ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے
اب اگرچہ حالات بگڑچکے ہیں مگر ناقابل تلافی نہیں ہیں۔ تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
اس وقت ٹرمپ پاکستان سے ضرور برہم ہے مگر کیا امریکی اسٹیبلشمنٹ ٹرمپ کی ذہنی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ستر برس پرانے اپنے خدمت گزار کو امریکا سے جدا ہوتا دیکھ سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ کیونکہ وہ جانتی ہے کہ ہم ان کے لیے کتنے اہم ہیں۔
ہم نے بھی شروع سے امریکا کا ہاتھ پکڑا اور اس نے بھی ایک بڑے بھائی کی طرح ہماری مدد اور رہنمائی کی۔ اسی کی بدولت ابتدا میں ہماری بے سرو سامانی کے عالم میں جس معاشی اور عسکری امداد میسر آئی اور سب سے بڑھ کر اسی کی دوستی کی وجہ سے ہمارا دشمن ہمیشہ ہمیں زیر کرنے سے کتراتا رہا۔
بلاشبہ ہم نے بھی امریکی دوستی کو خوب نبھایا اور اس کے ہر حکم کو بجا لاتے رہے، جس کا کیا یہ صلہ کم ہے کہ اس نے ہمارے ایک جوہری طاقت بنتے وقت اپنی آنکھیں بند رکھیں، ورنہ ایران کی جوہری طاقت بننے کی خواہش کو امریکا کس طرح پامال کررہا ہے، اس کی نظیر بھی ہمارے سامنے ہے۔ جہاں ہم نے امریکا کو ہمیشہ خوش کرنے کی کوشش کی وہاں ہم سے کچھ ایسی غلطیاں بھی سرزد ہوئیں جو امریکا کے لیے تکلیف کا باعث بنیں۔ چنانچہ ہمیں امریکا کی صرف برائیاں گنوانے کے بجائے اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے۔
شروع میں ہم نے طالبان کی کھلم کھلا حمایت کی، پھر خود پاکستان میں پاکستانی طالبان کی فوج ظفر موج فعال نظر آئی جو افغان طالبان کی پشت پناہ بن گئی۔ افغان طالبان رہنما برسوں پاکستان میں مقیم رہنے اور کوئٹہ شوریٰ کی خبر مغربی میڈیا پر چھائی رہی۔ اگر یہ خبر غلط تھی تو اس کی بھرپور تردید کیوں نہیں کی گئی۔
ہم نے پہلے ڈرون حملوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا، جن کی اجازت دینے کا ہمارے کئی سیاست دانوں کی جانب سے سابقہ حکومت پر الزام لگایا گیا، اس وقت حکومت خاموش رہی مگر بعد میں ان حملوں کی مخالفت کی جانے لگی، جب کہ امریکا صرف دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے لیے یہ حملے کررہا تھا۔ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں ہلاکت پر ہم نے اس امریکی حملے کی سخت مذمت کی، جب کہ یہ کام خود پاکستان کو کرنا چاہیے تھا، پھر اسامہ کا پتہ لگانے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی پر غداری کا مقدمہ چلاکر اسے سلاخوں کے پیچھے کردیا گیا۔
امریکی حکومت نے اسے اس کے حوالے کرنے کی متعدد درخواستیں کیں مگر ہم نے اس کی ایک نہ سنی، حالانکہ ہم اس سے پہلے کتنے ہی محب وطن پاکستانیوں کو امریکا کے حوالے کرچکے تھے، جن میں وطن پرست بیٹی عافیہ اور اس کے معصوم بچے بھی شامل تھے۔ ہوسکتا تھا شکیل آفریدی کے بدلے میں امریکی جیل میں 86 سال کی قید تنہائی بھگت رہی قوم کی مظلوم بیٹی عافیہ واپس وطن آجاتی۔ عافیہ کو رہا کرنے کی پیشکش تو خود صدر اوباما نے اپنی صدارت سے رخصت ہوتے وقت کی تھی۔
اگر اس وقت حکومت پاکستان کی جانب سے صرف ایک خط اس سلسلے میں لکھ دیا جاتا تو عافیہ اپنی بوڑھی بیمار ماں سے آملتی، مگر افسوس کہ نہ تو پیپلزپارٹی کی حکومت نے عافیہ کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا اور نہ ہی ن لیگ حکومت نے کوئی اقدام کیا۔ میاں نواز شریف نے بحیثیت وزیراعظم عافیہ کو واپس لانے کا ان کی والدہ اور بہن سے وعدہ کیا تھا مگر وہ اپنا وعدہ بھول گئے۔
امریکا نے ہمارے علاقے میں ملا اختر منصور کو ڈرون حملے کے ذریعے ہلاک کردیا تھا، پھر اس کے پاس سے پاکستانی شناختی کارڈ کی موجودگی ہمارے لیے سخت شرمندگی کا باعث بنی تھی۔ دراصل ان واقعات سے ہی امریکا نے ہم پر طالبان کو پناہ دینے اور ان کے پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام لگانا شروع کیا تھا۔طالبان رہنماؤں کی پاکستان میں موجودگی کا ذکر ایک دفعہ امریکا کے اخبارات میں آنے سے مغربی میڈیا نے اس خبر کو پوری دنیا میں اچھالا تھا، جو ہمارے لیے سخت مشکل کا باعث بنی تھی۔ اس کے بعد ہمیں طالبان کے حوالے سے مشکوک نظروں سے دیکھا جانے لگا تھا۔
حقانی نیٹ ورک کے لوگوں کی ہماری سرزمین پر موجودگی کی خبریں مغربی میڈیا میں تواتر سے آتی رہیں۔ ان کا یہ کہہ کر دفاع کیا گیا کہ وہ اچھے طالبان ہیں جو پاکستان کا کہنا مانتے ہیں۔ ہماری یہ اچھے اور برے طالبان کی گردان ہمارے اپنے گلے پڑگئی ، چنانچہ امریکا نے ہمیں حقانی گروپ کا مددگار سمجھ کر ہم سے انھیں پاکستان سے باہر کرنے کا مطالبہ شروع کردیا، مگر اس پر کم ہی توجہ دی گئی، جب کہ امریکا مطالبہ بڑھاتا گیا۔
کچھ عرصہ قبل امریکی حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ آپریشن کی بات بھی کی گئی تھی، جسے ہماری طرف سے فوراً مسترد کردیا گیا۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ایک دفعہ ایک خاص مدت کے لیے مشترکہ آپریشن ہوجاتا تو پھر امریکا کبھی بھی ہم پر طالبان کی خفیہ پناہ گاہوں کی موجودگی کا الزام نہ لگا سکتا۔ اب حال یہ ہے کہ معاملات ٹرمپ کے ہاتھ میں آچکے ہیں، جو پہلے سے ہی پاکستان مخالف رجحان رکھتے ہیں۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ میاں نواز شریف نے وزارت خارجہ کا عہدہ خود اپنے پاس رکھ کر خارجہ امور کے سلسلے میں ملک کو لاوارث بنادیا تھا۔ غیر موثر کارکردگی کی وجہ سے پاکستانی سفارت کاری میں ایک طرح کا تعطل پیدا ہوگیا تھا جس کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اقوام متحدہ میں مسعود اظہر کے معاملے کو بھی صحیح طور پر ہینڈل نہ کیا جاسکا جس کی وجہ سے ناچار چین کے ویٹو کی مدد لینا پڑی۔ کشمیر کے سلسلے میں بھی ہماری خارجہ پالیسی غیر موثر رہی، کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہے مگر ہماری یہ وزارت عالمی برادری کو ان کا حق دلانے کی جانب مائل نہ کرسکی۔
وزارت خارجہ کے حوالے سے یہ بات بھی بڑی تکلیف دہ رہی کہ جب ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ افغانستان کے حوالے سے نئی پالیسی ترتیب دے رہے ہیں تو ہماری طرف سے اس سلسلے میں ٹرمپ انتظامیہ کو اپنا موقف سمجھانے کے لیے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، جب کہ ہم افغان مسئلے کے اہم فریق ہیں۔ ہماری عدم دلچسپی سے بھارت نے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور آخر نئی افغان پالیسی سراسر ہمارے خلاف بنی، جس کی بنیاد پر آج ٹرمپ ہمیں ذلیل و خوار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
اب اگرچہ حالات بگڑچکے ہیں مگر ناقابل تلافی نہیں ہیں۔ تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے، امریکا سے تعلقات کو ختم کرنے جیسے بیانات سے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوں گے، کیونکہ امریکا بہرحال سپر پاور ہے۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ دشمنوں کے لاکھ بہکانے کے بعد بھی امریکا نہ ہماری امداد مستقل طور پر بند کرسکتا ہے اور نہ تعلقات منقطع کرنے کا سوچ سکتا ہے۔ یہ بات خود امریکی اخبار اور تھنک ٹینکس بھی کہہ رہے ہیں۔ بہرحال اس وقت ہمیں ملک میں افراتفری کا عالم ختم کرکے مکمل قومی یکجہتی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
افسوس تو اس امر پر ہے کہ اس وقت جب ملک چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے اور ملک میں سی پیک جیسا گیم چینجر منصوبہ زیر عمل ہے، کچھ عناصر ملک میں انتشار اور عدم استحکام پیدا کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں قوم کو ضرور غور و فکر کرنا چاہیے۔