وہ حالات و واقعات جو قراردادِ پاکستان کی بنیاد بنے

23 مارچ کی اصل اہمیت اس سیاست کی ہے جو 1937ء کے انتخابات کے نتائج کے بعد ہمارے ہاں ہوئی۔


Aamir Riaz March 23, 2013
23 مارچ کی اصل اہمیت اس سیاست کی ہے جو 1937ء کے انتخابات کے نتائج کے بعد ہمارے ہاں ہوئی۔ فوٹو: فائل

23 مارچ کے دن کی اہمیت کو جاننے کے لیے ایک اہمیت تو اس قرارداد کی ہے جو جلسہ عام نے منظور کی تھی جبکہ اصل اہمیت اس سیاست کی ہے جو 1937ء کے انتخابات کے نتائج کے بعد ہمارے ہاں ہوئی۔ ان دونوں باتوں پر الگ الگ غور کرنے سے ہی اصل حقیقت سامنے آتی ہے۔

1937ء کے انتخابی نتائج اور بدلتی ہوئی سیاسی ترجیحات

فروری 1937ء کے انتخابات میں کل 14 فیصد لوگوں کے پاس ووٹ ڈالنے کا حق تھا' جنہیں 12 صوبوں میں کل 1585 صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے لیے ووٹ ڈالنے تھے۔ نتائج کے مطابق کانگریس پارٹی نے مختلف صوبوں میں 707 نشستیں حاصل کیں۔ ان 12 میں صرف ایک صوبہ تھا جہاں کانگریس کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا ' اور 175 کے صوبائی ایوان میں کانگریس بمشکل 18 نشستیں ہی جیت سکی تھی۔

یہ صوبہ پنجاب تھا جہاں یونینسٹ پارٹی آف پنجاب نے 98 سیٹیں جیت کر اپنا لوہا منوایا تھا۔ کانگریس نے اس ہزیمت کا بدلہ 1947ء میں لیا اور پنجاب کو ہرحال میں تقسیم در تقسیم کے عمل سے گذارنے پر کمربستہ رہی۔ 3 جون 1947ء کو جب پنجاب کو ہر حال میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کروانے میں کانگریس کامیاب رہی تو جون 1947ء ہی میں بھارتی پنجاب کو بھی مزید تین حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بن چکا تھا۔ فیض احمد فیض نے پاکستان ٹائمز میں 27 جون 1947ء کو بروقت اداریہ لکھ ڈالا تو کانگریس نے پنجاب کی مزید تقسیم کو کچھ عرصہ کے لیے موخر کر دیا۔

پنجاب میں شکست کے علاوہ چار دیگر صوبے ایسے تھے جن میں کانگریس 1937 ء کے انتخابات میں 50 فیصد سے بھی کم نشستیں حاصل کر پائی تھی۔ ان میں بنگال، سندھ، سرحد اور آسام شامل تھے۔ پنجاب اور بنگال میں غیرکانگریسی حکومتیں بنیں اور یہ وہی دو صوبے تھے جن میں مسلم اکثریت بھی موجود تھی۔ ان دونوں صوبوں کی قیادت کو لکھنؤ پیکٹ 1916ء بارے سخت تحفظات تھے'جس کے ذریعے پنجاب و بنگال کی مسلم اکثریتوں کو قابو کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ میاں محمد شفیع، حکیم اجمل خانٰ، سی آر داس اور علامہ اقبال کا شما رایسے ہی رہنمائوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے تحفظات کا برملا اظہار کیا تھا۔ احرار، مسلم لیگ پنجاب اور یونینسٹ پارٹی سبھی ایسی کسی بھی تجویز کے مخالف تھے جس کی وجہ سے پنجاب میں مسلم اکثریت کا خاتمہ ہو۔

1916ء سے 1937ء کے درمیان اس مسئلہ کا یہاں کی سیاست پر بہت اثر رہا۔ دوسری طرف مسلم اقلیتی صوبوں کا مسئلہ تھا جہاں مسلم لیگ 1937ء کے انتخابات میں مناسب تعداد میں مسلم نشستیں جیت تو گئی تھی مگر تناسب کے لحاظ سے وہ صوبائی اسمبلیوں میں چھ سے آٹھ فیصد ہی تھے۔ یہی وہ موقع تھا جب قائداعظم محمد علی جناح نے کانگریس کی قیادت خصوصاً پنڈت نہرو کے نام مفاہمتی خطوط لکھے اور انھیں بتایا کہ کانگریس اور مسلم لیگ مل کر ملک کے مستقبل کے لیے کام کر سکتی ہیں۔ یہ خطوط مشہور بھارتی قانون دان ایچ ایم سیروائی نے اپنی مشہور کتاب ''تقسیم ہند، داستان یا حقیقت'' میں چھاپے ہیں۔

