ملاوٹ
فہرست پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ہم غذا کے نام پرکیسا مہلک زہر کھا رہے ہیں۔
اس قوم کی قوتِ برداشت کمال ہے۔ لگتا ہے کسی آخری حدکا وجود ہی نہیں ہے۔ ہر چر کہ، ظلم، ناانصافی اور قیامت گزرنے کے بعد بھی ویسی کی ویسی۔ بے جان پتھر۔ کوئی چنگاری ہی نہیں جو آگ بن کر ظالموں کو جلا کر بھسم کر ڈالے۔ برصغیر کی تاریخ بھی ایسی ہی ہے۔ ہمارا اصل ہیرو کون ہے۔ اس کے متعلق بھی کچھ کہنا عبث ہے۔
وسطی ایشیا کے ڈاکو، رہزن اور ہارے ہوئے بادشاہ، ہماری قسمتوں کے مالک بن گئے۔ تاریخ بھی عجیب ہے۔ جسے ولن ہونا چاہیے تھا، وہ نجات دہندہ قرار دیا گیا۔ شائد ہمارے ''جینز'' میں کوئی کمی ہے۔ بڑی باتیں، بڑے فیصلے چھوڑ دیجیے، معمولی ترین مسائل ملک کو اژدھے کی طرح نگل چکے ہیں لیکن قوم کی نیندہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی۔
بڑھتی آبادی پر کیا تبصرہ کیا جائے۔ ایک سیلاب ہے جس میں ملک کی ممکنہ ترقی غوطے کھا رہی ہے۔ آج تک کسی سیاسی پارٹی کے قائد نے کھل کر یہ نہیں کہا کہ اس شرح سے بڑھتی ہوئی آفت کو کیسے کنٹرول کرے گا۔ کوئی چین کی مثال تک نہیں دیتا۔ جہاں بچوں کی پیدائش پر سخت قانون سازی ہوئی تھی۔ چند دہائیوں میں چین میں اس عفریب کو قابو کر لیا گیا تھا مگر یہاں تو چین جیسی قانون سازی کی کوئی ہمت ہی نہیں کر سکتا۔ ہم سیکھنے کی حد سے بھی گزر چکے ہیں۔ کوئی اُمید نہیں کہ کوئی بھی قومی لیڈر ہمارے اس مہیب مسئلے پر عملی اقدامات اُٹھانے کی جرات کر پائے گا۔
سوال یہ ہے کہ ان بائیس کروڑ افراد کو غربت سے کیسے نکلا جائیگا۔ اب تک گزارہ صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کافی حد تک موجود ہیں لیکن دو دہائیوں میں آبادی تقریباً دوگنی ہو جائے گی۔ چالیس کروڑ لوگوں کی موجودگی میں ملک سانس کیسے لے پائیگا۔ اس کے متعلق سوچنے کی کسی کو فرصت نہیں۔
ان تمام معاملات کو چھوڑ دیجیے۔ صرف یہ غورکیجیے، کہ آپ کیا کھا رہے ہیں اور آپ کے بچے اور اہل خانہ کیسی غذا استعمال کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے اس پر کبھی سوچا ہو مگر گمان ہے کہ اکثریت کو اندازہ ہی نہیں کہ وہ اپنے پیاروں کو زہردے رہے ہیں۔ اس زہرکا نام ہے "Processed Food" یعنی کھانے پینے کی وہ اشیاء جن کو فروخت کرنے سے پہلے ایک خاص مصنوعی نظام سے گزارا جاتا ہے۔
کوئی نہ کوئی کیمیکل، رنگ، ذائقہ اور اس طرح کی بے شمار خصوصیات مصنوعی طریقے سے پیدا کی جاتی ہیں۔ جسے ڈبے میں سیب کا جوس سمجھ رہے ہوتے ہیں، وہ قطعاً سیب کا جوس نہیں۔ اس میں محض ذائقہ پیدا کر کے لوگوں کو دھوکا دیا جاتا ہے۔ ہمارے جیسے بے خبر لوگ ان اشیاء کو خوشی سے استعمال کرتے ہیں۔
