سانحہ قصور اور کولیٹرل بے بسی
ملک سراپا احتجاج اور انسانیت شرم سے منہ چھپا کر رو رہی ہے۔
ISLAMABAD:
قصور میں 7 سالہ معصوم زینب کو زیادتی کے بعد قتل کے لرزہ خیز واقعہ نے بلاشبہ معاشرتی و اخلاقی انحطاط اور مشرقی اقدار کی زبوں حالی کے لرزہ خیز سوالات کو جنم دیا ہے، اس درد انگیز اور شرم ناک واردات میں ملوث ملزمان یا کسی سیریل کلر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے مطالبات میں جو برہمی، اضطراب اور صدمہ و غم انگیزغصہ پنہاں ہے اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
اس وقت ضرورت غم و صدمہ کی کیفیت کو طاقت میں بدلنے کی ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ محض بیانات داغنے اور ایک مجرمانہ واقعہ کو سیاسی رنگ دینے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا نہ ملکی صورتحال اور موجودہ تشویش ناک ماحول اس بات کا متحمل ہے کہ ہڑتال، جلاؤ گھیراؤ، آتشزنی اور پر تشدد بلوہ آرائی سے زینب کا سانحہ اپنے منطقی انجام تک پہنچنے کے بجائے کسی دوسرے المیے پر منتج نہ ہو، اس لیے اہل وطن جس صدمہ سے دوچار ہیں اس کا ادراک کرنا حکومت ،اپوزیشن رہنماؤں، سیاسی اسٹیک ہولڈرز سمیت مقتدر اداروں کے لیے ٹیسٹ کیس ہے۔
پولیس کا فرض ہے کہ وہ معاشرہ کو انسان نما حیوانوں کے جنگل میں تبدیل کرنے والوں پر عرصہ حیات تنگ کرے، قانون کو روند ڈالنے والی بے رحم مافیاؤں کی گردن دبوچے، سیاسی مین اسٹریم جماعتوں اور سول سوسائٹی کے لیے زینب ٹریجڈی قانون کی حرمت بحال کرنے کی جدوجہد کے نتیجہ خیز پہلوؤں پر مرکوز ہونی چاہیے، ملک سیاسی تاریخ اور جمہوریت کی بقا کے نازک دوراہے پر کھڑا ہے، مسئلہ اخلاقیات اور انسانیت کے زوال آمادہ سماجی منظرنامہ سے جڑا ہوا ہے۔
ثنا خوان تقدیس مشرق بھی حیران ہیں کہ پاکستان کو کیا ہو گیا جہاں معصوم بچیاں ہوس کے شکار درندوں کا لقمہ تر بنتی ہیں، زینب کا درد انگیز سانحہ صرف حکومتی کمزوری، پولیس کے تساہل، انٹیلیجنس شیئرنگ کی ناکامی یا جمہوریت کی مکمل ہزیمت نہیں، یہ کولیٹرل بے بسی ہے، بند گلی میں جا گھسنے والی سیاسی مہم جوئیوں کا دلگداز شاخسانہ ہے۔
خرابی یوں پیدا ہوئی کہ مجرمانہ وارداتوں کے شائق عناصر کے لیے سیاست دانوں، قانون کے محافظوں اور اہم اداروں کی باہمی کشمکش نے اسپیس کشادہ کی، انھیں پلیئنگ فیلڈ ملا ورنہ قصور کیسے 12 جنسی وارداتوں کی مجرمانہ شکار گاہ بنتا۔ بات تلخ سہی مگر اس جرم کوتاہی میں سب برابر کے شریک ہیں، سب کو زینب کے غم زدہ خاندان پر ٹوٹنے والی قیامت کی ذمے داری قبول کرنی چاہیے۔
اگرسیاست میں جواب دہی، رواداری، سنجیدگی اور غلطیوں کے اعتراف کا کلچر ہوتا تو سیاست خود کش جیکٹ پہننے کے الزامات سے کب کی بری الذمہ ہوجاتی۔ سماجی سطح پر بھی احتساب اور قانون کی کڑی نظر اپنا قبلہ درست رکھتی، ہمہ وقت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے اجتناب برتا جاتا، تو اتنے بڑے کولیٹرل ڈیمیج کے ازالہ کے لیے بلاتاخیر تمام ارباب اختیار مل بیٹھ جاتے، سیاسی سیز فائر اب بھی ملکی تقاضہ ہے۔
صورتحال کی بہتری اور جرائم کے تند وتیز سیلاب پر بند باندھنا ناگزیر ہے۔ سوچئے کہ عام آدمی کو انصاف، زندگی کا تحفظ، عزت و آبرو اور حیا و ایمان کی قدروں سے فیضیاب ہونے کا امکان گھٹتا جا رہا ہے، انتشار اور مجرمانہ و مریضانہ ذہنیت تہذیبی رویوں پر غلبہ حاصل کر رہی ہے، جرم سرخرو قانون خجل و خوار۔ ایسا کیوں؟
