زینب تجھ سے وعدہ ہے
اے ننھی زینب! عوام تجھے کبھی نہیں بھولیں گے۔
سوچا تھا زینب کا ذکر نہیں کروں گا۔ ننھی منی بچی زینب کا ذکر کیا کروں! کیسے کروں! جو ہونا تھا، وہ ہو بھی چکا، اب کاہے کے نیر بہانا، جس تن لاگے، وہ تن جانے۔ زینب کے باپ اور ماں پر کیا گزر رہی ہوگی، وہی جانیں۔ مگر ایسا بھی نہیں ہے۔ زینب کے لیے دنیا سوگوار ہے، اشکبار ہے۔ زینب سے پہلے بھی اسی شہر قصور میں گیارہ گھناؤنے واقعات ہوچکے ہیں۔ زینب پر لکھتے ہوئے ابھی بھی میرا قلم رک رہا ہے۔ معصوم بچی پر کیا لکھوں، انتہائی بربریت کا شکار ہوجانے والی بچی زینب۔
زینب! کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ ایسا اندھیرا ہے کہ بس! یہ دنیا ہے! یہ دنیا بنائی! دنیا بنانے والے نے! ایسی دنیا بنانے کی ضرورت کیا تھی؟ مشرق ہو، مغرب ہو، ظالم و جابر دندناتے پھر رہے ہیں۔ کیا پڑھے لکھے، کیا ان پڑھ، ظلم و بربریت میں سب ایک برابر۔ ڈگریاں انسان نہیں بناتیں! آج تک دنیا نے جتنے بھی ظالم دیکھے ہیں، دھرتی پر جو بھی قہر ٹوٹے ہیں، سب ڈگریوں والے تھے۔ جنھوں نے ظلم کے پہاڑ توڑے اور دنیا کی دھرتی کو بھسم کر ڈالا۔
زینب بھی لاقانونیت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ 70 سال میں جو بھی حکمران پاکستان میں آئے انھوں نے صرف لوٹ مار کی۔ صرف اپنے گرد حفاظتی حصار کھینچے، خود کو اور اپنے خزانوں کو محفوظ کیا اور باقی تمام شہریوں کو ''حالات'' کے سپرد کردیا، حاکموں اور ان کے حاشیہ برداروں کے گرد حصار میں پرندہ بھی پر نہ مار سکے، اور انھی لوٹ مار کرنے والے حکمرانوں نے جان بوجھ کر ایسے ''انتظامات'' کیے کہ عام شہری ہر ظلم، ہر ستم چپ رہ کر سہتا رہے۔
پولیس والوں کا کوئی قصور نہیں، پولیس کا نظام اگر خراب ہے تو اس کے سو فیصد ذمے دار یہی حکمران ہیں۔ پولیس کا فرض عوام کے جان و مال کی حفاظت ہے، مگر پولیس ایسا نہیں کرتی، پولیس کو حکمرانوں کی حفاظت سے فرصت نہیں ملتی، وہ عوام کا اچار ڈالے! حکمرانوں کی حفاظت کرکے پولیس کو پیسے ملتے ہیں۔
قصور شہر کے دو کلو میٹر علاقے میں بارہ بلکہ اب تیرہ وارداتیں ہوچکی ہیں اور پولیس ناکام ہے۔ یہ ناکامی ''مجبوری'' بھی ہے۔ پولیس ''سب کچھ'' جانتی ہے، مگر ''اوپر'' سے مجبور ہے۔ ''اوپر'' والے بھی جانتے ہیں کہ ''برائی کے اڈے'' کیسے چلتے ہیں، اور انھیں کون چلاتا ہے۔ہمارے پاکستان میں ہر سطح پر انقلاب ضروری ہے۔ اب تو کوئی دوسری صورت باقی نہیں رہی۔
اے زینب! اے ننھی پری! لگتا ہے تیری قربانی ہی رنگ لے آئے گی، تیری لرزہ خیز موت ہی ملک کی حیات بن جائے، ہمیں جھوٹ، فریب، دھوکے بازوں، لٹیروں، قاتلوں، قابضوں (یہ جو صدیوں سے اللہ کی زمین پر قابض ہیں) ان کے فارم ہاؤس ہیں، محل ماڑیاں ہیں، اسلحہ خانے ہیں، نشے میں دھت محافظ ہیں۔ جب تک ان ''قابضوں'' کا خاتمہ نہیں ہوگا، یہاں انصاف قائم نہیں ہوسکتا۔
اے لوگو! اے عوام! ہمارے حصے بھی یہ غاصب، قابض، غصب کرچکے ہیں، ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے سوا اب کوئی چارہ نہیں اور یہ جو عوام کے مہربان بن کر ابھر کر سامنے آرہے ہیں، یہی عمران خان، طاہر القادری، ان کا بھی محاسبہ ہمیں (عوام کو) کرنا ہوگا۔ ''نہ فریب دے سکے گی ہمیں اب کسی کی چاہت'' (جالبؔ)
اتنا اندھیرا! وہ ویڈیو دیکھ کر کلیجہ پھٹتا ہوا سا محسوس ہوتا ہے۔ ننھی زینب جس مکروہ درندے کا ہاتھ پکڑے جا رہی ہے۔ زینب نہیں جانتی تھی اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ اور وہ درندہ۔۔۔۔!