ایسے تمام ممالک جن میں نظامِ حکومت عام لوگوں کی حفاظت، ترقی اور فلاح پر قائم کیا گیا ہے۔ وہاں پروسیسڈ فوڈ کے متعلق انتہائی منفی رجحانات پائے جاتے ہیں۔ یوکے، ناروے، امریکا، جرمنی اور دیگر مغربی ممالک ایسی تمام اشیاء پر پابندی لگا چکے ہیں جن میں مضرِصحت کیمیکل کسی بھی صورت میں استعمال کیا گیا ہو۔ ڈاکٹر جیسن کالٹن اور میراکالٹن نے ایک فہرست شایع کی ہے جس میں تمام مضرِصحت اشیاء کی نشاندہی کی گئی ہے۔
مغربی حکومتوں نے ان تمام پر پابندی عائد کر دی ہے مگر ہمارے ہاں کسی کو اس فہرست پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ فہرست پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ہم غذا کے نام پرکیسا مہلک زہر کھا رہے ہیں۔ سوڈا، سافٹ ڈرنککس، پنیر اور دیگر اشیاء کو خاص رنگ دینے کے حوالے سے پٹرولیم سے کشید ایک کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے۔
امریکی صحت عامہ کے شعبوں نے اس کو زہر قرار دے کر مکمل طور پر ختم کر دیا ہے مگر ہمارے ملک میں کھانے پینے کی اشیاء میں یہ کیمیکل بے رحمی سے استعمال ہو رہا ہے۔ کیا کیک اور کیا بیکری میں بنی ہوئی مہنگی اشیاء۔ تمام خطرناک حد تک مضرِصحت ہیں کیونکہ ہم لوگوں کو جانورکی سطح پر زندہ رہنے کے لیے مجبور کر دیا گیا ہے۔ لہذا مقامی سطح پر کوئی پوچھ گچھ نہیں ہے۔
کئی اشیاء پر انتہائی دیدہ زیب طریقے سے لکھا ہوتاہے کہ اس میں کسی قسم کی کوئی چربی نہیں ہے یعنی یہ Fat Free ہیں۔ ان اشیاء کو فروخت کرنے کے لیے اربوں روپے کے اشتہار چلائے جاتے ہیں۔ امیر لوگ خوش ہو کر یہ خریدتے ہیں۔ اکثر اوقات، چربی کی جگہ Olestra استعمال ہوتا۔ آئس کریمز پر بھی لکھا ہوتا ہے کہ اس میں موٹاپا پیدا کرنے والی کوئی چیز استعمال نہیں کی گئی۔ مگر Olestra خطرناک ترین کیمیکل ہے جس سے آنتوں کے کینسرکی ابتداء ہو سکتی ہے۔
لندن میں کوئی بھی چیز جس میں Olestra استعمال ہوئی ہو، اسے ممنوع قرار دیا گیا ہے مگر پاکستان میں بے دھڑک استعمال کیا جا رہا ہے۔ کسی کو کوئی پروا نہیں۔ ہماری مٹھائیاں جیسے بنتی ہیں، اسے دیکھ کر کوئی باشعورانسان کبھی مٹھائی کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔ پورے پاکستان میں ایک بھی مٹھائی بنانے والا کارخانہ یا دکاندار، ڈبے پر لکھنے کے لیے تیار نہیں کہ اس میں کونسے کیمیکلز اور اجزاء استعمال ہوئے ہیں۔ بڑی سے بڑی دکان پر چلے جائیے۔ بالکل ایک جیسے حالات ہیں کیونکہ ملک میں خریدار کے کوئی حقوق نہیں، لہذا ہرکونے میں، مضرِصحت مٹھائی بکتی چلی جا رہی ہے۔
