پاکستان کرکٹ کیخلاف نئی بھارتی چال

مخالفین کامیاب ہو گئے تو ہم مزید پیچھے چلے جائیں گے۔

skhaliq@express.com.pk

مئی 1999 کے کسی دن کی بات ہے، نارتھمپٹن میں پاکستانی شائقین خوشی خوشی اپنی ٹیم کا بنگلہ دیش سے ورلڈکپ میچ دیکھنے کیلیے اسٹیڈیم آئے،سب کو سو فیصد یقین تھا کہ ''بچوں '' کو گرین شرٹس باآسانی زیر کر لیں گے اور اس دوران ہمیں اپنے کھلاڑیوں کی جانب سے چوکوں ، چھکوں کی برسات دیکھنے کو ملے گی، جس ٹیم کا وسیم اکرم کپتان اور پیس اٹیک میں ان کے ساتھ وقار یونس، شعیب اختر اور اظہر محمود موجود ہوں۔

اسپن کی ذمہ داری ثقلین مشتاق نے سنبھالی ہوئی ہو،اس کے سامنے مضبوط ترین بیٹنگ لائن نہیں ٹھہر سکتی کمزور بنگلہ دیش کی کیا مجال کہ بڑا اسکور بنائے،اسی طرح سعید انور، شاہد آفریدی، اعجاز احمد، انضمام الحق ،سلیم ملک اور معین خان جیسے بیٹسمینوں کو بڑے بڑے بولرز پریشان نہیں کر سکتے تو نوآموز بولنگ اٹیک کیا بگاڑ لے گا،مگر اس دن جو ہوا کرکٹ کی تاریخ میں ایسے ''اپ سیٹ'' کم ہی ہوتے ہیں۔

بنگلادیش نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے جب 9 وکٹ پر 223 رنز بنائے تب بھی کسی کو تشویش نہ تھی کہ یہ ہدف عبور نہ ہوگا، البتہ جب پاکستان نے بیٹنگ شروع کی تو بھاگ کر اسپن بولنگ کرنے والے نام نہاد پیسر خالد محمود ہی بیٹسمینوں کو میک گرا نظر آنے لگے،161 رنز پر ڈھیر ہو کر ٹیم 62 رنز کی شکست کا شکار ہو گئی، شائقین دم بخود ہو گئے،اسے اب بھی دنیائے کرکٹ کا سب سے زیادہ حیران کن نتیجہ قرار دیا جاتا ہے،اس کے بعد بڑی انکوائریاں ہوئیں۔

یہ بھی الزام لگایاگیا کہ حکومت نے مبینہ طور پر ٹیم کو خود جان بوجھ کر ہارنے کو کہا تاکہ ٹیسٹ اسٹیٹس کیلیے دوست ملک بنگلادیش کا کیس مضبوط ہو، میچ فکسنگ کی بڑی تحقیقات بھی ہوئیں مگر کچھ ثابت نہ ہو سکا، یوں فائل بند ہو گئی مگر شائقین کو اب بھی وہ میچ یاد ہے، میں ان دنوں نیا نیا ''ایکسپریس'' میں آیا تھا قومی کرکٹ سیٹ اپ میں اب بڑی پوزیشن پر فائز ایک سابق اسٹار کے بھائی نے مجھے فون کر کے کہا کہ'' اخبار میں خبر آئی ہے کہ میں نے میچ پر پیسے لگائے تھے، ایسی کوئی بات نہیں تھی''۔

اس وقت یہ باتیں ضرور ہوئی تھیں کہ بعض کھلاڑیوں کو شاید پتا تھا کہ ٹیم کو ہارنا ہے اس لیے انھوں نے اپنے قریبی لوگوں سے قانونی طور پر رقم لگوائی اور مالامال ہو گئے، خیر اب گڑے مردے اکھاڑنے کا فائدہ نہیں، البتہ یہ سب کچھ یاد دلانے کا مقصد یہ ہے کہ اس فتح کے اگلے برس بنگلہ دیش کو ٹیسٹ اسٹیٹس مل گیا اور اب وہ بچہ 18 سال کا بالغ نوجوان بن کر ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے کہ ''تم نے ہمارے لیے کیا ہی کیا'' بنگلادیش بھارت کی گود میں جا بیٹھا اور پاکستان کا دورہ کرنے تک کو تیار نہیں۔

