خدا کی دی ہوئی نعمتوں کا حصول

دنیا کے 7 ارب غریب انسانوں کی یہ مظلومیت مشترکہ ہے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

خدا فرماتا ہے میں نے تمہارے لیے بے شمار نعمتیں اتاری ہیں انھیں کھاؤ اور خدا کا شکر ادا کرو۔ خدا نے یہ خوشخبری اپنے تمام بندوں کو سنائی ہے، لیکن بندوں کی 80 فیصد سے زیادہ تعداد خدا کی ان نعمتوں سے محروم ہے جو خدا نے ان کے لیے اتاری ہیں۔ خدا کی اتاری ہوئی ان نعمتوں پر مٹھی بھر ظالموں، جابروں کا قبضہ ہے۔

فطری طور پر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا کی 80 فیصد سے زیادہ مخلوق ان نعمتوں سے کیوں محروم ہے۔ ان نعمتوں سے دنیا کی منڈیاں بھری ہوئی ہیں، بڑے مال، بڑی بڑی سپرمارکیٹیں خدا کی ان نعمتوں سے مالا مال ہیں، لیکن 80 فیصد سے زیادہ مخلوق ان نعمتوں کو خرید نہیں سکتی، کیونکہ اس کے پاس قوت خرید نہیں ہے، یعنی اس کی جیبوں میں پیسہ نہیں ہے۔

بینک نوٹوں سے بھرے ہوئے ہیں لیکن عام غریب آدمی اس دولت کو حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ ایک تو اس کی راہ میں قانون کی مضبوط اور اونچی دیوار کھڑی ہے، دوسرے بینکوں کے اندر اور باہر مسلح گارڈز کھڑے ہوئے ہیں۔ اسے قانونی آمدنی کے اندر رہ کر ہی زندہ رہنا ہے۔

بینکوں میں بھری ہوئی رقم، مالوں اور سپرمارکیٹوں میں سجی ہوئی نعمتیں انھی 90 فیصد سے زیادہ غریب انسانوں کی محنت کا ثمر ہے لیکن غریب کو اپنی محنت کے ثمر سے محروم کردیا گیا ہے، غریب کو اپنی محنت کے ثمر سے محروم کرنے والے نظام کا نام سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اس نظام میں ایماندار محنت کش کو اس کی محنت کا اتنا معاوضہ بھی نہیں ملتا کہ وہ دو وقت کی روٹی حاصل کرلے جب کہ 2 فیصد سے کم مراعات یافتہ طبقے کو عوام کی محنت کی کمائی کے اربوں روپے لوٹنے کے مواقع حاصل ہیں۔

غریب بھوک سے تنگ آکر کسی ہوٹل کسی تندور سے دو روٹی اٹھا لیتا ہے تو قانون فوری حرکت میں آجاتا ہے، روٹی چور کو گرفتار کرلیا جاتا ہے، اسے ہتھکڑیاں لگائی جاتی ہیں، اسے لاک اپ میں بند کیا جاتا ہے، اس پر ظلم کیا جاتا ہے، اسے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے، عدالت اسے دو روٹی کی چوری پر دو سال کی سزا بھی سنا سکتی ہے۔ اسے ہر پیشی پر ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہن کر عدالت میں حاضر ہونا پڑتا ہے، نہ وہ بیماری کا سرٹیفکیٹ پیش کرکے عدالت سے غیر حاضر ہوسکتا ہے، نہ وہ ملک سے فرار ہوسکتا ہے، نہ وہ ضمانت پر رہا ہوسکتا ہے کہ کوئی اس کا ضامن نہیں ہوتا۔

نہ اسے لاک اپ میں فائیو اسٹار ہوٹل کی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں، نہ اسے جیل میں فائیو اسٹار کی سہولتیں حاصل ہوسکتی ہیں، اسے قید بامشقت کا سامنا کرنا ہوتا ہے، جیل کی فیکٹریوں میں مشقت کرنی پڑتی ہے، لیکن اسے کھانے کے لیے جیل میں روٹی مل جاتی ہے، وہ اس حوالے سے مطمئن ہوجاتا ہے کہ باہر کی جیل میں اسے مزدوری نہیں ملتی کہ وہ روٹی خرید سکے، اندر کی چھوٹی جیل میں اس سے سخت محنت لی جاتی ہے، اس سے جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے لیکن اسے کھانے کے لیے تین ٹائم روٹی مل جاتی ہے، باہر بھوک سے تنگ آئے ہوئے لوگ جان بوجھ کر کوئی چھوٹا موٹا جرم کرکے جیل چلے جاتے ہیں کہ جیل میں انھیں بھوکا رہنا نہیں پڑتا۔


دنیا میں 7 ارب سے زیادہ انسان بستے ہیں، اگر یہ متحد ہوجائیں تو ظلم کے اس نظام کو تہس نہس کرسکتے ہیں، اپنا جائز حق حاصل کرسکتے ہیں، خدا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن وہ قوموں، ملکوں، رنگوں، نسلوں، مذہبوں میں بٹے ہوئے ہیں، استحصالی طبقات ان تقسیموں کو گہرا کرکے ان کی قوت کو کمزور کردیتے ہیں اور انھیں متحد ہونے سے روک کر انھیں ایک دوسرے سے لڑاتے ہیں۔

یہ 80 فیصد سے زیادہ لوگ فیکٹریوں، ملوں، کھیتوں، کھلیانوں، دفتروں، کارخانوں میں کام کرتے ہیں اور اشیا صرف کے انبار لگاتے ہیں لیکن انھیں اتنا معاوضہ نہیں ملتا کہ وہ پیٹ بھر کھا سکیں۔ ان کی مہینوں تنخواہیں نہیں ملتیں، جب وہ اپنی تنخواہوں کا مطالبہ کرنے کے لیے سڑکوں پر آتے ہیں تو ان پر واٹر کینن سے پانی کی بوچھاڑ کی جاتی ہے۔ ان پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں، ان پر آنسو گیس پھینکی جاتی ہے۔ انھیں پولیس وینوں میں بھر کر تھانے لے جا کر بند کردیا جاتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام بڑا دلچسپ نظام ہے، وہ انسان کو بھوکا مارتا ہے، بھوک سے تنگ آکر انسان چوری کرتا ہے تو اسے چوری کے الزام میں گرفتار کرکے سزائیں دلواتا ہے۔ لیکن اسے باعزت طریقے سے روزی کمانے کے موقع فراہم نہیں کرتا۔ وزرا نوکریاں بیچتے ہیں اور اربوں روپے کماتے ہیں، بے روزگار لوگ قرض لے کر گھر کے چھوٹے موٹے اثاثے بیچ کر نوکریاں خریدتے ہیں۔

حکومت بدلتی ہے یا وزارتیں بدلتی ہیں تو نوکریاں خریدنے والوں کو نوکریوں سے نکال دیا جاتا ہے۔ وہ قرض ادا کرنے سے اور پیٹ بھرنے سے قاصر ہوجاتے ہیں اور وہ لوگ جو 30، 30 ہزار نوکریاں بیچ کر اربوں روپے کما لیتے ہیں، وہ محفوظ ہوتے ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوان اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے دفاتر کے دھکے کھاتے ہیں اور نااہل لیکن سفارشی لوگ اعلیٰ ملازمتوں پر فائز ہوجاتے ہیں۔

دنیا کے 7 ارب سے زیادہ انسانوں کا یہی حال ہے، 7 ارب انسان اگر تھوک دیں تو ظالم اور لٹیرے اس میں بہہ جائیں گے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے نظریہ سازوں کو اس خطرے کا احساس تھا کہ بھوک ناانصافی ظلم و استحصال سے تنگ آئے ہوئے عوام کسی بھی وقت اس ظلم کے نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں، سو انھوں نے قانون کی زنجیریں بنائیں، انصاف کے پھندے بنائے، اگر کوئی اس ظالمانہ، جابرانہ، نامنصفانہ نظام کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو اسے قانون کی زنجیروں سے باندھ دیا جاتا ہے، اس کے گلے میں انصاف کا پھندا کس دیا جاتا ہے، مظلوم انسانوں کی آواز دبا دی جاتی ہے۔ یہ ظلم کھلے عام جاری ہے۔

دنیا کے دانشور، دنیا کے اہل فکر، دنیا کے نظریہ ساز یہ ظلم یہ ناانصافی دیکھ رہے ہیں، لیکن اس کے خلاف عوام میں بیداری پیدا کرتے، عوام کو ان مظالم کے خلاف مزاحمت کی ترغیب دیتے نظر نہیں آتے، کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کے خالقوں نے اس کے منہ کو سونے چاندی سے بند کردیا ہے۔

دنیا کے 7 ارب غریب انسانوں کی یہ مظلومیت مشترکہ ہے، اس مشترکہ مظلومیت کے خاتمے کے لیے مشترکہ اور متحدہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم ''انسانیت'' پر آنا ہوگا۔ جب 7 ارب انسان رنگ نسل زبان قومیت دین دھرم کی تقسیم سے آزاد ہوکر رشتہ انسانیت میں بندھ جائیں گے تو انھیں جکڑنے والے تمام پھندے ٹوٹ جائیں گے اور وہ خدا کی عطا کردہ نعمتوں سے اپنا حصہ حاصل کرسکیں گے۔ خدا کی نعمتوں پر قابض ڈاکو نیست و نابود ہوجائیں گے۔
Load Next Story