آپ کو میری عرضداشت پر یقین نہیں توکسی جگہ سے بھی اس شیرینی یا مٹھائی کا لیبارٹری ٹیسٹ کرالیں۔ ہوش ٹھکانے آجائینگے۔ ہمارے ہاں توغفلت کی انتہا یہ ہے کہ چائے کو دودھیا رنگ دینے والے کیمیکل کو دودھ کی جگہ خوشی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بوتل والے پانی کے اندر بھی مضرِصحت اجزاء موجود ہیں۔ کسی میٹنگ میں چلے جائیے، پانی بوتلیں سجائی ہوئی نظرآئینگی۔ لوگ ان کو پینا زندگی کا حصہ بنا چکے ہیں۔ مگرپانی کے اندرکیا کیا کچھ ملایا گیا ہے، کوئی اس پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ شائدآپکے لیے خبر ہو کہ ہمارے ملک سے گرمیوں میں استعمال ہونے والا ایک شربت، جاپان ایکسپورٹ کیا گیا۔ وہاں فروخت سے پہلے اس کا تجزیہ کیا گیا۔
جاپان کی تمام لیباٹریوں نے اسے مضرِصحت قرار دیا۔ یہاں تک لکھا گیاکہ انسان تو کیا، اسے جانوروں کو بھی نہیں پلایا جا سکتا۔ جاپانی حکومت نے وہ تمام شربت سمندرمیں ضایع کر دیا۔ جس کمپنی نے اسے منگوایا تھا،اسے بھی جرمانہ ہوا۔ مگرہمارے عظیم ملک میں وہی شربت دھڑلے سے بیچا جا رہا ہے۔ چند مثالیں دیکرعرض کروں گا کہ جوکچھ ہم کھا رہے ہیں، اس سے مہلک بیماریوں میں حددرجہ اضافہ ہو رہا ہے۔ غورکیجیے۔ کینسر، شوگر، بلڈپریشر جیسی بیماریاں وباء کی طرح کیوں پھیل رہی ہیں۔ کوئی جواب دینے کے لیے تیارنہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ کیا کیا جائے۔ آخر زندہ بھی رہنا ہے اور کھانا پینا بھی ہے۔ سفید چینی کی مثال سامنے رکھیے۔ یہ حددرجہ خطرناک چیز ہے۔ چینی بذات خود زہر کی تاثیر رکھتی ہے۔ اس تجارت میں کھربوں روپے شامل ہیں، لہذا اسے بند نہیں کیا جا سکتا۔ دیسی گڑ یا دیسی شکر، کیمیکل زدہ چینی کا بہترین نعم البدل ہے۔ شائد مشورہ پسند نہ آئے مگرکسی امیر آدمی کے گھر جائیے۔ وہ چائے کے ساتھ براؤن شوگر پیش کریگا۔ کئی شوگرمل مالکان میرے ذاتی دوست ہیں۔ اکثریت گھر میں اپنی مل کی بنی ہوئی چینی استعمال نہیں کرتے۔
اگر آپ کو میٹھے کا بہت شوق ہے تو دیسی گڑ سے بہترکوئی چیز نہیں۔ گوشت کی طرف نظر ڈالیے۔ چکن کو غیرفطری طریقے سے وزنی کرنے کے لیے مہلک دوائیاں (Steroids) استعمال کیے جاتے ہیں۔ چوزے کی خوراک میں ہر وہ دوائی ملی ہوئی ہے، جو اسے جلدازجلد بڑا کرے اور وہ خوب موٹا تازہ ہو جائے۔ مرغی کی غذا کی فیکٹریوں میں کیا کیا خطرناک اجزاء استعمال کیے جارہے ہیں، اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ حل کیا ہے۔ آپ دیسی مرغیوں کے استعمال کی طرف جائیے۔ بازار میں ملنے والی پیک شدہ چکن کو دور سے سلام کیجیے اور گزر جائیے۔
ہمارے ملک میں ''پروسیسڈفوڈ'' کے نام پر جو بھیانک دھندہ ہو رہا ہے، اسے ختم تو نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس میں طاقت ور ترین طبقے کے مالی مفادات ملوث ہیں۔ ملاوٹ زدہ، دیدہ زیب اشیاء کھانے سے بہتر ہے کہ بالکل سادہ اشیاء استعمال کریں۔ جن کا آپ کو اندازہ ہے کہ انھیںکس طرح پروان چڑھایا گیا ہے مگر اس ملک میں ملاوٹ کا کیا گلہ کرنا۔ کھانے پینے کی اشیاء تو ملاوٹ زدہ ہیں ہی، مگر یہاں تو ایمان اور انسان تک ملاوٹ زدہ ہیں۔
