بجلی کے بحران کے حوالے سے ایک مکالمہ

بجلی بنتی ہے اس کی ایک قیمت ہے اگر ہم سب وہ قیمت ادا کریں تو سرکلر ڈیٹ نہ بنے لیکن ہم بجلی چوری کرتے ہیں۔


مزمل سہروردی January 13, 2018
[email protected]

KARACHI: پاکستان اندھیروں سے نکلنے کی طرف گامزن ہے۔ اس حکومت سے لاکھ اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ملک میں بجلی کی پیدوار بڑھانے اور لوڈ شیڈنگ کے جن کو قابو کرنے کے لیے اس حکومت کی کارکردگی اچھی رہی ہے۔ جب یہ حکومت برسر اقتدار آئی تو ملک توانائی کی شدید کمی کا شکار تھا۔ نہ بجلی کے آنے کے کوئی اوقات تھے او ر نہ ہی جانے کے اوقات تھے۔ بس جاتی تھی اور آتی تھی۔ ایک چکر میں پوری قوم پھنسی ہوئی تھی۔ لیکن اب حالات بہتر ہیں۔

بجلی کے منصوبے لگ گئے ہیں' پیدوار دوگنی ہوگئی ہے۔ مزید منصوبے مکمل ہو رہے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ میں کافی حد تک کمی ہو گئی ہے۔ لیکن مسائل ابھی بھی ہیں۔ سرکلر ڈیٹ کا جن بے قابو ہے۔ چار سو ارب سے تجاوز کر جانے والے سرکلر ڈیٹ کا کسی کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ یہ حکومت بھی پچھلی حکومت کی طرح سرکلر ڈیٹ کا کوئی حل تلاش نہیں کر سکی ہے۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ بجلی تو ہے لیکن ان علاقوں میں جہاں چوری زیادہ ہے وہاں حکومت جان بوجھ کر بجلی نہیں دے رہی ہے۔ زیادہ بجلی چوری والے فیڈر بند رکھے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی ظلم ہے۔ عوام کے ساتھ ظلم ہے۔

بجلی کے انھی مسائل کے حوالے سے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں سیکریٹری پاور یوسف نسیم کھوکھر کے ساتھ کافی عرصہ بعد ایک نشست ہوئی۔ ان سے بجلی کے مسائل سمجھنے میں کافی مدد ملی۔ میں نے کہا سرکلر ڈیٹ کا کیا بنے گا۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے سرکلر ڈیٹ ایک حقیقت ہے اس سے انکار ممکن نہیں۔ اس سے آنکھیں بھی نہیں چرائی جا سکتی۔

میں نے کہااس کے ساتھ تو یہ حکومت الیکشن میں نہیں جا سکتی۔ وہ کہنے لگے یہ سیاسی سوال ہے میں تو سرکار کا ملازم ہوں۔ میرا کام سرکارکی پالیسی پر عمل کرنا ہے۔ ویسے بھی سرکلر ڈیٹ کا معاملہ اب محکمہ خزانہ دیکھ رہا ہے۔ وہ ہی اس کا حل نکالیں گے۔ میں نے کہا اتنے بڑے سرکلر ڈیٹ کے ساتھ گرمیوں میں انتخاب لڑا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا یہ کوئی سوال نہیں۔

میں نے کہا یہ سرکلر ڈیٹ کا کوئی مستقل حل نہیں۔ ہر حکومت اس میں پھنس جاتی ہے۔ دلدل کی طرح اس میں پھنسنے کے بعد اس سے نکلنے کا کوئی حل نہیں۔ یوسف نسیم کھوکھر کہنے لگے ویسے دیکھاجائے تو یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہ مسئلہ بن گیا ہے۔

بجلی بنتی ہے اس کی ایک قیمت ہے اگر ہم سب وہ قیمت ادا کریں تو سرکلر ڈیٹ نہ بنے لیکن ہم بجلی چوری کرتے ہیں۔ اور حکومت بجلی چوری روکنے میں ناکام ہے۔ اس لیے بجلی بنا کر مفت نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان جیسا کمزور معیشت والا ملک اپنے شہریوں کو اتنی مہنگی بجلی مفت نہیں دے سکتا۔ سب کو بل دینا ہو گا۔ بل دینے کی راہ نکالنی ہو گی۔ جب تک بحیثیت قوم ہم بل دینے کے لیے تیار نہیں ہو نگے یہ مسئلہ رہے گا۔ ہم اس دلدل میں پھنسے رہیں گے۔

اس طرح اب پاکستان ایک ایسی حالت میں آگیا ہے جہاں بجلی ہے اور نہیں بھی۔ میں نے کہا بل تو صرف پنجاب دے رہا ہے۔ باقی پاکستان تو بل نہیں دے رہا۔ انھوں نے کہا یہ درست ہے کہ پنجاب میں بجلی کے بلوں کی ریکوری کی پوزیشن باقی صوبوں سے بہتر ہے۔ لیکن پھر بھی آئیڈیل نہیں ہے۔ تا ہم اگر باقی صوبوں میں بھی بلوں کی ریکوری کی پوزیشن پنجاب جیسی ہی ہو جائے تو یہ سرکلر ڈیٹ کا جن قابو میں آسکتا ہے۔

