غیر معیاری پانی کے باعث
2025ء تک ملک میں پینے کے پانی کی شدید قلت کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
قبل اس کے کہ ہم اپنے آج کے موضوع کی جانب آئیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ متعلقہ حکام کی توجہ ایک اہم مسئلے کی جانب دلائی جائے، اور یہ مسئلہ ATM سے متعلق ہے۔ ATM بلاشبہ ایک بہت بڑی سہولت ہے کہ آپ جب چاہیں اپنی ضرورت کے مطابق مطلوبہ رقم نکلوا سکتے ہیں۔
شب و روز کی بھی کوئی قید نہیں، یعنی ہمہ وقت ATM سے رقم نکلوانے کی سہولت عوام کو حاصل ہے۔ مگر گزشتہ شب میرے بھتیجے سے فون پر گفتگو ہوئی جس نے ایک اہم مسئلے کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے سات جنوری 2018ء کو ایک بینک سے منسلک اے ٹی ایم سے چند ہزار روپے کی رقم نکلوائی، مگر ہوا یہ کہ اس رقم میں ہزار روپے کا ایک نوٹ جعلی بھی نکل آیا۔
بھتیجے نے متعلقہ بینک افسران سے بھی رابطہ کیا مگر کوئی بھی اس معاملے کی ذمے داری لینے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے تو ایک ہزار روپے کا نقصان برداشت کرلیا لیکن مستقبل میں اسی قسم کا واقعہ کسی اور قلیل آمدنی والے شخص کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے۔ تو پھر کیا ہوگا؟ یہ ممکن ہے کہ نوٹ 5 ہزار کا بھی ہو، ایسے میں کسی غریب کی ایک ماہ کی نصف اجرت اے ٹی ایم کی نذر ہوجائے گی۔ امید ہے متعلقہ حکام اس اہم مسئلے کی جانب توجہ دے کر لوگوں کی شکایات کا ازالہ کریں گے۔
اب ہم آتے ہیں اپنے آج کے موضوع کی جانب۔ میرے سامنے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کی ایک رپورٹ ہے جس کے مطابق یہ دلخراش حقیقت بیان کی گئی ہے کہ پاکستان میں 53 ہزار نونہال فقط اس لیے اس جہان سے ناتا توڑ لیتے ہیں کہ ان معصوموں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔ آلودہ پانی پینے سے ایک برس میں 53 ہزار، ایک ماہ میں چار ہزار پانچ سو، ایک یوم میں ایک سو پچاس بچے موت کی وادیوں میں چلے جاتے ہیں۔ یونیسف کی اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 30 سے 40 فیصد لوگ فقط غیر معیاری پانی پینے کے باعث مختلف امراض کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنی قلیل ترین آمدنی کا ایک بڑا حصہ امراض کے علاج معالجے پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ آج سے 20 یا 30 برس قبل پینے کے پانی کی نایابی کا تذکرہ ہوتا تو عام لوگ سندھ کے علاقے تھر کا نام لیتے، پھر گزرتے وقت کے ساتھ یہ ہوا کہ تھر میں تو پینے کے پانی کی نایابی کا مسئلہ تو حل نہ ہوا، کیونکہ تھر میں آج بھی کیفیت یہ ہے کہ غلیظ ترین جنگلی جانور و تھری عوام ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں، فرق یہ ہے کہ جنگلی جانور اپنی مرضی سے اس گھاٹ پر پانی پیتے ہیں جب کہ تھری عوام وہ پانی بحالت مجبوری پیتے ہیں۔ وہ پانی کتنا غیر معیاری ہوتا ہے، ہمارے خیال میں وہ شخص جس کا تعلق تھر سے نہ ہو وہ پانی دیکھ کر ہی اپنے پیٹ میں کھایا پیا سب اگل دے گا۔