وسطی ایشیا کے ڈاکو، رہزن اور ہارے ہوئے بادشاہ، ہماری قسمتوں کے مالک بن گئے۔ تاریخ بھی عجیب ہے۔ جسے ولن ہونا چاہیے تھا، وہ نجات دہندہ قرار دیا گیا۔ شائد ہمارے ''جینز'' میں کوئی کمی ہے۔ بڑی باتیں، بڑے فیصلے چھوڑ دیجیے، معمولی ترین مسائل ملک کو اژدھے کی طرح نگل چکے ہیں لیکن قوم کی نیندہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی۔
بڑھتی آبادی پر کیا تبصرہ کیا جائے۔ ایک سیلاب ہے جس میں ملک کی ممکنہ ترقی غوطے کھا رہی ہے۔ آج تک کسی سیاسی پارٹی کے قائد نے کھل کر یہ نہیں کہا کہ اس شرح سے بڑھتی ہوئی آفت کو کیسے کنٹرول کرے گا۔ کوئی چین کی مثال تک نہیں دیتا۔ جہاں بچوں کی پیدائش پر سخت قانون سازی ہوئی تھی۔ چند دہائیوں میں چین میں اس عفریب کو قابو کر لیا گیا تھا مگر یہاں تو چین جیسی قانون سازی کی کوئی ہمت ہی نہیں کر سکتا۔ ہم سیکھنے کی حد سے بھی گزر چکے ہیں۔ کوئی اُمید نہیں کہ کوئی بھی قومی لیڈر ہمارے اس مہیب مسئلے پر عملی اقدامات اُٹھانے کی جرات کر پائے گا۔
سوال یہ ہے کہ ان بائیس کروڑ افراد کو غربت سے کیسے نکلا جائیگا۔ اب تک گزارہ صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کافی حد تک موجود ہیں لیکن دو دہائیوں میں آبادی تقریباً دوگنی ہو جائے گی۔ چالیس کروڑ لوگوں کی موجودگی میں ملک سانس کیسے لے پائیگا۔ اس کے متعلق سوچنے کی کسی کو فرصت نہیں۔
ان تمام معاملات کو چھوڑ دیجیے۔ صرف یہ غورکیجیے، کہ آپ کیا کھا رہے ہیں اور آپ کے بچے اور اہل خانہ کیسی غذا استعمال کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے اس پر کبھی سوچا ہو مگر گمان ہے کہ اکثریت کو اندازہ ہی نہیں کہ وہ اپنے پیاروں کو زہردے رہے ہیں۔ اس زہرکا نام ہے "Processed Food" یعنی کھانے پینے کی وہ اشیاء جن کو فروخت کرنے سے پہلے ایک خاص مصنوعی نظام سے گزارا جاتا ہے۔
کوئی نہ کوئی کیمیکل، رنگ، ذائقہ اور اس طرح کی بے شمار خصوصیات مصنوعی طریقے سے پیدا کی جاتی ہیں۔ جسے ڈبے میں سیب کا جوس سمجھ رہے ہوتے ہیں، وہ قطعاً سیب کا جوس نہیں۔ اس میں محض ذائقہ پیدا کر کے لوگوں کو دھوکا دیا جاتا ہے۔ ہمارے جیسے بے خبر لوگ ان اشیاء کو خوشی سے استعمال کرتے ہیں۔
ایسے تمام ممالک جن میں نظامِ حکومت عام لوگوں کی حفاظت، ترقی اور فلاح پر قائم کیا گیا ہے۔ وہاں پروسیسڈ فوڈ کے متعلق انتہائی منفی رجحانات پائے جاتے ہیں۔ یوکے، ناروے، امریکا، جرمنی اور دیگر مغربی ممالک ایسی تمام اشیاء پر پابندی لگا چکے ہیں جن میں مضرِصحت کیمیکل کسی بھی صورت میں استعمال کیا گیا ہو۔ ڈاکٹر جیسن کالٹن اور میراکالٹن نے ایک فہرست شایع کی ہے جس میں تمام مضرِصحت اشیاء کی نشاندہی کی گئی ہے۔
