حیاتِ نبی کریمؐ
آپ ﷺ شہر مکہ میں سردار قریش حضرت عبدالمطلب کے گھر پیدا ہوئے۔
حضرت واثلتہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا، مفہوم: '' اللہ تعالیٰ نے اولاد اسمعیلؑ میں سے کنانہ کو منتخب فرمایا اور کنانہ میں سے قریش کو منتخب فرمایا اور قریش میں سے بنو ہاشم کو منتخب فرمایا اور بنو ہاشم میں سے مجھے منتخب فرمایا۔'' ( رواہ مسلم)
آپ ﷺ شہر مکہ میں سردار قریش حضرت عبدالمطلب کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ ﷺ کے والد ماجد کا نام نامی عبداللہ اور والدہ محترمہ کا اسم گرامی آمنہ تھا۔ آپ ﷺ کی ولادت سراپا بشارت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی، اس وقت ایران میں نوشیروان عادل کی حکومت تھی۔
آپ ﷺ کی ولادت بابرکت کے وقت بہت سے عجائب قدرت کا ایسا ظہور ہوا کہ کبھی دنیا میں وہ باتیں نہیں ہوئیں، بے زبان جانوروں نے انسانی زبان میں آپؐ کی خوش خبری سنائی، درختوں سے آوازیں آئیں، بُت پرستوں نے بتوں سے آپ ﷺ کی خوش خبری سنی، دنیا کے دونوں بڑے بادشاہوں یعنی شاہ فارس اور شاہِ رُوم کو بہ ذریعہ خواب آپ ﷺ کی عظمت و رفعت سے آگاہی دی گئی۔ اور یہ بھی ان کو بتایا گیا کہ آپ ﷺ کی سطوت و جبروت کے سامنے نہ صرف کسریٰ و قیصر، بل کہ ساری دنیا کی طاقتیں سرنگوں ہوجائیں گی۔
آپ ﷺ شکم مادر میں تھے کہ والد ماجد کا انتقال ہوگیا اور چار برس کی عمر میں مادرِ مہربان کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ بچپن میں عجیب و غریب حالات مشاہدے میں آئے۔ ایک بڑا حصہ آپ ﷺ کی کم سنی کے حالات کا حضرت حلیمہؓ سے منقول ہے، حق یہ ہے کہ وہ بڑی خوش نصیب تھیں۔ بت پرستی اور بے حیائی کے کاموں سے آپ ﷺ ہمیشہ پرہیز کرتے رہے۔ آپ ﷺ کی صداقت اور امانت قبل از نبوت بھی تمام مکہ میں مشہور اور مسلّمہ تھی حتیٰ کہ آپ ﷺ کا لقب صادق اور امین زبان زد خلائق تھا۔
جب آپ ﷺ کی عمر گرامی پچیس سال کی ہوئی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ ﷺ کا نکاح ہوا جو خاندانِ قریش میں ایک بہت دانش مند اور دولت مند خاتون تھیں، نکاح کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی۔ جب آپؐ کی عمر شریف چالیس سال کی ہوئی تو وہ دولت عظمیٰ آپ ﷺ کو عطا ہوئی جو روزِ ازل سے آپ ﷺ کے لیے نام زد ہو چکی تھی، جس کی دعا حضرت خلیل علیہ السلام نے مانگی، جس کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی تھی یعنی حق تعالیٰ نے آپ ﷺ کو سارے عالم کی طرف مبعوث کیا۔
نبوت کے بعد تیرہ برس آپ ﷺ کا قیام مکہ معظمہ میں رہا پھر ہجرت کرکے آپ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے، دس برس مدینہ میں قیام رہا، اس دس سال کے عرصے میں انیس لڑائیاں بھی آپؐ کو کافروں سے لڑنا پڑیں۔ بہ کثرت معجزات و خوارق عادات کا آپ ﷺ سے ظہور ہوا۔ سب سے بڑا معجزہ آپ ﷺ کا قرآن شریف ہے جس میں فصاحت و بلاغت کا اعجاز بھی ہے اور اخبارِ غیب کا بھی اور قوتِ تاثیر و سرعت تاثیر بھی۔
نبوت کے بارہویں سال جب کہ عمر شریف اکیاون سال نو ماہ کی تھی، حق تعالیٰ نے آپ ﷺ کو معراج عطا فرمائی، یعنی آپ ﷺ کو آسمانوں پر بلایا گیا، جنت و دوزخ کی سیر آپ ﷺ کو کرائی گئی اور عالم ملکوت کے عجائب اور اللہ تعالیٰ کی آیاتِ کبریٰ کا مشاہدہ آپ ﷺ کو کرایا گیا۔
جب عمر شریف تریسٹھ برس کی ہوئی اور ہجرت کا گیارہواں سال شروع ہوا تو بارہویں ربیع الاول کو دو شنبہ کے دن بہ وقت چاشت چودہ دن بیمار رہ کر اس عالم سے رحلت فرمائی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آخری وصیت جو آپ ﷺ نے مسلمانوں کو فرمائی وہ یہ تھی کہ نماز کی حفاظت کرنا اور اپنے لونڈی غلاموں کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں جس جگہ آپ ﷺ دنیا سے رخصت ہوئے تھے، وہیں آپ ﷺ کی جائے آرام بنائی گئی جو زیارت گاہِ عالم ہے۔