وہ مل جائے تو اسے وہ سزا دی جائے جو اب تک کسی کو نہ دی گئی ہو۔ گھر گھر زینب بیٹھی ہے۔ سارے ماں باپ، بہن بھائی، دادا دادی، نانا نانی پریشان ہیں۔ پریشان کیا بلکہ اس صورتحال کو جس میں گھر مبتلا ہے، کچھ اور الفاظ دیے جائیں۔ پے درپے ان واقعات نے یہ ماحول بنا دیا ہے۔ پولیس نے پھر سیدھے فائر کردیے۔ نتیجتاً دو افراد مارے گئے۔ پانچ زخمی ہوگئے۔ مرنے والوں کی نماز جنازہ محلے کے مولوی صاحبان کو پڑھانا چاہیے تھی۔ طاہر القادری اور خادم حسین رضوی نے نماز جنازہ اور سیاسی بات چیت کرکے اپنا آپ ہی خراب کیا ہے۔ ان حضرات کو فاتحہ کے لیے مرحومین کے گھر جانا چاہیے تھا۔ بہرحال عوام سب دیکھ رہے ہیں۔ عوام کو چاروں طرف سے ظالموں نے گھیر رکھا ہے، اور فی الحال بچانے والا کوئی نہیں ہے، مگر یہیں سے لوگ نکلیں گے، عوامی انقلاب برپا ہوکر رہے گا، اب یہ سیلاب رکنے والا نہیں ہے۔
پتا نہیں شاعر صہباؔ اختر کس کرب سے دکھ سے گزرے ہوں گے کہ انھوں نے یہ مصرعے لکھے تھے۔ وہی کرب وہی دکھ آج زینب کے یوں جانے پر ہے۔ کروڑوں آنکھیں اشکبار ہیں:
سورج کو آنسوؤں کے سمندر میں پھینک دوں
جو میرا بس چلے تو ستاروں کو نوچ لوں
جھوٹے ہیں سب چراغ، اندھیرا ہے زندگی
اے جھوٹ، اے فریب کی دنیا تجھے سلام
تیرے ہیں تو سنبھال یہ سارے صبح و شام
تجھ کو قبول، تجھ کو گوارا ہے زندگی
زندگی، زندگی، زندگی
اے ننھی زینب! عوام تجھے کبھی نہیں بھولیں گے۔ تیری ذات نے آزادی کے جو چراغ روشن کیے ہیں، ان چراغوں کے اجالوں میں کوئی ظالم جابر، لٹیرا، قابض، غاصب چھپ نہیں سکے گا، ایک ایک ظالم اپنے انجام کو پہنچے گا۔
میری بچی! ہم ترے خون کا بدلہ لیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ یہ عوام کا تجھ سے وعدہ ہے۔ اور سب جانتے ہیں کہ عوام نے جب جب عہد کیا ہے، اسے پورا کیا ہے۔
زینب! کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ ایسا اندھیرا ہے کہ بس! یہ دنیا ہے! یہ دنیا بنائی! دنیا بنانے والے نے! ایسی دنیا بنانے کی ضرورت کیا تھی؟ مشرق ہو، مغرب ہو، ظالم و جابر دندناتے پھر رہے ہیں۔ کیا پڑھے لکھے، کیا ان پڑھ، ظلم و بربریت میں سب ایک برابر۔ ڈگریاں انسان نہیں بناتیں! آج تک دنیا نے جتنے بھی ظالم دیکھے ہیں، دھرتی پر جو بھی قہر ٹوٹے ہیں، سب ڈگریوں والے تھے۔ جنھوں نے ظلم کے پہاڑ توڑے اور دنیا کی دھرتی کو بھسم کر ڈالا۔
زینب بھی لاقانونیت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ 70 سال میں جو بھی حکمران پاکستان میں آئے انھوں نے صرف لوٹ مار کی۔ صرف اپنے گرد حفاظتی حصار کھینچے، خود کو اور اپنے خزانوں کو محفوظ کیا اور باقی تمام شہریوں کو ''حالات'' کے سپرد کردیا، حاکموں اور ان کے حاشیہ برداروں کے گرد حصار میں پرندہ بھی پر نہ مار سکے، اور انھی لوٹ مار کرنے والے حکمرانوں نے جان بوجھ کر ایسے ''انتظامات'' کیے کہ عام شہری ہر ظلم، ہر ستم چپ رہ کر سہتا رہے۔
پولیس والوں کا کوئی قصور نہیں، پولیس کا نظام اگر خراب ہے تو اس کے سو فیصد ذمے دار یہی حکمران ہیں۔ پولیس کا فرض عوام کے جان و مال کی حفاظت ہے، مگر پولیس ایسا نہیں کرتی، پولیس کو حکمرانوں کی حفاظت سے فرصت نہیں ملتی، وہ عوام کا اچار ڈالے! حکمرانوں کی حفاظت کرکے پولیس کو پیسے ملتے ہیں۔
قصور شہر کے دو کلو میٹر علاقے میں بارہ بلکہ اب تیرہ وارداتیں ہوچکی ہیں اور پولیس ناکام ہے۔ یہ ناکامی ''مجبوری'' بھی ہے۔ پولیس ''سب کچھ'' جانتی ہے، مگر ''اوپر'' سے مجبور ہے۔ ''اوپر'' والے بھی جانتے ہیں کہ ''برائی کے اڈے'' کیسے چلتے ہیں، اور انھیں کون چلاتا ہے۔ہمارے پاکستان میں ہر سطح پر انقلاب ضروری ہے۔ اب تو کوئی دوسری صورت باقی نہیں رہی۔
اے زینب! اے ننھی پری! لگتا ہے تیری قربانی ہی رنگ لے آئے گی، تیری لرزہ خیز موت ہی ملک کی حیات بن جائے، ہمیں جھوٹ، فریب، دھوکے بازوں، لٹیروں، قاتلوں، قابضوں (یہ جو صدیوں سے اللہ کی زمین پر قابض ہیں) ان کے فارم ہاؤس ہیں، محل ماڑیاں ہیں، اسلحہ خانے ہیں، نشے میں دھت محافظ ہیں۔ جب تک ان ''قابضوں'' کا خاتمہ نہیں ہوگا، یہاں انصاف قائم نہیں ہوسکتا۔
اے لوگو! اے عوام! ہمارے حصے بھی یہ غاصب، قابض، غصب کرچکے ہیں، ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے سوا اب کوئی چارہ نہیں اور یہ جو عوام کے مہربان بن کر ابھر کر سامنے آرہے ہیں، یہی عمران خان، طاہر القادری، ان کا بھی محاسبہ ہمیں (عوام کو) کرنا ہوگا۔ ''نہ فریب دے سکے گی ہمیں اب کسی کی چاہت'' (جالبؔ)
اتنا اندھیرا! وہ ویڈیو دیکھ کر کلیجہ پھٹتا ہوا سا محسوس ہوتا ہے۔ ننھی زینب جس مکروہ درندے کا ہاتھ پکڑے جا رہی ہے۔ زینب نہیں جانتی تھی اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ اور وہ درندہ۔۔۔۔!
وہ مل جائے تو اسے وہ سزا دی جائے جو اب تک کسی کو نہ دی گئی ہو۔ گھر گھر زینب بیٹھی ہے۔ سارے ماں باپ، بہن بھائی، دادا دادی، نانا نانی پریشان ہیں۔ پریشان کیا بلکہ اس صورتحال کو جس میں گھر مبتلا ہے، کچھ اور الفاظ دیے جائیں۔ پے درپے ان واقعات نے یہ ماحول بنا دیا ہے۔ پولیس نے پھر سیدھے فائر کردیے۔ نتیجتاً دو افراد مارے گئے۔ پانچ زخمی ہوگئے۔ مرنے والوں کی نماز جنازہ محلے کے مولوی صاحبان کو پڑھانا چاہیے تھی۔ طاہر القادری اور خادم حسین رضوی نے نماز جنازہ اور سیاسی بات چیت کرکے اپنا آپ ہی خراب کیا ہے۔ ان حضرات کو فاتحہ کے لیے مرحومین کے گھر جانا چاہیے تھا۔ بہرحال عوام سب دیکھ رہے ہیں۔ عوام کو چاروں طرف سے ظالموں نے گھیر رکھا ہے، اور فی الحال بچانے والا کوئی نہیں ہے، مگر یہیں سے لوگ نکلیں گے، عوامی انقلاب برپا ہوکر رہے گا، اب یہ سیلاب رکنے والا نہیں ہے۔
پتا نہیں شاعر صہباؔ اختر کس کرب سے دکھ سے گزرے ہوں گے کہ انھوں نے یہ مصرعے لکھے تھے۔ وہی کرب وہی دکھ آج زینب کے یوں جانے پر ہے۔ کروڑوں آنکھیں اشکبار ہیں:
سورج کو آنسوؤں کے سمندر میں پھینک دوں
جو میرا بس چلے تو ستاروں کو نوچ لوں
جھوٹے ہیں سب چراغ، اندھیرا ہے زندگی
اے جھوٹ، اے فریب کی دنیا تجھے سلام
تیرے ہیں تو سنبھال یہ سارے صبح و شام
تجھ کو قبول، تجھ کو گوارا ہے زندگی
زندگی، زندگی، زندگی
اے ننھی زینب! عوام تجھے کبھی نہیں بھولیں گے۔ تیری ذات نے آزادی کے جو چراغ روشن کیے ہیں، ان چراغوں کے اجالوں میں کوئی ظالم جابر، لٹیرا، قابض، غاصب چھپ نہیں سکے گا، ایک ایک ظالم اپنے انجام کو پہنچے گا۔
میری بچی! ہم ترے خون کا بدلہ لیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ یہ عوام کا تجھ سے وعدہ ہے۔ اور سب جانتے ہیں کہ عوام نے جب جب عہد کیا ہے، اسے پورا کیا ہے۔