حکومت کا اولین ہدف وہ سیریل کلر ملزم یا ملزمان کا گروہ ہونا چاہیے جس نے زینب پر ظلم وبربریت کی انتہا کردی، یہ اقدام قانون کے محافظوں کو ملزمون کے قریب لانے میں مدد دے سکتا ہے، اہل سیاست، ریاستی اور حکومتی حلقوں کی اس اندوہ ناک حقیقت سے بھی سب واقف ہیں کہ قصور کا واقعہ پہلا سفاک ترین واقعہ نہیں، اس دل سوز واقعہ سے پہلے وقت اس نوعیت کے واقعات کی پرورش خاموشی سے کرتا رہا اور اچانک ننھی زینب پر ظلم کی دیوار گری۔
اس گمبھیر صورتحال پر غیر جذباتی اندا میں بحث ہونی چاہیے، انسانی حقوق اور جنسی جرائم کے بنیادی اسباب و عوامل پر محیط رپورٹیں الم ناک صورتحال کی نشاندہی کرتی رہیں، بچوں کے مسلسل اغوا، شہریوں کے لاپتہ ہونے، خواتین پر مجرمانہ حملوں، تیزاب گردی، آوارہ گردی، گھریلو جنسی تشدد کے لاتعداد واقعات کا تھانوں میں رپورٹ نہ ہونا سوالیہ نشان ہے۔
سماجی تضادات، قانون کی بے توقیری اور رعونت و شاونزم کی پروردہ طاقتوں نے ہمیشہ ظالم کی آبیاری کی اور ان ٹچ ایبل تک قانون کے آہنی ہاتھ پہنچنے سے معذور رہے، حکمرانی کے اضمحلال، سیاسی بے سمتی، انصاف میں تاخیر یا عدم فراہمی سمیت دیگر گھریلو، سماجی، معاشی اور نفسیاتی مسائل کے دلدل میں معاشرہ اس قدر دھنس چکا ہے کہ معصوم بچیوں، کم سن لڑکوں اور خواتین کو ظلم کا نشانہ بننا پڑتاہے، آج سانحہ پر ملک گیر بحث نے بے جا ارتعاش پیدا کیا ہے۔
ملک سراپا احتجاج اور انسانیت شرم سے منہ چھپا کر رو رہی ہے، ملزم کی نشاندہی کرنے والے کے لیے ایک کروڑ روپے انعام کا اعلان بھی کیا گیا ہے، کاش ملزم قانون کی از خود گرفت میں آ جاتا۔حقیقت میں اس جگر پاش سانحہ نے غور و فکر کے کئی در وا کیے ہیں ۔ ارباب بست وکشاد معاشرہ کو جرائم کی آندھی سے بچانے کی فکر کریں۔ سیاست تو ہوتی رہے گی۔
قصور میں 7 سالہ معصوم زینب کو زیادتی کے بعد قتل کے لرزہ خیز واقعہ نے بلاشبہ معاشرتی و اخلاقی انحطاط اور مشرقی اقدار کی زبوں حالی کے لرزہ خیز سوالات کو جنم دیا ہے، اس درد انگیز اور شرم ناک واردات میں ملوث ملزمان یا کسی سیریل کلر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے مطالبات میں جو برہمی، اضطراب اور صدمہ و غم انگیزغصہ پنہاں ہے اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
اس وقت ضرورت غم و صدمہ کی کیفیت کو طاقت میں بدلنے کی ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ محض بیانات داغنے اور ایک مجرمانہ واقعہ کو سیاسی رنگ دینے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا نہ ملکی صورتحال اور موجودہ تشویش ناک ماحول اس بات کا متحمل ہے کہ ہڑتال، جلاؤ گھیراؤ، آتشزنی اور پر تشدد بلوہ آرائی سے زینب کا سانحہ اپنے منطقی انجام تک پہنچنے کے بجائے کسی دوسرے المیے پر منتج نہ ہو، اس لیے اہل وطن جس صدمہ سے دوچار ہیں اس کا ادراک کرنا حکومت ،اپوزیشن رہنماؤں، سیاسی اسٹیک ہولڈرز سمیت مقتدر اداروں کے لیے ٹیسٹ کیس ہے۔
پولیس کا فرض ہے کہ وہ معاشرہ کو انسان نما حیوانوں کے جنگل میں تبدیل کرنے والوں پر عرصہ حیات تنگ کرے، قانون کو روند ڈالنے والی بے رحم مافیاؤں کی گردن دبوچے، سیاسی مین اسٹریم جماعتوں اور سول سوسائٹی کے لیے زینب ٹریجڈی قانون کی حرمت بحال کرنے کی جدوجہد کے نتیجہ خیز پہلوؤں پر مرکوز ہونی چاہیے، ملک سیاسی تاریخ اور جمہوریت کی بقا کے نازک دوراہے پر کھڑا ہے، مسئلہ اخلاقیات اور انسانیت کے زوال آمادہ سماجی منظرنامہ سے جڑا ہوا ہے۔