آپ ﷺ شہر مکہ میں سردار قریش حضرت عبدالمطلب کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ ﷺ کے والد ماجد کا نام نامی عبداللہ اور والدہ محترمہ کا اسم گرامی آمنہ تھا۔ آپ ﷺ کی ولادت سراپا بشارت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی، اس وقت ایران میں نوشیروان عادل کی حکومت تھی۔
آپ ﷺ کی ولادت بابرکت کے وقت بہت سے عجائب قدرت کا ایسا ظہور ہوا کہ کبھی دنیا میں وہ باتیں نہیں ہوئیں، بے زبان جانوروں نے انسانی زبان میں آپؐ کی خوش خبری سنائی، درختوں سے آوازیں آئیں، بُت پرستوں نے بتوں سے آپ ﷺ کی خوش خبری سنی، دنیا کے دونوں بڑے بادشاہوں یعنی شاہ فارس اور شاہِ رُوم کو بہ ذریعہ خواب آپ ﷺ کی عظمت و رفعت سے آگاہی دی گئی۔ اور یہ بھی ان کو بتایا گیا کہ آپ ﷺ کی سطوت و جبروت کے سامنے نہ صرف کسریٰ و قیصر، بل کہ ساری دنیا کی طاقتیں سرنگوں ہوجائیں گی۔
آپ ﷺ شکم مادر میں تھے کہ والد ماجد کا انتقال ہوگیا اور چار برس کی عمر میں مادرِ مہربان کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ بچپن میں عجیب و غریب حالات مشاہدے میں آئے۔ ایک بڑا حصہ آپ ﷺ کی کم سنی کے حالات کا حضرت حلیمہؓ سے منقول ہے، حق یہ ہے کہ وہ بڑی خوش نصیب تھیں۔ بت پرستی اور بے حیائی کے کاموں سے آپ ﷺ ہمیشہ پرہیز کرتے رہے۔ آپ ﷺ کی صداقت اور امانت قبل از نبوت بھی تمام مکہ میں مشہور اور مسلّمہ تھی حتیٰ کہ آپ ﷺ کا لقب صادق اور امین زبان زد خلائق تھا۔
جب آپ ﷺ کی عمر گرامی پچیس سال کی ہوئی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ ﷺ کا نکاح ہوا جو خاندانِ قریش میں ایک بہت دانش مند اور دولت مند خاتون تھیں، نکاح کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی۔ جب آپؐ کی عمر شریف چالیس سال کی ہوئی تو وہ دولت عظمیٰ آپ ﷺ کو عطا ہوئی جو روزِ ازل سے آپ ﷺ کے لیے نام زد ہو چکی تھی، جس کی دعا حضرت خلیل علیہ السلام نے مانگی، جس کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی تھی یعنی حق تعالیٰ نے آپ ﷺ کو سارے عالم کی طرف مبعوث کیا۔
نبوت کے بعد تیرہ برس آپ ﷺ کا قیام مکہ معظمہ میں رہا پھر ہجرت کرکے آپ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے، دس برس مدینہ میں قیام رہا، اس دس سال کے عرصے میں انیس لڑائیاں بھی آپؐ کو کافروں سے لڑنا پڑیں۔ بہ کثرت معجزات و خوارق عادات کا آپ ﷺ سے ظہور ہوا۔ سب سے بڑا معجزہ آپ ﷺ کا قرآن شریف ہے جس میں فصاحت و بلاغت کا اعجاز بھی ہے اور اخبارِ غیب کا بھی اور قوتِ تاثیر و سرعت تاثیر بھی۔
نبوت کے بارہویں سال جب کہ عمر شریف اکیاون سال نو ماہ کی تھی، حق تعالیٰ نے آپ ﷺ کو معراج عطا فرمائی، یعنی آپ ﷺ کو آسمانوں پر بلایا گیا، جنت و دوزخ کی سیر آپ ﷺ کو کرائی گئی اور عالم ملکوت کے عجائب اور اللہ تعالیٰ کی آیاتِ کبریٰ کا مشاہدہ آپ ﷺ کو کرایا گیا۔
جب عمر شریف تریسٹھ برس کی ہوئی اور ہجرت کا گیارہواں سال شروع ہوا تو بارہویں ربیع الاول کو دو شنبہ کے دن بہ وقت چاشت چودہ دن بیمار رہ کر اس عالم سے رحلت فرمائی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آخری وصیت جو آپ ﷺ نے مسلمانوں کو فرمائی وہ یہ تھی کہ نماز کی حفاظت کرنا اور اپنے لونڈی غلاموں کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں جس جگہ آپ ﷺ دنیا سے رخصت ہوئے تھے، وہیں آپ ﷺ کی جائے آرام بنائی گئی جو زیارت گاہِ عالم ہے۔