متاع جنوں

ترتیب اور انتخاب چوہدری لیاقت علی کا اور پیشکش فضلی سنز کی ہے۔

''متاع جنوں'' کتاب نہیں، کتاب نما کیلنڈر ہے سال نو کا۔ اس کے 365 صفحات ہیں اور بارہ ابواب۔ ہر صفحہ ایک تاریخ، دن اور کسی شاعر کی تخلیق سے مزین ہے۔ ترتیب اور انتخاب چوہدری لیاقت علی کا اور پیشکش فضلی سنز کی ہے۔

سعود عثمانی فرماتے ہیں ''ہر سال کا ہر نیا طلوع ہونے والا دن اپنے مطلع سے مقطع تک ایک خوبصورت، جدید اور پرتاثیر غزل کی طرح ہوتا ہے۔ شرط صرف شعر شناس دل کی ہے۔'' عقیل عباس جعفری فرماتے ہیں ''اس کیلنڈر کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب آپ صبح کو سو کر اٹھتے ہیں تو ایک شاعر کی تخلیق سے آپ کی ملاقات ہوتی ہے اور پورا دن خوشگوار گزرتا ہے۔''

''متاع جنوں'' کی ابتدا یکم جنوری کو خواجہ حیدر علی آتش کی غزل سے ہوتی ہے جس کا ایک شعر ہے:

کسی نے مول نہ پوچھا دل شکستہ کا

کوئی خرید کے ٹوٹا پیالہ کیا کرتا

اسی مہینے کی 2 تاریخ کو آرزو لکھنوی کی ایک خوبصورت غزل ہے جس کا مطلع ہے:

میری نگاہ کہاں' دیدِ حسن یار کہاں

ہو اعتبار تو پھر تابِ انتظار کہاں

9 تاریخ، آصف شفیع کی غزل۔ ایک شعر ہے:

دل تو کچھ اور ہی امید لے بیٹھا ہے

اے مرے دوست! ابھی چھیڑ نہ مضرابِ طلب

28 کو احمد ندیم قاسمی کی غزل ہے۔ ایک شعر ہے:

جب بھی دیکھا ہے تجھے عالمِ نو دیکھا ہے

مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا

11 فروری اسلم انصاری کی غزل۔ شعر ہے:

تمام الفاظ مرچکے ہیں' تمام احباب جا چکے ہیں

گئی رتوں کے ستم کا قصہ سنائیں کیسے کسے سنائیں

25 فروری۔ افتخار عارف کی غزل ہے۔ تھکن تو اگلے سفر کے لیے بہانہ تھا۔ اس غزل کا ایک شعر ہے۔

وہی فراق کی باتیں وہی شکایتِ وصل

نئی کتاب کا ایک اک ورک پرانا تھا

3 مارچ۔ الیاس عشقی کی غزل، 6 کو امجد اسلام امجد کی ''سرمایۂ جاں''۔

یہ سب نے دیکھا

کہ ساز گل سے نکل کے خوشبو کا ایک جھونکا

ہزار نغمے سنا گیا ہے

مگر کسی کو نظر نہ آیا کہ اس کے پردے میں گل نے اپنا

تمام جوہر لٹا دیا ہے

7 مارچ۔ امید فاضلی کی غزل جس کا مطلع ہے۔

نظر نہ آئے تو کیا وہ مرے قیاس میں ہے

وہ ایک جھوٹ جو سچائی کے لباس میں ہے

9 مارچ۔ امین راحت چغتائی کی غزل۔ ایک شعر ہے:

ذات کے پردے سے باہر آ کے بھی تنہا رہوں

میں اگر ہوں اجنبی تو میرے گھر میں کون ہے

اگلی تاریخ کو انجم رومانی کی غزل ہے، مطلع ہے:

کچھ اجنبی سے لوگ تھے کچھ اجنبی سے ہم

دنیا میں ہو نہ پائے شناسا کسی سے ہم

8 اپریل۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی غزل۔ ایک شعر ہے:

عمر بھر کی چاہت کا ایک ہی صلہ پایا

درد نے ہمیں سمجھا' ہم نے درد کو جانا

10 اپریل۔ جگرمراد آبادی کی مشہور غزل۔ دل گیا رونق حیات گئی۔

اگلے دن جذبی کی غزل۔ ایک شعر ہے:

حسن و عشق دونوں تھے بے کراں و بے پایاں


دل وہاں بھی کچھ لمحے جانے کب گزار آیا

یکم مئی کو حمید نسیم کی غزل ہے۔ ایک شعر ہے:

شب کی تنہائی میں مجھ کو ایسا لگتا ہے کبھی

میں ہوں روحِ زندگی گو پیکرِ فانی میں ہوں

14 مئی کو خمار بارہ بنکوی کی غزل۔ ایک شعر ہے:

ترکِ تعلقات بھی عینِ تعلقات ہے

آگ بجھی ہوئی نہ جان آگ دبی ہوئی سمجھ

اسی مہینے کی 15 کو میردرد کی مشہور غزل جس کا یہ شعر ورد زبان ہے:

میں جاتا ہوں دل کو تیرے پاس چھوڑے

مری یاد تجھ کو دلاتا رہے گا

جون کی 4 تاریخ۔ رئیس امروہوی کی غزل اور یہ شعر ہے:

میں تنہا جا رہا ہوں سوئے منزل

یہ پرچھائیں کہاں سے آرہی ہے

3 جولائی سیف الدین سیف کی غزل۔ مقطع ہے:

سیف یہ دن تو قیامت کی طرح گزرا ہے

جانے کیا بات تھی ہر بات پہ رونا آیا

6 جولائی کو نصرت زیدی کی غزل۔ شعر دیکھیے:

جو بھی زخم لیے تھے دل پر ہم نے ان کی چاہت میں

ان سے کہہ دینا وہ سارے زخم گل و گلزار ہوئے

7 جولائی کو سیماب اکبر آبادی کی غزل ہے خفا ہوکر، جدا ہوکر۔ 9 کو شان الحق حقی کی غزل ہے:

ہم تو فسانہ کہہ کر اپنے دل کا بوجھ اتار چلے

تم جو کہو گے اپنے دل سے وہ کیسا افسانہ ہوگا

یکم اگست۔ صبا اکبر آبادی کی غزل۔ ایک شعر ہے:

سیکڑوں در ہیں زمانے میں گدائی کے لیے

آپ ہی کا درِ دولت ہو ضروری تو نہیں

اگست کی تاریخوں میں ظہور نظر، ظہیر کاشمیری، عباس تابش، عبید اللہ علیم اور عرفان صدیقی کی غزلیں ہیں۔ ستمبر میں فراق، مدنی، غالب، عطا الحق قاسمی، علی اکبر عباس کی اور علی سردار جعفری کی غزلیں ہیں۔ علی سردار کا ایک شعر ہے:

زمانہ گزرا کہ فرہاد و قیس ختم ہوئے

یہ کس پہ اہل جہاں حکمِ سنگ باری ہے

اکتوبر میں فرق یار، فہیم شناس کاظمی، فہمیدہ ریاض کی بلنک ورس ہیں۔16 اکتوبر کو فیض کی غزل ہے۔ ایک شعر ہے:

گھر جو ویراں تھا سرِ شام وہ کیسے کیسے

فرقتِ یاد نے آباد کیا آخرِ شب

7 اکتوبر کو قابل اجمیری کی غزل۔ یہ شعر دیکھیے:

جنم جنم کے اندھیروں کو دے رہا ہے شکست

وہ اک چراغ کہ اپنے لہو سے روشن ہے

نومبر میں محبوب خزاں، محسن اسرار، محسن بھوپالی، محشر بدایونی، محمد خالد، مختار صدیقی، مخدوم محی الدین، مشفق خواجہ، مصطفیٰ زیدی اور مظفر وارثی کا کلام ہے۔

یکم دسمبر میرا جی کی ''ایک نظم'' ہے۔ پیارے لمحے آئیں گے اور مجبوری مٹ جائے گی۔ 2 کو میر تقی میر کی غزل اور 4 کو ن۔م راشد کی نثری نظم ''ایک اور شہر''۔ 5 کو ناصر کاظمی کی غزل جس کا مطلع ہے:

قصے ہیں خموشی میں نہاں اور طرح کے

ہوتے ہیں غم دِل کے بیاں اور طرح کے

9 کو ندا فاضلی کی غزل، ٹھہر کیوں نہیں جاتا، گزر کیوں نہیں جاتا۔ 15 کو نشور واحدی کی غزل۔ چراغ محبت جلائے جاتے ہیں اور نصیر ترابی کی غزل۔ کوئی اور ہے۔ 17 تاریخ کو نظر آتی ہے ''متاع جنوں'' کی آخری غزل یوسف ظفر کی ہے۔

جس کا بدن ہے خوشبو جیسا جسکی چال صبا سی ہے

اس کو دھیان میں لاؤں کیسے وہ سپنوں کا باسی ہے
Load Next Story