سیاسی تدبر کی ضرورت ناگزیر ہے
صاحب اقتدار اور سیاستدانوں کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ ملک ہے تو سب کی سلامتی ہے۔
لارڈ کلائیو کو انگریز مورخین برصغیر پاک و ہند میں انگریز حکومت کا بانی قرار دیتے ہیں، کلائیو نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز برصغیر کی کمپنی میں ایک کلرک کی حیثیت سے کیا تھا، لیکن اپنے تدبر اور ذہانت کی وجہ سے بہت جلد فوج میں ملازمت اختیار کرلی، اپنی صلاحیتوں اور کوششوں کی بنا پر کمیشن حاصل کیا۔
کلائیو ایک سپاہی نہیں بلکہ ایسا سیاستدان بن کر سامنے آیا جو حکمت عملی اور دور اندیشی کے تحت فتوحات حاصل کرتا ہے۔ کلائیو اپنی خوبیوں کی بنا پر دو بار بنگال کا گورنر بنا۔ ایک ہندو مورخ نے اس کے بارے میں اس طرح تاریخ رقم کی ہے کہ کلائیو اپنی کاوشوں اور صلاحیتوں کے باوجود منتظم کے طور پر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکا۔
اس کی وجہ مورخین یہ بتاتے ہیں کہ اس نے ہمیشہ وقتی فائدوں پر نظر رکھی اور اس کی بصیرت اپنے موجودہ زمانے تک محدود ہوکر رہ گئی، اسی وجہ سے وہ بڑی بڑی کوتاہیوں کا مرتکب رہا، اس نے کمپنی کے ملازمین کے لیے بہت سی سہولتیں فراہم کیں، ان کی بہتری اور حکومت کی کامیابی کے لیے احکامات جاری کیے، لیکن وہ بنگال کے لوگوں کی خوشی اور خوشحالی کے لیے خاطر خواہ کام نہ کرسکا۔
اس کی ذاتی خامیوں میں ایک خامی اس کی طمع اور فریب تھا، بنگال کی دولت لوٹنے میں وہ اخلاقی تقاضوں کو بھی فراموش کر بیٹھا، اس نے اپنے فائدے کے لیے واٹسن کے جعلی دستخط کرکے ایسا جرم کیا جس کی سزا انگلستان میں موت تھی، اس پر نجم الدولہ کے قتل کا بھی الزام لگا، اس نے کامیابیوں کے حصول کے لیے سازشوں کا جال بچھایا اور اپنی شاطرانہ چالوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت سے ان محاذوں پر جہاں مسلمانوں کی حکومت تھی، اپنے مقصد میں کامیاب ہوا اور اپنے مخالفین کو شکست دی، لیکن وہ اپنی قوم و ملک سے مخلص رہا، اور جائز و ناجائز طریقوں سے فائدہ پہنچاتا رہا، لارڈ میکالے کی نظر میں یقیناً یہ اس کی خوبیاں ہی تھیں جن کے ذریعے قوم نے فائدہ اٹھایا۔
اس کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لارڈ میکالے نے اسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری سرزمین پر شاید ہی کوئی اتنا عظیم شخص پیدا ہوا ہو جس قدر لارڈ کلائیو ہے۔کلائیو جنوری 1867 میں اپنے وطن انگلستان چلا گیا اور لوٹی ہوئی دولت سے عیش و طرب کی زندگی بسر کرنے لگا، لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ وہ خوشیوں بھری زیست سے جلد ہی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
ٹھیک چھ سال کے بعد حکومت نے کمپنی کے معاملات کو زیر بحث لانے اور جانچ پڑتال کے لیے ایک کمیشن مقرر کیا، جس میں 131 ارکان شامل تھے، اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ کمپنی میں کام کرنیوالوں کی بدعنوانیاں سامنے آگئیں، لہٰذا تحقیق کے بعد کلائیو پر بھی الزامات ثابت ہوگئے، اس طرح کلائیو کی نیک نامی بدنامی میں بدل گئی، وہ اپنی بے عزتی برداشت نہ کرسکا اور نومبر 1874 میں اس نے خودکشی کرلی۔
کسی بھی قوم کی تاریخ اس کی عزم و ہمت اور قومی غیرت کی کہانی رقم کرتی ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی، حیدر علی، ٹیپو سلطان نے اپنے دور سلطنت میں انگریزوں سے جنگیں لڑنے میں گزار دیں اور انگریز میر و جعفر کی مدد سے آگے بڑھتے اور شکست سے دوچار کرنے میں پیش پیش رہے۔
ہندوستان ان کا ملک نہیں تھا، لیکن وہ ہندوستان پر مسلط ہونے کے لیے نئے نئے حربے آزما رہے تھے اور ایک دن وہ بھی آیا جب مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر انگریزوں کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور انگریز ہندوستان پر قابض ہوگئے۔ ایسے حالات اندرونی خلفشار اور میر و جعفر جیسے غداروں کی وجہ سے ہوئے اور آج بھی حالات مختلف نہیں ہیں۔ غداری کی کہانی کی ابتدا تو اسی وقت شروع ہوگئی تھی جب پاکستان وجود میں آیا اور انگریز اپنی نت نئی چالیں چلنے میں بازی لے گیا اور پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو قتل کردیا گیا۔
پاکستان کی بنیاد پڑتے ہی میر جعفر مختلف شکلوں میں روپ دھار کر نمودار ہوئے اور پاکستان دولخت ہوگیا، ہندوستان کو پاکستان کی آزادی ایک آنکھ نہ بھائی تھی، اس نے جانی و مالی نقصان کیا اور پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے مسلمانوں کو ہی استعمال کیا۔ استعمال ہونے والے مسلمان یقیناً نام کے ہی مسلمان تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو حالات کچھ اور ہوتے۔
انگریزوں کی کامیابیاں دور اندیشی، چالاکی، بے ضمیری اور منصوبہ بندی کی وجہ سے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ مسلم امہ اگر جاگ گئی تو ان کا وجود باقی نہ رہے گا، انھیں قرآن پاک کی حقانیت اور پیش گوئیاں پریشان کرتی ہیں کہ جنگ بدر اور 1965 کی جنگ کو وہ فراموش نہیں کرسکے ہیں، جب اللہ تعالیٰ نے بدر کے میدان میں فرشتوں کی فوج کو مسلمانوں کی مددگار بنادیا تھا۔
اسی طرح 65 میں غازیوں اور ہندوستانی فوج نے حیرت انگیز منظر دیکھا کہ معاون و مددگار دوسری فوج بھی دشمن کے سامنے ہے۔ مسلمانوں کی ذہانت اور صلاحیتیں بھی ان کا سکون غارت کر رہی ہیں۔ حال ہی میں ایک مصری بچے عبدالرحمن جس نے صرف 8 منٹ میں ریاضی کے 230 سوالات حل کرلیے۔
ارفع کریم، مریم مختار جیسی عظیم ہستیوں کے کارناموں نے انھیں خوفزدہ کردیا ہے کہ کہیں اسلامی مملکتیں ترقی کی دوڑ میں آگے نہ نکل جائیں۔ ان حالات میں جب ہر طرف سے گولہ بارود کی بو آتی محسوس ہورہی ہے۔ ہمارے حکمران ایسے ایسے بیانات دے رہے ہیں کہ جیسے دشمنوں کو سمجھایا جارہا ہے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی تو نہیں ہے کہ پاکستان چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے۔
ایک طرف بھارت ہے جو ہر روز سرحد پر بے قصور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے، فوجی شہید ہو رہے ہیں، ملک کی سالمیت کے لیے۔ فوج اندرونی اور بیرونی خطرات اور دہشت گردی سے ہر روز نمٹ رہی ہے۔ اﷲ افواج پاکستان کا حوصلہ یوں ہی بلند رکھے، وہ شہادت کے جذبے سے سرشار ہوکر دشمن کے سامنے سیسہ پلائی تلوار بن کر کھڑے ہیں۔
صاحب اقتدار اور سیاستدانوں کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ ملک ہے تو سب کی سلامتی ہے، ورنہ ہندوستان پر نظر ڈال لیجیے کس قدر تنگ نظری سفاکی اور نفرت کا اظہار گلی کوچوں میں نظر آتا ہے۔ نہ شخصی آزادی اور نہ مذہبی آزادی، مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں۔ میانمار اور کشمیر کی خوں ریزی ساتھ میں عراق اور شام کی تباہی، ایران کو کمزور کرنے کے لیے بہت تیزی سے کام اور دخل اندازی ہو رہی ہے۔ اب پاکستان کھٹک رہا ہے، کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے آگے بڑھنے کے خواب دیکھ رہے ہیں جوکہ انشا اللہ کبھی ان کی تعبیر نہیں مل سکے گی۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکا کو صاف لفظوں میں بتا دیا ہے کہ ٹرمپ کی کوئی دھمکی پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان امریکی صدر کے غیر ذمے دارانہ الزامات کے باوجود پاکستان جلد بازی میں کوئی قدم نہیں اٹھائے گا اور پاکستان کو افغانستان میں ناکامی کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔
ایسے حالات میں حکمت عملی اور دانشوری کی ضرورت ہے، آزادی اور خودمختاری وہ انمول خزانہ ہے، جس کا کوئی بدل نہیں۔ اس کے تحفظ کے لیے اتحاد کی ضرورت ہے ، دوست دشمن کی پہچان ضروری ہے چونکہ گھر کے ہی چراغ سے گھر کو آگ لگ جاتی ہے، قدم قدم پر میر و جعفر گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ جمی جمائی بساط کو الٹ دیں لیکن ایسا ہوگا نہیں۔ پاک فوج وطن عزیز کی حفاظت کے لیے ہر لمحہ تیار اور تازہ دم ہے۔ دشمن کے عزائم خاک میں ملنے میں دیر نہیں لگے گی۔