تجارتی خسارے اور پولیس افسران کے جرائم

ملک میں کون سا ایسا تھانہ ہے جہاں اعلی ٰ افسران کے احکامات پر ماتحت افسران اور عام سپاہی عوام سے رقوم نہ بٹورتے ہوں۔


Zuber Rehman January 12, 2018
[email protected]

پاکستان کا عالمی تجارتی خسارہ بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔ اب 105رو پے سے بڑھ کر ڈالرکی قیمت 112روپے ہونے پر پاکستان میں مہنگائی پھر ایک بار سینہ تان کرکھڑی ہوگئی ہے ۔ پاکستان سے برآمدات میں بحالی کے اثرات بے لگام درآمد سے دھندلا جانے کے باعث پاکستان کو جولائی سے نومبر تک تجارت میں 15ارب ڈالرکا خسارہ ہوا، جوگزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 11ارب 69 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کے تجارتی خسارے سے 29 فیصد زیادہ ہے، جب کہ نومبر میں برآمدات 2 ارب ڈالرکے قریب پہنچ گئیں۔

پاکستان بیوروشماریات سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ ماہ بر آمدات 12.35فیصد کے اضافے سے 1ارب 97کروڑ 40لاکھ ڈالر ہو گئیں مگر درآمدات اس سے بھی زیادہ تیزرفتاری یعنی 16.48فیصد اضافے سے 4ارب 89کروڑ 80لاکھ ڈالر پر جا پہنچیں جس کے نتیجے میںصرف نومبرکا تجارتی خسارہ 19.44فیصد کے اضا فے سے 2ارب 92کروڑ 40 لاکھ ڈالر ہوگیا جوگزشتہ ما لی سال اسی مدت میں 2ارب 44کروڑ 80لاکھ ڈالر تھا۔ نومبر2016میں برآمدات 1ارب 75کروڑ 70لاکھ ڈالر اور درآمدات 4 ارب 20کروڑ 50 ؒٓلاکھ ڈالر ریکارڈکی گئی تھیں۔

اعداد وشمار کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ کے دوران برآمدات 10.49فیصد کے اضافے سے 9ارب 3کروڑ ڈالر اور در آمدات 21. 12فیصد بڑھ کر 24ارب 6کروڑ ڈالر ہوگئیں ۔ جس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ 28.56 فیصد کے اضافے سے 15ارب 3کروڑ ڈالر رہا ۔گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں بر آمدات8ارب17کروڑ 30لاکھ ڈالردرآمدات 19ارب 86کروڑ 40لاکھ ڈالر اور تجارتی خسارہ 11ارب69کروڑ 10لاکھ ڈالر رہا تھا۔

ان تجارتی خساروں سے بالواسطہ طورپر مہنگائی کا بوجھ عوام پر ہی پڑے گا۔اسی طرح بااثر افسران کے جرائم کرنے سے بھی اس کا بالواسطہ بوجھ عوام ہی اٹھائیں گے۔ سپریم کورٹ نے جرائم میں ملوث پولیس افسران کے خلاف کارروائی پر اپیل کی سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا کہ تین ڈی آئی جیز سمیت اعلیٰ افسران جرائم میں ملوث ہیں۔ افسران پر پچاس پچاس الزامات ہیں، لگتا نہیں کہ کمیٹی نے اقربا پروری کا مظاہرہ کیا ہو۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جرائم میں ملوث پولیس افسران کے خلاف کارروائی سے متعلق کمیٹی کی سفارش پر برطرف ہونے والے پولیس اہلکاروں کی درخواست کی سماعت ہوئی ۔ سروسز ٹریبونل نے بحالی کے خلاف سندھ حکومت کی اپیلوں کی بھی سماعت سپریم کورٹ نے کی ، پولیس افسران کے وکیل نے کہا کہ کمیٹی نے اقربا پروری کا مظاہرہ کیا اور مخصوص افسران کے خلاف کارروائی کی ، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کیا کارروائی سے بچنے وا لے افسران کمیٹی اراکین کے رشتے دار ہیں جو ان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی ، ایسا نہیں لگتا کہ کمیٹی نے کسی اقربا پروری کا مظاہرہ کیا ہو ۔ یہ تو رہے سپریم کورٹ کے ریمارکس ۔