مغربی حکومتوں نے ان تمام پر پابندی عائد کر دی ہے مگر ہمارے ہاں کسی کو اس فہرست پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ فہرست پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ہم غذا کے نام پرکیسا مہلک زہر کھا رہے ہیں۔ سوڈا، سافٹ ڈرنککس، پنیر اور دیگر اشیاء کو خاص رنگ دینے کے حوالے سے پٹرولیم سے کشید ایک کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے۔
امریکی صحت عامہ کے شعبوں نے اس کو زہر قرار دے کر مکمل طور پر ختم کر دیا ہے مگر ہمارے ملک میں کھانے پینے کی اشیاء میں یہ کیمیکل بے رحمی سے استعمال ہو رہا ہے۔ کیا کیک اور کیا بیکری میں بنی ہوئی مہنگی اشیاء۔ تمام خطرناک حد تک مضرِصحت ہیں کیونکہ ہم لوگوں کو جانورکی سطح پر زندہ رہنے کے لیے مجبور کر دیا گیا ہے۔ لہذا مقامی سطح پر کوئی پوچھ گچھ نہیں ہے۔
کئی اشیاء پر انتہائی دیدہ زیب طریقے سے لکھا ہوتاہے کہ اس میں کسی قسم کی کوئی چربی نہیں ہے یعنی یہ Fat Free ہیں۔ ان اشیاء کو فروخت کرنے کے لیے اربوں روپے کے اشتہار چلائے جاتے ہیں۔ امیر لوگ خوش ہو کر یہ خریدتے ہیں۔ اکثر اوقات، چربی کی جگہ Olestra استعمال ہوتا۔ آئس کریمز پر بھی لکھا ہوتا ہے کہ اس میں موٹاپا پیدا کرنے والی کوئی چیز استعمال نہیں کی گئی۔ مگر Olestra خطرناک ترین کیمیکل ہے جس سے آنتوں کے کینسرکی ابتداء ہو سکتی ہے۔
لندن میں کوئی بھی چیز جس میں Olestra استعمال ہوئی ہو، اسے ممنوع قرار دیا گیا ہے مگر پاکستان میں بے دھڑک استعمال کیا جا رہا ہے۔ کسی کو کوئی پروا نہیں۔ ہماری مٹھائیاں جیسے بنتی ہیں، اسے دیکھ کر کوئی باشعورانسان کبھی مٹھائی کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔ پورے پاکستان میں ایک بھی مٹھائی بنانے والا کارخانہ یا دکاندار، ڈبے پر لکھنے کے لیے تیار نہیں کہ اس میں کونسے کیمیکلز اور اجزاء استعمال ہوئے ہیں۔ بڑی سے بڑی دکان پر چلے جائیے۔ بالکل ایک جیسے حالات ہیں کیونکہ ملک میں خریدار کے کوئی حقوق نہیں، لہذا ہرکونے میں، مضرِصحت مٹھائی بکتی چلی جا رہی ہے۔
آپ کو میری عرضداشت پر یقین نہیں توکسی جگہ سے بھی اس شیرینی یا مٹھائی کا لیبارٹری ٹیسٹ کرالیں۔ ہوش ٹھکانے آجائینگے۔ ہمارے ہاں توغفلت کی انتہا یہ ہے کہ چائے کو دودھیا رنگ دینے والے کیمیکل کو دودھ کی جگہ خوشی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بوتل والے پانی کے اندر بھی مضرِصحت اجزاء موجود ہیں۔ کسی میٹنگ میں چلے جائیے، پانی بوتلیں سجائی ہوئی نظرآئینگی۔ لوگ ان کو پینا زندگی کا حصہ بنا چکے ہیں۔ مگرپانی کے اندرکیا کیا کچھ ملایا گیا ہے، کوئی اس پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ شائدآپکے لیے خبر ہو کہ ہمارے ملک سے گرمیوں میں استعمال ہونے والا ایک شربت، جاپان ایکسپورٹ کیا گیا۔ وہاں فروخت سے پہلے اس کا تجزیہ کیا گیا۔