میں نے کہا بل لینے کا کیا طریقہ ہے۔ وہ خاموش ہو گئے۔ پھر مسکرائے۔ کافی دیر خاموش رہے۔ کہنے لگے اس سوال کا جواب سب ڈھونڈ رہے ہیں۔ ستر سال سے ڈھونڈ رہے ہیں۔ جمہوری حکومتیں بھی ڈھونڈتی رہی ہیں۔ غیر جمہوری بھی ڈھونڈتی رہی ہیں۔ایک ہی جواب ہے کہ نہ بجلی بنانا سرکار کا کام ہے۔ نہ بجلی بیچنا سرکار کا کام ہے۔

ہم صرف ریگولیٹر ہو سکتے ہیں۔ بجلی بنانے اور بیچنے والوں کے درمیان ریگولیٹر یا پل کام۔ بجلی کی ترسیل کا نیٹ ورک ہمارا ہے۔ صرف اس کے چارجز ہم لے سکتے ہیں۔ آپ دیکھ لیں بجلی کا حل آئی پی پی سے نکلا ہے۔ اور اب بیچنے کا عمل بھی آئی پی پی موڈ میں ہی جانا ہو گا۔ ڈسکوز چلانا ہمارا کام نہیں ہے۔ دیکھ لیں یہ کام نہیں ہو رہا۔ نہ یہ ڈسکو چوری روک رہے ہیں۔ اور نہ یہ ریکوری کر رہے ہیں۔

میں نے کہاپھر کیا ہو گا۔ کہنے لگے مجھے نہیں پتہ کیا ہوگا۔ یہ الیکشن کا سال ہے بڑے فیصلے کرنے کا سال نہیں ہے۔ حکومت اب اپنے منصوبے مکمل کر رہی ہے۔ نئے منصوبے اور نئے تنازعے کھڑے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ لیکن یہ مسئلہ تب ہی حل ہو گا جب کوئی بھی حکومت اپنی مدت کے پہلے سال میں ہی اس کو حل کرنے کی کوشش کرے گی۔ تا کہ یہ حل ہو سکے۔ ورنہ ممکن نہیں۔

یوسف نسیم کھوکھر سے ملاقات تو ختم ہو گئی ۔ میں ان کے کمرے نکل آیا۔ لیکن یہ سوچتا رہا کہ بحیثیت قو م ہم کہاں کھڑے ہیں۔ کیوں ہم اہم قومی مسائل پر بھی ایک نہیں ہیں۔ پھر تماشہ دیکھتے ہیں کہ یہ کیسے ہمیں کھائے گا۔

پنجاب کی حکومت آجائے تو اس پر الزام آئے گا کہ وہ چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے۔ بجلی کے بلوں کی وصولی کے نام پر چھوٹے صوبوں پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ اور اگر چھوٹے صوبے کی حکومت آجائے تو وہ سوچتی ہے کہ میں تو ہوں ہی چھوٹے صوبے سے میں کیسے یہ ظلم کر سکتی ہوں کہ لوگوں سے بجلی کے بل وصول کروں۔ پتہ نہیں مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ فیڈرشن کی قیمت یہ سرکلر ڈیٹ ہے۔ ہم نے ایسا ماحول کیوں بنا دیا ہے کہ اگر پاکستان کو متحد رکھنا ہے تو بجلی چوری کی اجازت دینی ہو گی۔ بجلی کے بل کی ریکوری کو پاکستان کے استحکام کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ صوبائیت قومیت کے چکر میں بجلی کو پھنسا دیا گیا ہے۔

اگر کراچی میں بجلی کی نجکاری چل سکتی ہے۔ تو لاہور ڈسکو کی نجکاری کیوں نہیں ہو سکتی۔ پشاور کی ڈسکو کی نجکاری کیوں ممکن نہیں۔ ایک ٹیرف کیوں ضروری ہے۔ اگر پشاور میں لائن لاسز کم ہیں۔ چوری کم ہے ۔ تو اس کا فائدہ پشاور کے عوام کو ہونا چاہیے ۔ اور اگر پشاور میں چوری زیادہ ہے۔ تو اس کی قیمت بھی پشاور والوں کو ہی ادا کرنی چاہیے۔

ویسے تو چوری روکنا سرکار کا کام ہے۔ لیکن سرکار ناکام ہو گئی ہے جیسے اور بہت سے کاموں میں سرکار ناکام ہو گئی ہے۔ سرکارکی ناکامی پر کوئی سوال نہیں۔ لیکن حل تو نکالنا ہے۔ بجلی کے بل کی وصولی کے بغیر لوڈ شیڈنگ قابو میں نہیں آسکتی۔ بجلی ہے اور نہیں بھی۔ بس یہی حقیقت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں