شادی بیاہ اور تقریبات میں پھولوں کے استعمال سے طلب بڑھ گئی
پوش علاقوں کی مانگ پوری کرنے کیلیے یورپی ملکوں سے پھولوں کی درآمد جاری،
GILGIT:
شادی بیاہ اور تقریبات میں پھولوں کا استعمال بڑھ رہا ہے جس کا فائدہ دیگر شعبوں کی طرح پھولوں کی تجارت سے وابستہ افراد کو بھی ہورہا ہے۔
شہر میں پھولوں کی طلب بڑھنے سے پھولوں کی فروخت کا کاروبار عروج پر ہے پھولوں کی طلب سندھ کے مختلف علاقوں کے علاہ پنجاب کے شہر پتوکی سے لائے جانے والے پھولوں سے پوری کی جارہی ہے پوش علاقوں میں درآمد شدہ پھولوں کی مانگ پوری کرنے کے لیے ہالینڈ اور دیگر ملکوں سے پھول درآمد کیے جارہے ہیں۔
کراچی میں پھولوں کی تھوک فروخت کا مرکز شہر کے وسطی علاقے میں تین ہٹی پر واقع ہے جہاں پھولوں کی تھوک فروخت دن 10 بجے سے ایک بجے تک جاری رہتی ہے جبکہ پھولوں کے ہار گلدستے گجرے اور دلہا دلہن کے سہرے رات دیر تک فروخت کیے جاتے ہیں اس بازار میں 60 سے زائد دکانیں اور اسٹال ہیں جن میں سے 20 سے 25 تھوک فروخت کی دکانیں شامل ہیں، دکانداروں کے مطابق موسم سرما میں پھولوں کی طلب اور قیمت دونوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور تھوک قیمت بھی عام دنوں کے مقابلے میں 70 فیصد تک بڑھ جاتی ہے۔
بازار میں حیدراباد اور سندھ کے دیگر علاقوں سے لائے گئے سرخ گلاب اور گیندے کے زرد پھولوں کی بھرمار ہے جبکہ روایتی موتیا کے پھول سیزن نہ ہونے کی وجہ سے کم مقدار میں لائے جارہے ہیں اس کے علاوہ پتوکی سے بھی مختلف رنگوں کے انگلش کٹ روز بھی لائے جاتے ہیں بازار میں پھولوں کی آمد کا سلسلہ صبح سے شروع ہوجاتا ہے پھولوں کو تازہ رکھنے کے لیے لکڑی کی پیٹیوں میں برف رکھی جاتی ہے پتوکی سے بڑی مقدار میں پھول یومیہ بنیاد پر خیبر میل کے ذریعے کراچی لائے جاتے ہیں پھولوں کی تجارت سے رکشا، ٹیکسی اور سوزوکی چلانے والوں کو بھی روزگار ملتا ہے شہر بھر سے پھول فروش تین ہٹی کی تھوک مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں اور پھولوں سے گلدستے گجرے ہار وغیرہ بناکر روزگار کماتے ہیں۔
مقامی پودوں فایکس،کامنی پیراگراس کے پتے زیادہ بکتے ہیں
پھولوں سے سجاوٹ کے لیے مختلف اقسام کے مقامی پودوں کے پتے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ فایکس، کامنی، پیراگراس نامی پودوں کے پتے زیادہ فروخت ہوتے ہیں یہ پتے بڑی لاٹ کی شکل میں لائے جاتے ہیں جن کی بعد میں تراش خراش کرکے گٹھیوں کی شکل میں فروخت کیا جاتا ہے۔
تین ہٹی کی مرکزی پھول مارکیٹ مسائل کا گڑھ بن گئی
تین ہٹی کی مرکزی پھول مارکیٹ سہولتوں سے محروم ہے سیورج کا نظام خراب ہے جس کی وجہ سے دکانداروں اور گاہکوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اطراف میں ٹریفک جام رہنا معمول ہے اور تجاوزات میں بھی تیزی سے اظافہ ہورہا یے زیادہ تر اسٹال عارضی دکانوں میں قائم ہیں پھولوں کی فروخت کے وقت ٹریفک جام معمول بن چکاہے۔
پھولوں کی مارکیٹ میں نئے کرنسی نوٹوں کے ہار بھی فروخت ہونے لگے
تین ہٹی کے بازار میں پھولوں کے ہار کے ساتھ نئے کرنسی نوٹوں کے ہار بھی فروخت کیے جاتے ہیں جو دلہا کو پہنائے جاتے ہیں 10اور 20کے کرنسی نوٹوں کے ہار کی قیمت نوٹوں کی مالیت سے 300 سے 400 روپے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ نئے کرنسی نوٹ بھی اضافی قیمت پر ملتے ہیں۔
حالات بہترہونے سے پھولوں کی تجارت کئی گنابڑھ گئی،دکاندار
گرمیوں میں سوات اور کوئٹہ مانسہرہ سے بھی پھول منگوائے جاتے ہیں پھولوں کا سیزن نومبر سے جنوری تک رہتا ہے شہر میں تجارتی سرگرمیاں ماند پڑی تھیں جس کا اثر پھولوں کی تجارت پر بھی پڑا تھا اور پھولوں کی تجارت کرنے والے بحرانی کیفیت سے دوچار تھے یہ بات پھول فروش اسرار نے بتائی انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے بعد سے حالات معمول پر آنے سے پھولوں کی تجارت بھی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
اس وقت یومیہ 3 سے 4 ٹرک پھول فروخت کیے جارہے ہیں جو عام دنوں کے مقابلے میں 3 گنا زائد ہیں موسم سرما میں پھولوں کی پیداوار بھی زیادہ ہوتی ہے اور پھول جلد خراب بھی نہیں ہوتے جبکہ گرمی کے موسم میں پھولوں کی فروخت کم ہوتی ہے جبکہ پھول کی لائف بھی کم ہوجاتی ہے حالیہ دنوں میں درآمدی پھولوں کی طلب بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے جو زیادہ تر ہالینڈ اور ملائیشیا سے درآمد کیے جارہے ہیں درآمدی پھولوں میں للی، لوٹس، بے بی اسپریڈ وغیرہ شامل ہیں جبکہ مختلف اقسام کے پتے بھی درآمد ہو رہے ہیں جو سجاوٹ کیلیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
شادی بیاہ اور تقریبات میں پھولوں کا استعمال بڑھ رہا ہے جس کا فائدہ دیگر شعبوں کی طرح پھولوں کی تجارت سے وابستہ افراد کو بھی ہورہا ہے۔
شہر میں پھولوں کی طلب بڑھنے سے پھولوں کی فروخت کا کاروبار عروج پر ہے پھولوں کی طلب سندھ کے مختلف علاقوں کے علاہ پنجاب کے شہر پتوکی سے لائے جانے والے پھولوں سے پوری کی جارہی ہے پوش علاقوں میں درآمد شدہ پھولوں کی مانگ پوری کرنے کے لیے ہالینڈ اور دیگر ملکوں سے پھول درآمد کیے جارہے ہیں۔
کراچی میں پھولوں کی تھوک فروخت کا مرکز شہر کے وسطی علاقے میں تین ہٹی پر واقع ہے جہاں پھولوں کی تھوک فروخت دن 10 بجے سے ایک بجے تک جاری رہتی ہے جبکہ پھولوں کے ہار گلدستے گجرے اور دلہا دلہن کے سہرے رات دیر تک فروخت کیے جاتے ہیں اس بازار میں 60 سے زائد دکانیں اور اسٹال ہیں جن میں سے 20 سے 25 تھوک فروخت کی دکانیں شامل ہیں، دکانداروں کے مطابق موسم سرما میں پھولوں کی طلب اور قیمت دونوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور تھوک قیمت بھی عام دنوں کے مقابلے میں 70 فیصد تک بڑھ جاتی ہے۔
بازار میں حیدراباد اور سندھ کے دیگر علاقوں سے لائے گئے سرخ گلاب اور گیندے کے زرد پھولوں کی بھرمار ہے جبکہ روایتی موتیا کے پھول سیزن نہ ہونے کی وجہ سے کم مقدار میں لائے جارہے ہیں اس کے علاوہ پتوکی سے بھی مختلف رنگوں کے انگلش کٹ روز بھی لائے جاتے ہیں بازار میں پھولوں کی آمد کا سلسلہ صبح سے شروع ہوجاتا ہے پھولوں کو تازہ رکھنے کے لیے لکڑی کی پیٹیوں میں برف رکھی جاتی ہے پتوکی سے بڑی مقدار میں پھول یومیہ بنیاد پر خیبر میل کے ذریعے کراچی لائے جاتے ہیں پھولوں کی تجارت سے رکشا، ٹیکسی اور سوزوکی چلانے والوں کو بھی روزگار ملتا ہے شہر بھر سے پھول فروش تین ہٹی کی تھوک مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں اور پھولوں سے گلدستے گجرے ہار وغیرہ بناکر روزگار کماتے ہیں۔
مقامی پودوں فایکس،کامنی پیراگراس کے پتے زیادہ بکتے ہیں
پھولوں سے سجاوٹ کے لیے مختلف اقسام کے مقامی پودوں کے پتے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ فایکس، کامنی، پیراگراس نامی پودوں کے پتے زیادہ فروخت ہوتے ہیں یہ پتے بڑی لاٹ کی شکل میں لائے جاتے ہیں جن کی بعد میں تراش خراش کرکے گٹھیوں کی شکل میں فروخت کیا جاتا ہے۔
تین ہٹی کی مرکزی پھول مارکیٹ مسائل کا گڑھ بن گئی
تین ہٹی کی مرکزی پھول مارکیٹ سہولتوں سے محروم ہے سیورج کا نظام خراب ہے جس کی وجہ سے دکانداروں اور گاہکوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اطراف میں ٹریفک جام رہنا معمول ہے اور تجاوزات میں بھی تیزی سے اظافہ ہورہا یے زیادہ تر اسٹال عارضی دکانوں میں قائم ہیں پھولوں کی فروخت کے وقت ٹریفک جام معمول بن چکاہے۔
پھولوں کی مارکیٹ میں نئے کرنسی نوٹوں کے ہار بھی فروخت ہونے لگے
تین ہٹی کے بازار میں پھولوں کے ہار کے ساتھ نئے کرنسی نوٹوں کے ہار بھی فروخت کیے جاتے ہیں جو دلہا کو پہنائے جاتے ہیں 10اور 20کے کرنسی نوٹوں کے ہار کی قیمت نوٹوں کی مالیت سے 300 سے 400 روپے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ نئے کرنسی نوٹ بھی اضافی قیمت پر ملتے ہیں۔
حالات بہترہونے سے پھولوں کی تجارت کئی گنابڑھ گئی،دکاندار
گرمیوں میں سوات اور کوئٹہ مانسہرہ سے بھی پھول منگوائے جاتے ہیں پھولوں کا سیزن نومبر سے جنوری تک رہتا ہے شہر میں تجارتی سرگرمیاں ماند پڑی تھیں جس کا اثر پھولوں کی تجارت پر بھی پڑا تھا اور پھولوں کی تجارت کرنے والے بحرانی کیفیت سے دوچار تھے یہ بات پھول فروش اسرار نے بتائی انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے بعد سے حالات معمول پر آنے سے پھولوں کی تجارت بھی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
اس وقت یومیہ 3 سے 4 ٹرک پھول فروخت کیے جارہے ہیں جو عام دنوں کے مقابلے میں 3 گنا زائد ہیں موسم سرما میں پھولوں کی پیداوار بھی زیادہ ہوتی ہے اور پھول جلد خراب بھی نہیں ہوتے جبکہ گرمی کے موسم میں پھولوں کی فروخت کم ہوتی ہے جبکہ پھول کی لائف بھی کم ہوجاتی ہے حالیہ دنوں میں درآمدی پھولوں کی طلب بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے جو زیادہ تر ہالینڈ اور ملائیشیا سے درآمد کیے جارہے ہیں درآمدی پھولوں میں للی، لوٹس، بے بی اسپریڈ وغیرہ شامل ہیں جبکہ مختلف اقسام کے پتے بھی درآمد ہو رہے ہیں جو سجاوٹ کیلیے استعمال کیے جاتے ہیں۔