جاپان کی تمام لیباٹریوں نے اسے مضرِصحت قرار دیا۔ یہاں تک لکھا گیاکہ انسان تو کیا، اسے جانوروں کو بھی نہیں پلایا جا سکتا۔ جاپانی حکومت نے وہ تمام شربت سمندرمیں ضایع کر دیا۔ جس کمپنی نے اسے منگوایا تھا،اسے بھی جرمانہ ہوا۔ مگرہمارے عظیم ملک میں وہی شربت دھڑلے سے بیچا جا رہا ہے۔ چند مثالیں دیکرعرض کروں گا کہ جوکچھ ہم کھا رہے ہیں، اس سے مہلک بیماریوں میں حددرجہ اضافہ ہو رہا ہے۔ غورکیجیے۔ کینسر، شوگر، بلڈپریشر جیسی بیماریاں وباء کی طرح کیوں پھیل رہی ہیں۔ کوئی جواب دینے کے لیے تیارنہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ کیا کیا جائے۔ آخر زندہ بھی رہنا ہے اور کھانا پینا بھی ہے۔ سفید چینی کی مثال سامنے رکھیے۔ یہ حددرجہ خطرناک چیز ہے۔ چینی بذات خود زہر کی تاثیر رکھتی ہے۔ اس تجارت میں کھربوں روپے شامل ہیں، لہذا اسے بند نہیں کیا جا سکتا۔ دیسی گڑ یا دیسی شکر، کیمیکل زدہ چینی کا بہترین نعم البدل ہے۔ شائد مشورہ پسند نہ آئے مگرکسی امیر آدمی کے گھر جائیے۔ وہ چائے کے ساتھ براؤن شوگر پیش کریگا۔ کئی شوگرمل مالکان میرے ذاتی دوست ہیں۔ اکثریت گھر میں اپنی مل کی بنی ہوئی چینی استعمال نہیں کرتے۔
اگر آپ کو میٹھے کا بہت شوق ہے تو دیسی گڑ سے بہترکوئی چیز نہیں۔ گوشت کی طرف نظر ڈالیے۔ چکن کو غیرفطری طریقے سے وزنی کرنے کے لیے مہلک دوائیاں (Steroids) استعمال کیے جاتے ہیں۔ چوزے کی خوراک میں ہر وہ دوائی ملی ہوئی ہے، جو اسے جلدازجلد بڑا کرے اور وہ خوب موٹا تازہ ہو جائے۔ مرغی کی غذا کی فیکٹریوں میں کیا کیا خطرناک اجزاء استعمال کیے جارہے ہیں، اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ حل کیا ہے۔ آپ دیسی مرغیوں کے استعمال کی طرف جائیے۔ بازار میں ملنے والی پیک شدہ چکن کو دور سے سلام کیجیے اور گزر جائیے۔
ہمارے ملک میں ''پروسیسڈفوڈ'' کے نام پر جو بھیانک دھندہ ہو رہا ہے، اسے ختم تو نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس میں طاقت ور ترین طبقے کے مالی مفادات ملوث ہیں۔ ملاوٹ زدہ، دیدہ زیب اشیاء کھانے سے بہتر ہے کہ بالکل سادہ اشیاء استعمال کریں۔ جن کا آپ کو اندازہ ہے کہ انھیںکس طرح پروان چڑھایا گیا ہے مگر اس ملک میں ملاوٹ کا کیا گلہ کرنا۔ کھانے پینے کی اشیاء تو ملاوٹ زدہ ہیں ہی، مگر یہاں تو ایمان اور انسان تک ملاوٹ زدہ ہیں۔