پُھول سے نازک بچے والدین کا سرمایۂ حیات

اپنے جگر گوشوں کی حفاظت کے لیے انھیں احتیاطی تدابیر ضرور سکھائیں۔


Munira Adil January 15, 2018
بچے سے روزانہ تین باتیں ضرور پوچھیں کیسے ہو؟ دن کیسا گزرا؟۔ فوٹو: سوشل میڈیا

اسکول کی چھٹی کے وقت اگر ابو کو پہنچنے میں دیر ہوجاتی تھی تو ان کی خصوصی ہدایت تھی کہ اسکول کے گیٹ کے اندر رک کر انتظار کرنا، باہر مت نکلنا، کسی کے ساتھ نہیں جانا، کسی کی گاڑی میں نہیں بیٹھنا۔ شام کے اوقات میں قریبی پارک میں امی ہم بہن بھائیوں کو لے کر جایا کرتی تھیں۔ کبھی تنہا نہیں جانے دیتی تھیں۔ وہاں کچھ بچے اپنی والدہ کے ہمراہ آتے اور کچھ بچے تنہا آتے اور میں اکثر سوچا کرتی کہ امی ہمیں تنہا کیوں نہیں جانے دیتیں۔

شعور کی منزل کو پہنچی اور دنیا داری کو سمجھنا شروع کیا تو پھر ہر سوال کا جواب ملتا چلاگیا کس طرح غیر محسوس انداز میں والدین ہمیں تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ہماری رہنمائی کرتے تھے کہ ہم اپنی حفاظت کرسکیں۔

پھول سے معصوم بچوں کو مناسب اور ہلکے پھلکے انداز میں زمانے کی اونچ نیچ سے آگاہ کرنا اور اپنی حفاظت کرنا سکھانا والدین کی ولین ذمے داری ہے۔ خصوصاً فی زمانہ ہمارے معاشرے میں جس طرح بچوں کے اغوا، زیادتی اور قتل کے روح فرسا واقعات تواتر سے ہورہے ہیں، اس ماحول میں اپنے جگرگوشوں کی حفاظت کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانا ازحد ضروری ہے۔ اس ضمن میں کچھ باتیں بیان کی جارہی ہیں جو بچوں کے تحفظ میں معاون ہوسکتی ہیں۔

بچوں کو گھر کا پتا، فون نمبر، امی ابو کا موبائل نمبر ضرور یاد کروائیں۔ چھوٹے بچوں کے اسکول بیگ کے اندر کاغذ پر تحریر کرکے بھی رکھاجاسکتا ہے اور بچوں کو یہ بتائیں کہ خدانخواستہ کسی بھی پریشان کن صورت حال میں یا رستہ بھول جانے یا والدین کے ساتھ شاپنگ کے دوران بچھڑ جانے کی صورت میں کسی بھی دکان وغیرہ سے اس نمبر پر فون کرنے سے ہم فوراً آپ تک پہنچ جائیں گے۔

اسکول یا مدرسہ کی چھٹی ہونے کے بعد اگر اسکول وین، ڈرائیو یا والدین بچے کو لینے نہیں پہنچتے تو بچے کو خصوصی تنبیہ کی جائے کہ وہ کسی اور کے ہمراہ نہ جائے۔ اس ضمن میں اسکول انتظامیہ کی بھی ذمے داری ہے کہ بچوں کو والدین کے علاوہ کسی دوسرے کے ساتھ نہ بھیجے چاہے وہ فرد بچے کا شناسا ہی کیوں نہ ہو۔

والدین بچوں کو کوئی خاص جملہ یا لفظ بہ طور پاس ورڈ یا کوڈ ورڈ بتادیں مثلاً بچے کے پسندیدہ کھلاڑی کا نام، پالتو جانور کا نام، دوست کا نام یا کوئی مخصوص جملہ وغیرہ اور بچے کو تاکید کی جائے کہ اسکول، ٹیوشن یا مدرسے سے چھٹی کے وقت آکر اگر والدین کے علاوہ کوئی دوسرا فرد بچوں کو لینے جائے اور بتائے کہ آپ کے والدین نے آپ کو لینے بھیجا ہے، والدین بیمار ہیں یا مصروف ہیں، نہیں آسکتے تو آپ ان سے فوراً یہ خفیہ پاس ورڈ یا کوڈ ورڈ پوچھیں۔ اگر وہ اس کا جواب نہ دے پائے تو ہرگز اس کے ساتھ نہ جائیں بلکہ جہاں موجود ہوں وہاں کسی بڑے کو آگاہ کریں اور یہ لفظ یا جملہ اپنے دوستوں کو بھی بتانے سے گریز کریں۔

انھیں بتائیے کہ کسی اجنبی سے گفت گو کرنے سے گریز کریں اور اس سے کچھ لے کر نہ کھائیں اور نہ پییں۔ اگر کوئی زبردستی کچھ کھلانے کی کوشش کرے تو فوراً وہاں سے بھاگ جائیں اور شور مچائیں۔

بچوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ہاتھ کے مثبت یا منفی لمس کو پہچان لیتے ہیں لہٰذا بچوں کو بہت پیار سے دوستانہ انداز میں سمجھائیں کہ کوئی ایسے چھوئے یا پیار کرے جو آپ کو اچھا محسوس نہ ہو یا کوئی زبردستی گود میں لینے یا گود میں بٹھانے کی کوشش کرے تو فوراً آکر امی کو بتائیں، چاہے وہ دوست ہو، ہم جماعت ہو، عمر میں بڑا بچہ، قریبی رشتے دار، نوکر، ڈرائیور، چوکیدار غرض کوئی بھی ہو۔ ماں کا اولاد کے ساتھ رویہ اتنا دوستانہ ہونا چاہیے کہ بچہ اپنی ہر بات بے تکلفی سے بیان کرسکے۔

بچے جب اپنے دوستوں، کزنز، رشتے داروں، آیا یا نوکر کے ساتھ کمرے میں ہوں تو خصوصی تاکید کی جائے کہ کمرے کا دروازہ کھلا رکھیں چاہے وہ اپنے کھلونے یا کتابیں دوسروں کو دکھارہے ہوں یا گیمز کھیل رہے ہوں۔

والدین گھر پر موجود نہ ہوں اور بچے تنہا ہوں تو بچوں کو خصوصاً سمجھائیں کہ گھر کے گیٹ، داخلی دروازے کو مقفل رکھیں اور کسی کے لیے دروازہ نہ کھولیں نہ ہی یہ بتائیں کہ والدین کہاں گئے ہیں۔

بچوں کو پیار سے باتوں باتوں میں یہ ذہن نشین کرادیں کہ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ بات امی کو نہیں بتانا تو وہ بات ضرور آکر بتائیں۔ جب آپ امی کو بتائیں گے تو آپ کو انعام ملے گا۔

چھوٹے بچوں کو تنہا گھر سے باہر چیز لینے یا پارک میں یا پڑوس میں یا دوستوں وغیرہ کے گھر نہ بھیجیں۔ بچوں کے ہمراہ خود جائیں۔ بچے کے دوستوں، سہیلیوں سے ملیں۔ دوستوں کی سالگرہ وغیرہ میں خود لے جائیں، دوستوں کی والدہ سے مل کر جب مطمئن ہوں تو بچے کو چھوڑ آئیں۔

بچہ اگر خاموش یا ڈرا سہما رہتا ہو تو پیار سے پوچھیں، گلے لگاکر پیار کریں، بچے اور اپنے درمیان ایسی بے تکلفی اور دوستی کی فضا قائم کریں کہ بچہ اپنا ہر ڈر، خوف، وہم، فکر، پریشانی وغیرہ بلا جھجھک بیان کردے۔

بچے سے روزانہ تین باتیں ضرور پوچھیں: کیسے ہو؟ دن کیسا گزرا؟ کسی نے آپ کے ساتھ کوئی گندی تو نہیں کی؟

بچے کی بات کو بہ غور سنیں۔ روز کی روداد پوچھیں۔

اپارٹمنٹ کی لفٹ میں اگر بچہ تنہا چڑھتا اترتا ہو تو بہتر ہے کہ اس کے ہمراہ جائیں۔ بہ صورت دیگر اس کو سمجھائیں کہ اگر لفٹ میں کوئی موجود ہو جس سے وہ خوف محسوس کرے تو تمام فلور کے بٹن دبادے اس طرح لفٹ ہر منزل پر رکے گی اور منفی عزائم رکھنے والا اپنے مقصد میں کام یاب نہیں ہوسکے گا۔

بچوں کو قرآنی آیات، حفاظت کی دعائیں یاد کروائیں اور پڑھنے کی تلقین کریں۔ مائیں بھی بچوں پر پڑھ کر دم کریں۔ بچوں کو سمجھائیں کہ ہم کبھی اکیلے نہیں ہوتے۔ خدا ہمیشہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے تو کسی بھی پریشان کن صورت حال میں کسی سے ڈرنا نہیں۔اگر خطرہ محسوس ہو تو زور سے چیخنا چلانا اور وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرنا۔

ملازمت پیشہ والدین کے گھرانوں میں عموماً بچوں کی دیکھ بھال کے لیے آیا یا ملازم رکھ لیے جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں گھر کے اندر جدید خفیہ کیمرے ضرور نصب کرلیں تاکہ دفتری اوقات میں بھی موبائل یا لیپ ٹاپ پر بچوں پر نظر رکھ سکیں۔ کیمروں کی تنصیب پر آنے والی لاگت بچوں کی حفاظت سے زیادہ اہم نہیں ہوتی۔ ذرا سوچیے ہم اپنے گھر کی قیمتی اشیا کے ضمن میں ملازمین پر بھروسا نہیں کرتے، حفاظت سے مقفل رکھتے ہیں تو خدا کے عطا کردہ قیمتی تحفے اولاد کے لیے ہم کیسے ملازمین پر اعتماد کرسکتے ہیں۔

بچوں کو ہمیشہ یہ اعتماد دیں کہ زندگی کے کسی بھی مرحلے پر کسی بھی صورت حال میں خود کو تنہا مت سمجھنا ہم ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں، ہم سے کچھ مت چھپانا۔

درج بالا نکات لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے یکساں ہیں۔ ان کی روشنی میں اپنی اولاد کی رہنمائی کیجیے اور ان کو اپنا تحفظ کرنا سکھائیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں