جمہوریت اور آمریت
جمہوریت صرف حکومتی اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے والا ایک اندھا اور خودپسند نظریہ بن گیا ہے۔
ملک میں کون سا نظام حکومت ہونا چاہیے؟ 70 برس بعد بھی ہم اس موضوع پر بحث کررہے ہیں۔ تمام ہی مکتبہ فکر، تما م ہی طبقات، تمام ہی سیاسی و مذہبی جماعتیں اور تجزیہ نگار اس بحث اور تکرار میں مصروف ہیں بلکہ دونوں فریق اپنے اپنے موقف کو دلیل اور جھوٹ کے سہارے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ایک عام آدمی کے لیے جمہوریت بہتر ہے یا پھرآمریت کے دور میں عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئی ہے۔
اس بحث کے ساتھ ساتھ ماضی کے تمام تر ناکام تجربوں کے باوجود ایک نئے تجربے کوآزمانے کی نوید سنائی جارہی ہے، بلکہ بعض سمتوں سے اس بات کو بار بار دہرایا جارہا ہے کہ موجودہ جمہوری نظام کو سمیٹ کر ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کی جائے گی، جو ملک سے کرپشن اور لوٹ مار کرنے والوں کا بے رحمانہ احتساب کرے گی۔
ایک نئے نظام کی خبر سنا کر قوم کو ایک بار پھر گمراہ کیا جارہا ہے۔ موجوہ حالات میں بلاتفریق اور بلاامتیاز احتساب ہوتا نظر نہیں آتا۔ یہ سب کہانیاں اور افسانے ہیں۔ یہ تمام کوششیں صرف مائنس ون فارمولے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے منصوبے کا حصہ نظرآتی ہیں، ایک بار پھر جمہوریت کو لپیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ افسوس! اس سازش میں وہ جماعتیں بھی صف اول میں شامل ہیں جن کا دعویٰ یہ رہا ہے کہ جمہوریت کے لیے انھوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔
وطن عزیز میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کیوں نہیں ہوسکیں؟ اس پر بات کرنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ جمہوریت کی اساس کیا ہے؟ اس کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ وطن عزیز میں جمہوریت کیوں کمزور رہی اور آمریت بار بار کیوں مسلط ہوتی رہی۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ جمہوریت کے نام لینے والے اور جمہوریت کے دعویدار، جمہوری لفظ کے معنی، مفہوم اور اس کی روح کو سمجھنے سے قطعی قاصر ہیں۔
جمہوریت کے لغوی معنی یوں تو ''لوگوں کی حکمرانی'' کے ہیں لیکن بعض لوگ اس کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ لوگوں کی ''اکثریت کی بات ماننا''۔ یونانی مفکر ہیروڈوٹس کہتا ہے ''جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں''۔ معروف علم سیاست پروفیسر سیلے کے نزدیک ''جمہوری حکومت ایسی حکومت کو کہا جاتا ہے جس میں ہر شحص کو حکومتی معاملات میں شرکت حاصل ہو''۔
لارڈ برائس کے خیال میں جمہوری حکومت وہ ہے ''جس میں حکومت کرنے کا قانونی طور پر حق کسی مخصوص طبقہ یا طبقات کو حاصل نہیں بلکہ یہ حق تمام افراد معاشرہ کو اجتماعی طور پر حاصل ہو''۔ صدر لنکن نے جمہوریت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے ''جمہوریت عوام کے ذریعے، عوامی مفادات کے لیے عوامی حکو مت کو کہتے ہیں''۔
جمہوریت کے تصور کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ جمہوریت صرف ایک سیاسی تصور نہیں ہے بلکہ فکر، معاشی اور معاشرتی پہلوؤں سے بھی گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اگر جمہوریت کو محض اس کے سیاسی مفہوم یعنی طرز حکومت ہی سمجھا جائے تو یہ نظام اپنی افادیت کھو بیٹھتا ہے۔
سیاسی مفکرین کے نزدیک جمہوریت ایک مکمل فلسفہ زندگی ہے جو افراد کوسیاسی، سماجی، ثقافتی اور معاشی روابط کو نئے سرے سے استوار کرتا ہے، بلاشبہ سیاسی آزادی جمہوریت کی اساس ہے۔ لیکن سیاسی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے بے شمار لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے۔ جمہوری حکومت میں رواداری، مساوات، بنیادی حقوق کی فراہمی، سیاسی جماعتوں میں اتفاق، معاشی مساوات، احساس ذمے داری، دستور کا احترام، عوامی مفادات کو ترجیح، ثقافتی و مذہبی نظام حیات کا احترام کرنا اور مسائل کی فوری حل و قانون سازی کرنا ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے ہم 70 سال میں جمہوریت کے بنیادی لوازمات، اصولوں اور اساس سے بہت دور ہوگئے۔ ہم نے محض حکمرانوں کے انتخابات اور اقتدار کی مسند تک پہنچے کی جنگ کو ہی جمہوریت سمجھ لیا ہے۔ جب کہ جمہوریت ایک طریق کار، مزاج اور مخصوص طرز عمل کا نام ہے۔ ہم نے دیکھاکہ ایک عام شہری منتخب حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے جمہوریت کے مقابلے میں غیر منتخب شدہ حکومت کے طرز عمل کو جمہوری طریق کار کے مقابلے میں بہتر سمجھنے لگا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان جاگیردارانہ باقیات کا حامل معاشرہ ہے جس میں اب تک جاگیرداری حاوی رہے ہیں۔ فرسودہ جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے آج تک وطن عزیز میں حقیقی اور عوامی جمہوریت پنپ نہیں سکی۔ سیاسی پارٹیوں سے لے کر سماج کی مختلف طبقات میں جمہوری سوچ، شعور اور رویوں کا فقدان بڑھتا گیا اور یوں پاکستانی معاشرہ فرقہ پرستی، گروہ بندی اور تعصبات کا شکار ہوگیا۔
کسی بھی معاشرے میں جمہوریت اس وقت طاقتور ہوتی ہے جب معاشرے سے جاگیرداری نظام اور سوچ کا مکمل خاتمہ ہو۔ پاکستان میں آج بھی فرسودہ جاگیرداری نظام اپنی مکمل روایات اور جال و جلال کے ساتھ زندہ ہے۔ لہٰذا جمہوریت صرف حکومتی اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے والا ایک اندھا اور خودپسند نظریہ بن گیا ہے۔ ہم 70 برسوں میں جمہوریت اور آمریت کے کئی دور دیکھ چکے ہیں، صدارتی اور پارلیمانی نظام کے تجربوں سے بھی گزر چکے ہیں، یہ تما م تجربے ناکام رہے ہیں۔
وجہ یہی رہی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ نے جمہوریت کے بنیادی اصول اور اساس سے کو اپنانے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ سیاست دان جمہوریت کے نام پر جاگیرداری کو مضبوط اور مستحکم بناتے رہے۔ ایک عام آدمی کو جمہوریت اور پارلیمنٹ سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ وطن عزیز ایک ایسی جمہوریت سے محروم رہا جس کی تعریف مفکرین سیاسیات نے کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کے دلوں میں جمہوری نظام حکومت کا احترام پیدا نہ ہوسکا۔
آج ملک جن مسائل اور مشکلات سے دوچار ہے، یہ صورت حال ماضی کے آمرانہ ادوار اور جمہوری حکومتوں کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔ عوام کے حقوق ہوں یا ملکی مسائل، اس کا حل پارلیمانی نظام میں ہے۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ پاکستان سو فیصد جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوا۔
قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں جمہوری طریقے سے یہ ملک معرض وجود میں آیا۔ لیکن قائداعظم کے بعد ملک میں جمہوریت کے خلاف ریشہ دوانیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، جس میں سول اور ملٹری بیوروکریسی نے بنیادی کردار ادا کیا۔ منتخب جمہوری حکومتیں نشانہ بنتی رہیں اور ملک پر بار بار مارشل لا مسلط کیا جاتا رہا۔ فوجی حکومتوں کے قیام میں سیاست دانوں نے دامے، درمے، سخنے اپنی خدمات پیش کیں اور پھر اس کے عوض بے شمارے ذاتی فائدے اٹھائے۔
جاگیرداروں، وڈیروں اور مفاد پرست سیاست دانوں کا مخصوص حکمران طبقہ ستر سال سے اقتدار پر مسلط ہے۔ یہ طبقہ ایک بار پھر جمہوریت کو گول کرنے میں سرگرم ہے۔ قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ عوام کو اس مخمصے میں مبتلا رکھنے کی کوشش نہ کی جائے کہ پارلیمانی نہیں بلکہ صدارتی نظام سے ملک کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ٹیکنوکریٹ حکومت ہی بلاتفریق احتساب کرسکتی ہے۔ آئین سے متضاد فیصلے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
موجودہ متفقہ آئین قومی اتحاد کی ایسی بنیاد ہے جسے چھیڑنا وفاق کے وجود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ پالیسی سازی اور فیصلوں میں پارلیمان کو نظر انداز کرنے کا مطلب عوام میں بے چینی کو بڑھانا، سیاسی خلفشار کو فروغ دینا اور آمریت کی راہ ہموار کرنا ہے۔ پاکستان اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں۔ جمہوری اداروں کی مضبوطی بلاشبہ وقت کا عین تقاضا ہے۔