ضروری تھا کہ تھری علاقے میں اپنی ڈیوٹیاں انجام دینے والے وہ افسران جوکہ شب بیداری کرتے ہیں اور پورا دن استراحت فرماتے ہیں، ان افسران کے ساتھ ساتھ صوبے کے اعلیٰ حکام تھری عوام کے لیے پینے کے پانی و دیگر بنیادی سہولیات مہیا کرنے کی کوشش کرتے۔ البتہ ہوا اس کے برعکس، کیونکہ اب یہ پینے کے پانی کا مسئلہ پورے ملک کا مسئلہ بن چکا ہے۔ گویا لاہور، گوجرانوالہ، ملتان، فیصل آباد، سرگودھا، راولپنڈی سمیت پورے پنجاب میں لوگ آلودہ پانی پینے کے باعث پیٹ کے امراض میں مبتلا ہوچکے ہیں، جب کہ لاہور شہر کے پاس سے بہنے والا دریائے راوی بھی بدترین آلودگی کا شکار ہوچکا ہے۔
اب ہم تذکرہ کریں گے پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی ہب کراچی کا۔ کچھ لوگوں نے کراچی شہر کو کچراچی بھی لکھنا شروع کردیا ہے۔ کراچی کی کیفیت یہ ہے کہ اس شہر کے عوام دن بھر سخت محنت و مشقت سے فراغت پاکر شام کو اپنے گھروں میں جاکر آرام نہیں کرتے بلکہ شب بیداری کرتے ہوئے حصول پانی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اگر پانی کے حصول میں کامیاب ہوگئے تو ٹھیک، بصورت دیگر سخت مایوسی کے عالم میں اگلی صبح شہریوں سے ایک اور سخت محنت و مشقت کی طالب ہوتی ہے۔
اگر یہ شہری پانی کے حصول میں کامیاب بھی ہوجائیں تو اس پانی کے معیاری ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ یہ تذکرہ ان علاقوں کا ہے جہاں ہفتے بھر میں ایک دو بار پانی دستیاب ہوجاتا ہے، البتہ کراچی کے اکثر علاقے ایسے ہیں جہاں کے رہائشی اپنی مدد آپ کے تحت پینے کے پانی کا اہتمام کرتے ہیں۔ راقم خود ایسے علاقے میں سکونت رکھتا ہے جہاں پینے کا پانی نایاب ہے اور جو پانی دستیاب ہے وہ ہے 19 لیٹر پانی کا ایک گیلن 30 روپے میں۔
2025ء تک ملک میں پینے کے پانی کی شدید قلت کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ عوام کے مسائل کا حل آخر ہے کس کے پاس؟ کیونکہ پنجاب میں گزشتہ دس برس سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے، سندھ میں کیفیت یہ ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی گزشتہ دس برس سے برسر اقتدار ہے، جب کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی اپنی پانچ سالہ حکومتی مدت پوری کرنے جا رہی ہے، اس کے باوجود عوامی مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے، جب کہ پی ٹی آئی کا تو نعرہ ہی ملک میں تبدیلی لانے کا ہے۔ آخر ہمارے مسائل کا حل کس کے پاس ہے؟
اس وزیراعظم کے پاس جو آٹھ جنوری کو کوئٹہ میں 63 گاڑیوں کے پروٹوکول کے ساتھ داخل ہوتا ہے یا مسلم لیگ (ن) کے اس سربراہ کے پاس جس کے لیے اس کی آمد سے کئی گھنٹے قبل ہی رائے ونڈ روڈ عام لوگوں کے لیے بند کردیا جاتا ہے یا پیپلز پارٹی کے اس چیئرمین کے پاس جسے وقت سے دس برس قبل ہی ملکی سیاست میں داخل کردیا گیا ہے یا پھر پی ٹی آئی کے چیئرمین کے پاس جسے عام انتخابات سے چھ ماہ قبل ہی وزیراعظم کے مساوی پروٹوکول حاصل ہے۔
ہمارے خیال میں ہمارے مسائل کا حل کسی بھی نامور لیڈر کے پاس نہیں ہے۔ البتہ ہمارے مسائل کا حل ہمارے پاس ہے کہ ہم اپنی صفوں میں ایسی قیادت پیدا کریں جسے ہمارے مسائل کا ادراک بھی ہو، جس میں ہمارے مسائل حل کرنے کی صلاحیت بھی ہو۔