اس نے کبھی ہمارے ملک میں کرکٹ کی واپسی کیلیے ساتھ نہیں دیااور اکثر مخالفت ہی کرتا دکھائی دیتا ہے، احسان فراموشی کی دوسری مثال افغانستان بنا اسے ٹیسٹ اسٹیس دلانے میں بھی پاکستان کا بڑا کردار ہے، جب کوئی اس کے کرکٹرز کو نہیں پوچھتا تھا تو وہ ہمارے ملک میںآ کر کھیلتے تھے، انھیں یہاں مکمل آزادی حاصل تھی،راشد لطیف اور انضمام الحق تک نے افغان کرکٹرز کی کوچنگ کی مگر اب وہ بھی بھارت سے جا ملے، پہلا ٹیسٹ وہیں کھیلیں گے،سیاسی کشیدگی پر پاکستان کے ساتھ کرکٹ روابط توڑنے تک کی دھمکی دے دی۔


سب سے خطرناک مسئلہ افغانستان پریمیئر لیگ ہے، اکتوبر میں پہلے ایڈیشن کا انعقاد یو اے ای میں ہو رہا ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس ملک نے اب تک کوئی ٹیسٹ نہیں کھیلا، برائے نام بڑی ٹیموں سے اس کے مقابلے ہوتے ہیں ایک دم سے وہ لیگ کرانے کے قابل کیسے ہو گیا، مجھے تو یہ واضح طورپر بھارت کا گیم لگتا ہے،اس نے بنگلادیش اور افغانستان دونوں کو اپنے ساتھ ملا لیا اور ایشین بلاک اب بھارتی بلاک بن گیا ہے، بیچارے سری لنکنز لاہور میں اتنا بڑا واقعہ ہونے کے باوجود اب تک ہمارے ساتھ اور اصل دوست ہیں۔

افغان لیگ کا براہ راست نقصان پاکستان کرکٹ کو ہوگا، امارات میں اکتوبر کے بعد ہی ہماری ہوم سیریز ہوتی لہذا تاریخوں کا تصادم ممکن ہے، سب سے بڑی بات پی ایس ایل کو نقصان پہنچ سکتا ہے، یو اے ای ہماری لیگ کا میزبان ہے اب وہ دوسری لیگ بھی کرائے گا، پھر ٹی ٹین لیگ ہو گی، اسی طرح امارات بورڈ بھی ایک ایونٹ کرانا چاہتا ہے، ایسے میں پی ایس ایل کی کیا اہمیت رہے گی؟

آنے والے دن ہماری کرکٹ کیلیے بڑے مسائل لا سکتے ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پی سی بی کے اعلیٰ حکام کو کوئی فکرنہیں، وہ سوچ ہی نہیں رہے کہ کرکٹ میں بھی پاکستان کیخلاف بڑا بلاک بن رہا ہے، اگر معاملات کنٹرول نہ کیے تو صورتحال مزید بگڑ جائے گی، بورڈ میں سفارشیوں کا راج ہے، ان کا کوئی وژن نہیں، انھیں اپنی مراعات میں ہی دلچسپی ہے،دیگر بورڈز سے بہتر تعلقات بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی،اسی لیے اب یہ حال ہو چکا۔

یو اے ای کرکٹ حکام کو بھی اب کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے،آپ نے بطور نیوٹرل وینیو کسی دوسرے ملک کا انتخاب ہی نہیں کیا اور اسے کروڑوں روپے گراؤنڈز کے کرائے کی مد میں دیے، مگر اب وقت آ گیا کہ کسی دوسرے آپشن کو بھی دیکھیں،پاکستان میں بڑی ٹیمیں اب بھی آنے کو تیار نہیں، ایک پی ایس ایل سے ہی کچھ آسرا ہوا تھا کہ خالی خزانے بھرے رہیں گے، پہلا ایڈیشن خیریت سے گذر گیا، دوسرے میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل سامنے آ گیا۔

اب لیگ کی اہمیت مزیدکم کرنے کی سازشیں شروع ہو گئی ہیں، مخالفین کامیاب ہو گئے تو ہم مزید پیچھے چلے جائیں گے، اس وقت ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے، بورڈ حکام ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، انھیں دوستوں کی تعداد بڑھانی چاہیے، دیگر بورڈز سے بہتر تعلقات بنائیں، اگر ایسا نہ ہوا تو ہم مزید تنہائی کا شکار ہو جائیں گے، جب آپ کے دوست تیزی سے کم ہونے لگیں تو اپنے گریبان میں جھانک لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوتا۔

نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں۔

 
Load Next Story