ثنا خوان تقدیس مشرق بھی حیران ہیں کہ پاکستان کو کیا ہو گیا جہاں معصوم بچیاں ہوس کے شکار درندوں کا لقمہ تر بنتی ہیں، زینب کا درد انگیز سانحہ صرف حکومتی کمزوری، پولیس کے تساہل، انٹیلیجنس شیئرنگ کی ناکامی یا جمہوریت کی مکمل ہزیمت نہیں، یہ کولیٹرل بے بسی ہے، بند گلی میں جا گھسنے والی سیاسی مہم جوئیوں کا دلگداز شاخسانہ ہے۔
خرابی یوں پیدا ہوئی کہ مجرمانہ وارداتوں کے شائق عناصر کے لیے سیاست دانوں، قانون کے محافظوں اور اہم اداروں کی باہمی کشمکش نے اسپیس کشادہ کی، انھیں پلیئنگ فیلڈ ملا ورنہ قصور کیسے 12 جنسی وارداتوں کی مجرمانہ شکار گاہ بنتا۔ بات تلخ سہی مگر اس جرم کوتاہی میں سب برابر کے شریک ہیں، سب کو زینب کے غم زدہ خاندان پر ٹوٹنے والی قیامت کی ذمے داری قبول کرنی چاہیے۔
اگرسیاست میں جواب دہی، رواداری، سنجیدگی اور غلطیوں کے اعتراف کا کلچر ہوتا تو سیاست خود کش جیکٹ پہننے کے الزامات سے کب کی بری الذمہ ہوجاتی۔ سماجی سطح پر بھی احتساب اور قانون کی کڑی نظر اپنا قبلہ درست رکھتی، ہمہ وقت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے اجتناب برتا جاتا، تو اتنے بڑے کولیٹرل ڈیمیج کے ازالہ کے لیے بلاتاخیر تمام ارباب اختیار مل بیٹھ جاتے، سیاسی سیز فائر اب بھی ملکی تقاضہ ہے۔
صورتحال کی بہتری اور جرائم کے تند وتیز سیلاب پر بند باندھنا ناگزیر ہے۔ سوچئے کہ عام آدمی کو انصاف، زندگی کا تحفظ، عزت و آبرو اور حیا و ایمان کی قدروں سے فیضیاب ہونے کا امکان گھٹتا جا رہا ہے، انتشار اور مجرمانہ و مریضانہ ذہنیت تہذیبی رویوں پر غلبہ حاصل کر رہی ہے، جرم سرخرو قانون خجل و خوار۔ ایسا کیوں؟
حکومت کا اولین ہدف وہ سیریل کلر ملزم یا ملزمان کا گروہ ہونا چاہیے جس نے زینب پر ظلم وبربریت کی انتہا کردی، یہ اقدام قانون کے محافظوں کو ملزمون کے قریب لانے میں مدد دے سکتا ہے، اہل سیاست، ریاستی اور حکومتی حلقوں کی اس اندوہ ناک حقیقت سے بھی سب واقف ہیں کہ قصور کا واقعہ پہلا سفاک ترین واقعہ نہیں، اس دل سوز واقعہ سے پہلے وقت اس نوعیت کے واقعات کی پرورش خاموشی سے کرتا رہا اور اچانک ننھی زینب پر ظلم کی دیوار گری۔
اس گمبھیر صورتحال پر غیر جذباتی اندا میں بحث ہونی چاہیے، انسانی حقوق اور جنسی جرائم کے بنیادی اسباب و عوامل پر محیط رپورٹیں الم ناک صورتحال کی نشاندہی کرتی رہیں، بچوں کے مسلسل اغوا، شہریوں کے لاپتہ ہونے، خواتین پر مجرمانہ حملوں، تیزاب گردی، آوارہ گردی، گھریلو جنسی تشدد کے لاتعداد واقعات کا تھانوں میں رپورٹ نہ ہونا سوالیہ نشان ہے۔
سماجی تضادات، قانون کی بے توقیری اور رعونت و شاونزم کی پروردہ طاقتوں نے ہمیشہ ظالم کی آبیاری کی اور ان ٹچ ایبل تک قانون کے آہنی ہاتھ پہنچنے سے معذور رہے، حکمرانی کے اضمحلال، سیاسی بے سمتی، انصاف میں تاخیر یا عدم فراہمی سمیت دیگر گھریلو، سماجی، معاشی اور نفسیاتی مسائل کے دلدل میں معاشرہ اس قدر دھنس چکا ہے کہ معصوم بچیوں، کم سن لڑکوں اور خواتین کو ظلم کا نشانہ بننا پڑتاہے، آج سانحہ پر ملک گیر بحث نے بے جا ارتعاش پیدا کیا ہے۔
ملک سراپا احتجاج اور انسانیت شرم سے منہ چھپا کر رو رہی ہے، ملزم کی نشاندہی کرنے والے کے لیے ایک کروڑ روپے انعام کا اعلان بھی کیا گیا ہے، کاش ملزم قانون کی از خود گرفت میں آ جاتا۔حقیقت میں اس جگر پاش سانحہ نے غور و فکر کے کئی در وا کیے ہیں ۔ ارباب بست وکشاد معاشرہ کو جرائم کی آندھی سے بچانے کی فکر کریں۔ سیاست تو ہوتی رہے گی۔