز کردی ہے۔