بیٹری سے 5 گنا زیادہ طاقت ور زندہ الجی سے بنے سیل تیار
اسے بایو فوٹو وولٹائک سیل کا نام دیا گیا ہے جس سے دیرپا بیٹریاں بنائی جاسکیں گی
کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرین نے زندہ الجی پر مشتمل ایک ایسا سیل بنایا ہے جو آج کی طاقت ور ترین بیٹریوں سے بھی 5 گنا زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔
برطانوی سائنس دانوں نے ایسے سیل بنائے ہیں جو فوٹوسنتھے سز کے عمل کی نقل کرتے ہیں یعنی عین اسی طرح کام کرتے ہیں جس طرح پودے سورج کی روشنی سےتوانائی بناتے ہیں۔ اسے مصنوعی پتا بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے الجی کے خلیات کو استعمال کیا ہے جو قدرت کے کارخانے میں عام پائی جاتی ہے۔
جب الجی فوٹو سنتھے سز (ضیائی تالیف) کے عمل سے گزرتی ہیں تو اس میں الیکٹران پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض الیکٹران ان سے باہر نکل جاتے ہیں جنہیں کسی ٹیکنالوجی سے جمع کیا جاسکتا ہے۔ اسی اصول پر بنائے جانے والے سیل بایو فوٹو وولٹائک (بی پی وی) سیل کہلاتے ہیں۔
یہ دو طرح سے کام کرتے ہیں اول چارجنگ جس میں روشنی سے الیکٹران بنتے ہیں اور دوم توانائی کی ترسیل جس میں الیکٹرانوں کو برقی سرکٹ کے اندر بھیجا جاتا ہے۔
اسے بنانے والے ایک انجینئر کادی لائس سار نے بتایا ہے کہ اس ٹیکنالوجی میں چارجنگ کے عمل میں اسے دھوپ میں رکھنا ہوتا ہے جبکہ توانائی کی منتقلی کے لیے سورج کی روشنی درکار نہیں ہوتی توانائی جمع کرنے کے عمل میں وہ بہت کم ضائع ہوتی ہے جو اس پورے عمل کو باکفایت بناتی ہے۔
اس سیل کے دو چیمبر ہیں جس میں سے ہر ایک کو آپ اپنی ضرورت کے لحاظ سے ڈھال سکتے ہیں۔ عین اسی دوران یہ توانائی جمع کرسکتا ہے جسے بعد میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح حیاتیاتی سولر سیل کو رات کے وقت بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اس طرح چارجنگ اور توانائی پہنچانے والا ایک نہایت مؤثر نظام بنایا جاسکتا ہے پھر اس پورے عمل کو بہت حد تک چھوٹے سے چھوٹا کیا جاسکتا ہے۔ سیلز کو جب چھوٹا کیا جائے تو ان کے اندر مائعات کا بہاؤ اور دیگر اشیا اچھی طرح کام کرتی ہیں اور توانائی بھی کم سے کم ضائع ہوتی ہے۔
الجی سے بنا یہ سیل کئی لحاظ سے بہتر ہے اور اس سے شمسی توانائی کو بہت اچھی طرح استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ کیمبرج کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی غریب ممالک کے لیے تیار کی گئی ہے جہاں سورج بھرپور انداز میں چمکتا ہو لیکن بجلی کا شدید بحران ہو۔
برطانوی سائنس دانوں نے ایسے سیل بنائے ہیں جو فوٹوسنتھے سز کے عمل کی نقل کرتے ہیں یعنی عین اسی طرح کام کرتے ہیں جس طرح پودے سورج کی روشنی سےتوانائی بناتے ہیں۔ اسے مصنوعی پتا بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے الجی کے خلیات کو استعمال کیا ہے جو قدرت کے کارخانے میں عام پائی جاتی ہے۔
جب الجی فوٹو سنتھے سز (ضیائی تالیف) کے عمل سے گزرتی ہیں تو اس میں الیکٹران پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض الیکٹران ان سے باہر نکل جاتے ہیں جنہیں کسی ٹیکنالوجی سے جمع کیا جاسکتا ہے۔ اسی اصول پر بنائے جانے والے سیل بایو فوٹو وولٹائک (بی پی وی) سیل کہلاتے ہیں۔
یہ دو طرح سے کام کرتے ہیں اول چارجنگ جس میں روشنی سے الیکٹران بنتے ہیں اور دوم توانائی کی ترسیل جس میں الیکٹرانوں کو برقی سرکٹ کے اندر بھیجا جاتا ہے۔
اسے بنانے والے ایک انجینئر کادی لائس سار نے بتایا ہے کہ اس ٹیکنالوجی میں چارجنگ کے عمل میں اسے دھوپ میں رکھنا ہوتا ہے جبکہ توانائی کی منتقلی کے لیے سورج کی روشنی درکار نہیں ہوتی توانائی جمع کرنے کے عمل میں وہ بہت کم ضائع ہوتی ہے جو اس پورے عمل کو باکفایت بناتی ہے۔
اس سیل کے دو چیمبر ہیں جس میں سے ہر ایک کو آپ اپنی ضرورت کے لحاظ سے ڈھال سکتے ہیں۔ عین اسی دوران یہ توانائی جمع کرسکتا ہے جسے بعد میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح حیاتیاتی سولر سیل کو رات کے وقت بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اس طرح چارجنگ اور توانائی پہنچانے والا ایک نہایت مؤثر نظام بنایا جاسکتا ہے پھر اس پورے عمل کو بہت حد تک چھوٹے سے چھوٹا کیا جاسکتا ہے۔ سیلز کو جب چھوٹا کیا جائے تو ان کے اندر مائعات کا بہاؤ اور دیگر اشیا اچھی طرح کام کرتی ہیں اور توانائی بھی کم سے کم ضائع ہوتی ہے۔
الجی سے بنا یہ سیل کئی لحاظ سے بہتر ہے اور اس سے شمسی توانائی کو بہت اچھی طرح استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ کیمبرج کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی غریب ممالک کے لیے تیار کی گئی ہے جہاں سورج بھرپور انداز میں چمکتا ہو لیکن بجلی کا شدید بحران ہو۔