عوام کے ریمارکس جو نقارہ خدا بنتے ہیں وہ ہم سب کے سامنے عیاں ہیں ۔ تھانے اور ٹریفک پولیس کو لے لیں۔ ملک میں کون سا ایسا تھانہ ہے جہاں اعلی ٰ افسران کے احکامات پر ماتحت افسران اور عام سپاہی عوام سے رقوم نہ بٹورتے ہوں۔ انھیں حبس بے جا میں نہ رکھتے ہوں، عام طور پر خرچہ اور چائے پانی کی بات کرتے ہیں ، مگر یہ چائے پانی کے اخراجات کو اگر ملک گیر بنیادوں پر جوڑا جائے تو روزانہ اربوں روپے بن جاتے ہیں ۔ چھوٹے موٹے کام کے لیے یا رپورٹ درج کروانے کے لیے دوچار سو یا پانچ چھے ہزاررو پے لے لیے جاتے ہیں۔

یہی حال عدالتوں کا ہے۔ عدالت میں کون سا وکیل ہے جو ججوں کے ماتحت افسران اورکلرکوں کو ایک دو ہزار رو پے دیے بغیر اپنے مقدمے کی تاریخ لے سکتا ہے ورنہ اسے دو چار چکر تو ضرورکٹوائیں گے ۔ اب وہ غریب آدمی اگر عدالت سے دوری پر رہائش پذیر ہے تو چار روز میں اس کے آنے جانے کا کرایہ ہی پانچ سو روپے خرچ ہوگا ۔ اس لیے وہ پیسے دیکر جان چھڑاتا ہے اور چکروں سے بھی بچنا چاہتا ہے ۔

جہاں تک ٹریفک پولیس والوں کی بات ہے تو وہ بھی روزانہ ملک بھر میں عوام سے اربوں رو پے بٹورتے ہیں۔ کراچی میں یہ تماشا سب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، آئی جی سندھ کا بیان ہے کہ روزانہ سندھ میں ڈھائی سوکاریں اور ایک ہزار موٹرسائیکلیں رجسٹر ہورہی ہیں ۔ پل تو بنتے چلے جارہے ہیں لیکن رش بھی بڑھتا ہی جارہا ہے ۔گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں پارکنگ کرنے کی جگہیں نہیں ہیں جس سے ٹریفک پولیس والوں کی چاندی ہوتی جارہی ہے۔

سو روپے سے پانچ سو رو پے لے کر واپس کردیتے ہیں موٹرسائیکل یا گاڑی ۔ اس لوٹ مار میں اعلی ٰ افسران سے لے کرماتحت افسران کا حصہ ہوتا ہے ۔ اس میں کوئی بعید نہیں کہ وزراء حضرات بھی ملوث ہوں ۔ ٹریفک پو لیس ٹریفک کنٹرول کرنے کے بجائے رقوم کوکنٹرول کر نے میں سنجیدگی سے لگی ہوتی ہے۔ ٹریفک جام معمول بن چکا ہے، پاکستان میں خاص کر کراچی کے ٹرانسپورٹ کا نظام پلوں سے ٹھیک نہیں ہوسکتا ہے ۔

اربوں روپے کے پل بنتے رہیں گے پھر خرابی کی وجہ بتا کر توڑے جائیں گے پھر تعمیر ہونگے۔ یہ عمل منافع بخش بھی ہے اور دکھاؤے کے لیے بھی معقول ہے۔ اس میں اعلی ٰحکام سے لے کر ٹھیکیداروں اور افسران سب کی موجیں ہیں، اگر کراچی میں لوکل سرکلر ٹرین، ڈبل ڈیکر بسیں اور ٹرام گاڑیاں چل پڑیں تو یہ مسئلہ فورا حل ہوجائے گا۔

ابھی وفاق کی جانب سے میٹرو، موٹروے، فلائی اوورتو بنتے ہیںلیکن سرکلر ٹرین نہیں چلتیں اس لیے کہ اس میں کمیشن کم ہے ، تیل کی بچت ہوگی ،گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں اور ان کے کمیشن خوروں کو نقصان ہوگا، حکومت کو ٹیکس نہیں ملیں گے، پٹرول پمپوں میں کمی واقع ہوجائے گی ، پٹرول اور ڈیزل سستا ہوجائے گا، لا کھوں عوام لو کل سرکلر ٹرین سے سفر کریں گے ۔ پھر لوگ کاریں اور موٹر سائیکلیں خریدنا چھوڑ دیں گے۔ کیا حکمران طبقات ان نقصانات کو برداشت کرنا چاہیں گے ؟ قطعی نہیں ، اگر صرف لوکل سر کلر ٹرین چل جائے تو ایک حد تک ٹرانسپورٹ کے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ یہ نیا تجربہ نہیں ہے، سرکلر ٹرینیں پورے سٹی کے مختلف علاقوں سے ہو کر کامیابی سے چلتی رہی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں