تخت طاؤس کے لیے سب بے تاب
اقتدار جسے یہ سب ’’تخت طاؤس‘‘ سمجھ کر اس پر براجمان ہونے کے لیے بے تاب ہیں دراصل کانٹوں بھرا بستر ہے۔
NYON:
حکومت گرانے کے لیے 17 جنوری سے تحریک کے آغاز کا اعلان سربراہ عوامی تحریک طاہر القادری کی جانب سے کردیا گیا ہے، یہ اعلان قادری صاحب نے کیا مگر یہ سب کچھ متفقہ طور پر طے پایا اس اتفاق و اتحاد میں پی پی، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، مجلس وحدت المسلمین، عوامی راج پارٹی، پی ایس پی، جمعیت علمائے پاکستان شامل ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے نام اس لیے دہرائے ہیں کہ عوام کے ذہنوں میں وہ بیانات اور رویے تازہ ہوجائیں جو یہ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف روا رکھتی رہی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا ان سب کا محبوب مشغلہ تھا، زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب عمران خان ، زرداری کو نواز شریف کا درپردہ اتحادی اور ملک کو لوٹنے پر ان کے بھی احتساب کے لیے پرجوش بیانات دے رہے تھے ادھر بلاول عمران خان کے لیے بڑے شستہ الفاظ استعمال کر رہے تھے، رہ گئے شیخ رشید تو وہ خود ہی اپنی پارٹی اور خود ہی اس کے قائد لہٰذا ہر ایک پارٹی کے ساتھ اور ہر کے خلاف بھی رہتے ہیں۔
تیز وتند بیانات اور ملکی و سیاسی پارٹیوں کے بارے میں بڑے وثوق سے پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں مگر کوئی بھی ابھی تک درست ثابت نہیں ہوئی۔ جانے کب سے ان کی پیش گوئی ہے کہ حکومت اگلے ہفتے کے بعد نظر نہیں آئے گی فلاں ماہ کے اختتام تک ''ن لیگ'' کا اقتدار اپنے انجام سے دوچار ہوچکا ہوگا مگر وہ ماہ آیا اب تک بھی نہیں۔
یہ سب مختلف الخیال اور اپنا اپنا ایجنڈا رکھنے والے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کو بنیاد بناکر یکجا ہوئے ہیں مگر ملکی تاریخ میں اس سے بھی بڑے بڑے کئی سانحات ہنوز توجہ طلب ہیں تفصیل سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے، سب سے زیادہ ہمدردانہ غور و فکر کا اہم ترین مسئلہ لاپتا افراد کی بازیابی ہے مگر اس پر آج تک یہ لوگ کبھی متحد نہ ہوئے۔جعلی پولیس مقابلوں میں جانے کتنے گھروں کے واحد کفیل ختم کیے گئے کتنے گھروں کو بے چراغ کیا گیا۔
ملک کی دو بڑی جماعتوں کے باری باری ہر دور میں، سندھ، بلوچستان، کے پی کے ہی نہیں پنجاب میں بھی کبھی گرجا گھروں، کبھی مساجد و امام بارگاہوں میں خون کی ہولی کھیلی گئی، ہزارہ برادری کو سیکڑوں لاشوں کے تحفے دیے گئے، آغا خان جیسی پرامن کمیونٹی کے بے گناہ افراد کو بس سے اتار کر بے رحمانہ طریقے سے ہلاک کیا گیا۔ کیا کبھی یہ سب پارٹیاں ان مظالم کے خلاف ان مرنے والوں کے لیے یوں یکجا و متحد ہوئیں؟
اگر آپ ظلم کے خلاف ہیں، اگر آپ عوام کے دکھوں کا مداوا کرنا چاہتے ہیں تو اپنے دور حکومت میں ایسے واقعات کی مکمل روک تھام کرتے اور اگر نہ کرسکے تو خود اپنے دور حکومت میں ہی ان کی مکمل تفتیش و تحقیق کراتے تاکہ آپ کی انسانی ہمدردی سیاسی خود غرضی سے بالاتر نظر آتی۔ مانا کہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کو بھی انصاف ملنا چاہیے مگر ماورائے عدالت قتل کسی ملزم ہی کا کیوں نہ ہو اس کو برابری کی بنیاد پر انصاف مہیا کرانا ہر سیاسی جماعت کا اخلاقی فرض ہے۔ مگر موجودہ بین الاقوامی صورتحال میں صرف چند ماہ حکومت کو برداشت نہ کرنا نیک نیتی پر مبنی قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے پچھلے ادوار میں بھی ملکی و قومی مفاد پر عملدرآمد کو یقینی نہیں بنایا تھا، مگر کیا اور کسی جماعت کے دور حکومت میں ایسا مثالی کردار ادا کیا گیا تھا تین بار ''ن لیگ'' اور کم ازکم اتنی ہی بار پی پی پی کی حکومتیں قائم رہ چکی ہیں تو کیا ان کے دوران سب مسائل حل ہوگئے تھے؟
عوام کو بنیادی سہولیات میسر تھیں، مہنگائی و بیروزگاری، تعلیم و صحت کا کوئی مسئلہ نہ تھا، تھر میں موت کا رقص کیا کسی دور میں تھم گیا تھا؟ ووٹر فہرست میں کم ازکم ایک کروڑ خواتین کا اندراج ہی نہیں، ہر سیاسی جماعت کو ان کے ووٹوں کی ضرورت ہے مگر کیا کسی بھی سیاستدان نے صرف اپنے ہی طور پر اس صورتحال پر شور مچایا، حالانکہ اس مسئلے پر بھی مندرجہ بالا تمام سیاسی جماعتوں کو یکجا و متحد ہونا چاہیے تھا، ملک کے کچھ علاقوں میں خواتین کو کھلم کھلا حق رائے دہی سے محروم رکھا گیا اور تمام سیاسی جماعتوں نے اس صورتحال کو صدق دل سے قبول کرلیا تو کیا یہ ملک کا نقصان نہ تھا آخر ان سب مسائل پر یہ بقراط یکجا کیوں نہ ہوئے؟
بات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کو دھمکانے کی ہو، ہمارے سیاسی یا اقتصادی نقصان کی ہو، پاکستان پر منڈلاتے خطرات کی ہو یا متوقع روشن مستقبل کی، مگر یہ طے ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور سیاستدان ملک کے بارے میں ذرا بھی سنجیدگی سے نہیں سوچ رہے یہ سیاسی افلاطون صرف اپنے اپنے مفاد، وجود اور سب سے بڑھ کر حصول اقتدار کے خوابوں میں گم ہیں، اقتدار جسے یہ سب ''تخت طاؤس'' سمجھ کر اس پر براجمان ہونے کے لیے بے تاب ہیں دراصل کانٹوں بھرا بستر ہے ( مگر ان کے لیے جو حکمرانوں کے حقیقی فرائض سے واقف ہوں) مگر جب تک اونٹ پہاڑ کے نیچے آتا نہیں اپنی ہی قامت کے بارے میں خوش گمان رہتا ہے، لہٰذا ہم اپنے سیاستدانوں کو بھی اس خوش فہمی میں مبتلا رہنے دیتے ہیں۔
مگر کیسے رہنے دیں؟ کیوں نہ ان سے دست بستہ گزارش کریں خدا کے لیے اپنی آنکھیں کھولیں، ارد گرد اور دنیا کے بدلتے حالات کا بغور مشاہدہ کریں اور سوچیں کہ ہماری وزارت خارجہ اتنے دنوں کیا کرتی رہی؟ بھارت نہ صرف امریکا بلکہ ہر سطح پر دنیا بھر کے سربراہوں کے کان بھرتا رہا یعنی اپنے نقطہ نظر کے مطابق اپنی کامیاب خارجہ پالیسی کے ذریعے پاکستان کے خلاف ایک منظر نامہ تیار کرتا رہا، ہم اپنے اپنے ذاتی مسائل یا باالفاظ دیگر اپنے اپنے مفاد میں دلچسپی لیتے رہے۔ امریکی صدر کا دھمکی آمیز رویہ بھارت کی کامیاب خارجہ پالیسی اور بہترین سفارت کاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ہم اپنی تقریباً 60 ہزار انسانی قربانیوں اور اپنی اقتصادی تباہ حالی کا غیروں کی جنگ میں ملوث ہونے پر بھی عالمی سطح پر اس کو نظرانداز کرنے کا ذکر کرتے ہیں، مگر کیا اس سلسلے میں سفارتی سطح پر قبل ازوقت نہیں بلکہ بروقت ہی کچھ کیا تھا؟ کیا ہم دہشت گردی کے خلاف اپنی شاندار اور انتھک بلکہ بے حد کامیاب کوشش کو دنیا کے سامنے (خصوصاً امریکا کے) اجاگر کرسکے؟ اس نااہلی کی ذمے دار حکومت تو ہے ہی مگر اس کا بڑی حد تک ذمے دار ہم اپنے سیاستدانوں کو بھی قرار دے سکتے ہیں۔
جو ملکی مفاد اور صورتحال کے بجائے اپنے سیاسی مفاد کے باعث عالمی صورتحال کو نظرانداز کرکے آنے والے خطرات سے لاعلم کبھی سیاسی سطح پر ملک کی بقا کے لیے متحد نہ ہوسکے بلکہ اس قدر غیر معیاری سیاست کا مظاہرہ کیا کہ ملکی اداروں میں (جو سب ہی اپنی اپنی جگہ غیر معیاری اور ناکامی کی اعلیٰ مثال ہیں) سیاسی ادارہ سب سے آگے نظر آتا ہے۔ سیاست کا مطلب ہوس اقتدار جانے کب اور کیسے قرار پایا جب کہ سیاست تو ملک و قوم کی مخلصانہ خدمت کا نام ہے۔ مگر پاکستان میں اس کے برعکس ہو رہا ہے۔
آج اتنے خطرات اور بیرونی دباؤ کے باوجود ہمارے سیاستدان قبل از وقت انتخابات کرانے اور اقتدار پر قابض ہونے کے لیے جمہوریت کے تمام دعوے بالائے طاق رکھ کر انتہا پسندوں تک سے گٹھ جوڑ کرنے پر راضی بہ رضا ہیں۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا مستقبل (اچھا یا برا) اسی ملک سے وابستہ ہے، ملک مضبوط و مستحکم ہوگا تو ان کا اقتدار بھی مضبوط ہوگا مگر ملک کو داؤ پر لگا کر یا کسی عالمی طاقت کے پاس گروی رکھ کر اقتدار کے مزے لوٹنا ایک بھیانک خواب کے سوا کچھ بھی نہیں ایسا بھان متی کا کنبہ پہلے بھی ملک کو دولخت کرچکا ہے اور اب پھر کوئی سبق حاصل کرتا نظر نہیں آرہا۔ مگر افسوس کہ کئی بار کے آزمائے ہوئے ہی نہیں نوواردانِ سیاست بھی اقتدار ہی کے خواب دیکھ رہے ہیں، یہ موقع شاید ملک کے لیے آخری ہے کہ اتحاد ہو تو ملکی وجود کو قائم رکھنے کے لیے۔ مگر عقل آنا ہوتی تو سقوط ڈھاکہ کا سانحہ کافی تھا۔ موجودہ اتحاد پھر کوئی گل کھلا سکتا ہے۔
حکومت گرانے کے لیے 17 جنوری سے تحریک کے آغاز کا اعلان سربراہ عوامی تحریک طاہر القادری کی جانب سے کردیا گیا ہے، یہ اعلان قادری صاحب نے کیا مگر یہ سب کچھ متفقہ طور پر طے پایا اس اتفاق و اتحاد میں پی پی، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، مجلس وحدت المسلمین، عوامی راج پارٹی، پی ایس پی، جمعیت علمائے پاکستان شامل ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے نام اس لیے دہرائے ہیں کہ عوام کے ذہنوں میں وہ بیانات اور رویے تازہ ہوجائیں جو یہ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف روا رکھتی رہی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا ان سب کا محبوب مشغلہ تھا، زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب عمران خان ، زرداری کو نواز شریف کا درپردہ اتحادی اور ملک کو لوٹنے پر ان کے بھی احتساب کے لیے پرجوش بیانات دے رہے تھے ادھر بلاول عمران خان کے لیے بڑے شستہ الفاظ استعمال کر رہے تھے، رہ گئے شیخ رشید تو وہ خود ہی اپنی پارٹی اور خود ہی اس کے قائد لہٰذا ہر ایک پارٹی کے ساتھ اور ہر کے خلاف بھی رہتے ہیں۔
تیز وتند بیانات اور ملکی و سیاسی پارٹیوں کے بارے میں بڑے وثوق سے پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں مگر کوئی بھی ابھی تک درست ثابت نہیں ہوئی۔ جانے کب سے ان کی پیش گوئی ہے کہ حکومت اگلے ہفتے کے بعد نظر نہیں آئے گی فلاں ماہ کے اختتام تک ''ن لیگ'' کا اقتدار اپنے انجام سے دوچار ہوچکا ہوگا مگر وہ ماہ آیا اب تک بھی نہیں۔
یہ سب مختلف الخیال اور اپنا اپنا ایجنڈا رکھنے والے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کو بنیاد بناکر یکجا ہوئے ہیں مگر ملکی تاریخ میں اس سے بھی بڑے بڑے کئی سانحات ہنوز توجہ طلب ہیں تفصیل سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے، سب سے زیادہ ہمدردانہ غور و فکر کا اہم ترین مسئلہ لاپتا افراد کی بازیابی ہے مگر اس پر آج تک یہ لوگ کبھی متحد نہ ہوئے۔جعلی پولیس مقابلوں میں جانے کتنے گھروں کے واحد کفیل ختم کیے گئے کتنے گھروں کو بے چراغ کیا گیا۔
ملک کی دو بڑی جماعتوں کے باری باری ہر دور میں، سندھ، بلوچستان، کے پی کے ہی نہیں پنجاب میں بھی کبھی گرجا گھروں، کبھی مساجد و امام بارگاہوں میں خون کی ہولی کھیلی گئی، ہزارہ برادری کو سیکڑوں لاشوں کے تحفے دیے گئے، آغا خان جیسی پرامن کمیونٹی کے بے گناہ افراد کو بس سے اتار کر بے رحمانہ طریقے سے ہلاک کیا گیا۔ کیا کبھی یہ سب پارٹیاں ان مظالم کے خلاف ان مرنے والوں کے لیے یوں یکجا و متحد ہوئیں؟
اگر آپ ظلم کے خلاف ہیں، اگر آپ عوام کے دکھوں کا مداوا کرنا چاہتے ہیں تو اپنے دور حکومت میں ایسے واقعات کی مکمل روک تھام کرتے اور اگر نہ کرسکے تو خود اپنے دور حکومت میں ہی ان کی مکمل تفتیش و تحقیق کراتے تاکہ آپ کی انسانی ہمدردی سیاسی خود غرضی سے بالاتر نظر آتی۔ مانا کہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کو بھی انصاف ملنا چاہیے مگر ماورائے عدالت قتل کسی ملزم ہی کا کیوں نہ ہو اس کو برابری کی بنیاد پر انصاف مہیا کرانا ہر سیاسی جماعت کا اخلاقی فرض ہے۔ مگر موجودہ بین الاقوامی صورتحال میں صرف چند ماہ حکومت کو برداشت نہ کرنا نیک نیتی پر مبنی قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے پچھلے ادوار میں بھی ملکی و قومی مفاد پر عملدرآمد کو یقینی نہیں بنایا تھا، مگر کیا اور کسی جماعت کے دور حکومت میں ایسا مثالی کردار ادا کیا گیا تھا تین بار ''ن لیگ'' اور کم ازکم اتنی ہی بار پی پی پی کی حکومتیں قائم رہ چکی ہیں تو کیا ان کے دوران سب مسائل حل ہوگئے تھے؟
عوام کو بنیادی سہولیات میسر تھیں، مہنگائی و بیروزگاری، تعلیم و صحت کا کوئی مسئلہ نہ تھا، تھر میں موت کا رقص کیا کسی دور میں تھم گیا تھا؟ ووٹر فہرست میں کم ازکم ایک کروڑ خواتین کا اندراج ہی نہیں، ہر سیاسی جماعت کو ان کے ووٹوں کی ضرورت ہے مگر کیا کسی بھی سیاستدان نے صرف اپنے ہی طور پر اس صورتحال پر شور مچایا، حالانکہ اس مسئلے پر بھی مندرجہ بالا تمام سیاسی جماعتوں کو یکجا و متحد ہونا چاہیے تھا، ملک کے کچھ علاقوں میں خواتین کو کھلم کھلا حق رائے دہی سے محروم رکھا گیا اور تمام سیاسی جماعتوں نے اس صورتحال کو صدق دل سے قبول کرلیا تو کیا یہ ملک کا نقصان نہ تھا آخر ان سب مسائل پر یہ بقراط یکجا کیوں نہ ہوئے؟
بات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کو دھمکانے کی ہو، ہمارے سیاسی یا اقتصادی نقصان کی ہو، پاکستان پر منڈلاتے خطرات کی ہو یا متوقع روشن مستقبل کی، مگر یہ طے ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور سیاستدان ملک کے بارے میں ذرا بھی سنجیدگی سے نہیں سوچ رہے یہ سیاسی افلاطون صرف اپنے اپنے مفاد، وجود اور سب سے بڑھ کر حصول اقتدار کے خوابوں میں گم ہیں، اقتدار جسے یہ سب ''تخت طاؤس'' سمجھ کر اس پر براجمان ہونے کے لیے بے تاب ہیں دراصل کانٹوں بھرا بستر ہے ( مگر ان کے لیے جو حکمرانوں کے حقیقی فرائض سے واقف ہوں) مگر جب تک اونٹ پہاڑ کے نیچے آتا نہیں اپنی ہی قامت کے بارے میں خوش گمان رہتا ہے، لہٰذا ہم اپنے سیاستدانوں کو بھی اس خوش فہمی میں مبتلا رہنے دیتے ہیں۔
مگر کیسے رہنے دیں؟ کیوں نہ ان سے دست بستہ گزارش کریں خدا کے لیے اپنی آنکھیں کھولیں، ارد گرد اور دنیا کے بدلتے حالات کا بغور مشاہدہ کریں اور سوچیں کہ ہماری وزارت خارجہ اتنے دنوں کیا کرتی رہی؟ بھارت نہ صرف امریکا بلکہ ہر سطح پر دنیا بھر کے سربراہوں کے کان بھرتا رہا یعنی اپنے نقطہ نظر کے مطابق اپنی کامیاب خارجہ پالیسی کے ذریعے پاکستان کے خلاف ایک منظر نامہ تیار کرتا رہا، ہم اپنے اپنے ذاتی مسائل یا باالفاظ دیگر اپنے اپنے مفاد میں دلچسپی لیتے رہے۔ امریکی صدر کا دھمکی آمیز رویہ بھارت کی کامیاب خارجہ پالیسی اور بہترین سفارت کاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ہم اپنی تقریباً 60 ہزار انسانی قربانیوں اور اپنی اقتصادی تباہ حالی کا غیروں کی جنگ میں ملوث ہونے پر بھی عالمی سطح پر اس کو نظرانداز کرنے کا ذکر کرتے ہیں، مگر کیا اس سلسلے میں سفارتی سطح پر قبل ازوقت نہیں بلکہ بروقت ہی کچھ کیا تھا؟ کیا ہم دہشت گردی کے خلاف اپنی شاندار اور انتھک بلکہ بے حد کامیاب کوشش کو دنیا کے سامنے (خصوصاً امریکا کے) اجاگر کرسکے؟ اس نااہلی کی ذمے دار حکومت تو ہے ہی مگر اس کا بڑی حد تک ذمے دار ہم اپنے سیاستدانوں کو بھی قرار دے سکتے ہیں۔
جو ملکی مفاد اور صورتحال کے بجائے اپنے سیاسی مفاد کے باعث عالمی صورتحال کو نظرانداز کرکے آنے والے خطرات سے لاعلم کبھی سیاسی سطح پر ملک کی بقا کے لیے متحد نہ ہوسکے بلکہ اس قدر غیر معیاری سیاست کا مظاہرہ کیا کہ ملکی اداروں میں (جو سب ہی اپنی اپنی جگہ غیر معیاری اور ناکامی کی اعلیٰ مثال ہیں) سیاسی ادارہ سب سے آگے نظر آتا ہے۔ سیاست کا مطلب ہوس اقتدار جانے کب اور کیسے قرار پایا جب کہ سیاست تو ملک و قوم کی مخلصانہ خدمت کا نام ہے۔ مگر پاکستان میں اس کے برعکس ہو رہا ہے۔
آج اتنے خطرات اور بیرونی دباؤ کے باوجود ہمارے سیاستدان قبل از وقت انتخابات کرانے اور اقتدار پر قابض ہونے کے لیے جمہوریت کے تمام دعوے بالائے طاق رکھ کر انتہا پسندوں تک سے گٹھ جوڑ کرنے پر راضی بہ رضا ہیں۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا مستقبل (اچھا یا برا) اسی ملک سے وابستہ ہے، ملک مضبوط و مستحکم ہوگا تو ان کا اقتدار بھی مضبوط ہوگا مگر ملک کو داؤ پر لگا کر یا کسی عالمی طاقت کے پاس گروی رکھ کر اقتدار کے مزے لوٹنا ایک بھیانک خواب کے سوا کچھ بھی نہیں ایسا بھان متی کا کنبہ پہلے بھی ملک کو دولخت کرچکا ہے اور اب پھر کوئی سبق حاصل کرتا نظر نہیں آرہا۔ مگر افسوس کہ کئی بار کے آزمائے ہوئے ہی نہیں نوواردانِ سیاست بھی اقتدار ہی کے خواب دیکھ رہے ہیں، یہ موقع شاید ملک کے لیے آخری ہے کہ اتحاد ہو تو ملکی وجود کو قائم رکھنے کے لیے۔ مگر عقل آنا ہوتی تو سقوط ڈھاکہ کا سانحہ کافی تھا۔ موجودہ اتحاد پھر کوئی گل کھلا سکتا ہے۔