مگر نہرو نے ان خطوط کا جواب نہ صرف تضحیک آمیز اور غیرپارلیمانی انداز میں دیا بلکہ قائداعظم کو یہ بھی کہہ دیا کہ مسلم لیگ تو مسلم اکثریت کی نمائندہ نہیں کیونکہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی بڑی اکثریت تو پنجاب و بنگال میں رہتی ہے۔ اب زیرک قائد کی توجہ کا مرکز پنجاب و بنگال ٹھہرے۔ 23 مارچ 1940ء سے پہلے وہ نہ صرف بنگال کے کرشک پرجا پارٹی کے وزیراعظم اے کے فضل الحق کو مسلم لیگ میں شامل کروا چکے تھے بلکہ پنجاب کے یونینسٹ وزیراعظم سرسکندر حیات سے ''جناح سکندر معاہدہ'' کر کے پنجاب میں مسلم لیگ اور یونینسٹوں میں بہتر تعلقات بھی بنا چکے تھے۔

سونے پر سہاگہ اقتدار کے نشے میں مست کانگریسی وزارتوں نے چڑھایا کہ انہوں نے ہندو اکثریت کو رام کرنے کے لیے انتہاپسند فیصلے کیے۔ بندے ماترم جیسے مسلم مخالف ترانے کا انتخاب انہی میں سے ایک فیصلہ تھا کہ بے چارے سبھاش چندر بوس، کانجی دوارکاداس اور خود رابندرناتھ ٹیگور روکتے ہی رہ گئے۔ سبھاش کے بھائی سرت چندربوس کے ہارورڈ یونیورسٹی سے وابستہ پوتے سوگاتا بوس نے حال ہی میں اپنے چچا کی سوانح میں ٹیگور کے گاندھی کے نام خطوط بھی چھاپے ہیں جس میں بندے ماترم کو مسلمان مخالف گیت قرار دیتے ہوئے ٹیگور نے اسے اپنانے سے منع کیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ مشہور تاریخ دان کے کے عزیز نے تو کانگریسی وزارتوں کی قراردادوں اور فیصلوں پر مشتمل دو جلدوں میں مستند کتاب بھی لکھی ہے جو ایسے ہی ناعاقبت اندیش فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔ تو یہ وہ سیاست تھی جو 23 مارچ 1940 کا جواز مہیا کرتی ہے۔

23 مارچ کی قرارداد کے متن کی تیاری

اب ہم دیکھتے ہیں کہ جو قرارداد انتہائی عرق ریزی اور احتیاط سے لکھی گئی اس کا کیا پس منظر تھا۔ مخالفین کبھی اس قرارداد کا مصنف چرچل کو قرار دیتے تھے تو کبھی پنجابی وزیراعظم سرسکندر حیات کو۔ اب تو ایسے باکمال دانشور بھی پیدا ہوچکے ہیں جو یہ کہہ کر دنیا کو چونکا دینا چاہتے ہیں کہ قرارداد 24 مارچ کو پاس ہوئی تھی۔ تاہم وہ یہ بات نہیں کرنا چاہتے کہ وہ کون سے حالات تھے جس کی وجہ سے مسلم لیگ، یونینسٹ پارٹی آف پنجاب اور کرشک پرجا پارٹی میں دوریاں ختم ہوتی گئیں۔

اس قرارداد کی تیاری میں بہت سے عبقری، دانشور اور قانونی ماہرین شامل تھے کہ ایک ایک لفظ ناپ تول اور بحث و مباحثہ کے بعد قرارداد کا حصہ بنا۔ جب قرارداد پر تنقید کے دیگر بہانے ختم ہو جاتے ہیں تو پھر ''ریاست اور ریاستوں'' جیسے الفاظ کو تختہ مشق پر سجا دیا جاتا ہے۔ ان سب لایعنی اور تاریخ سے کھیلنے والی بحثوں کا مقصد کانگریس کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں کو بچانے یا پاکستانی ریاست کے مخصوص ہتھکنڈوں کے خلاف ردعمل کا اظہار تو ہو سکتا ہے مگر اس سے بدلتی ہوئی سیاست اوراتار چڑھائو کے سیاسی عمل سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ بھٹو دور میں کے کے عزیز نے جرمنی سے آ کر قومی ادارہ برائے تحقیق و تاریخ و ثقافت کی بنیاد رکھی تھی۔

ان کے اصرار پر سید محمد ذوالقرنین زیدی الھُما نے ان 13 شخصیات کے انٹرویو کیے تھے جو قائداعظم سے ملتے رہتے تھے۔ تحریک و تاریخ پاکستان کے حوالے سے یہ ایک نادر دستاویز ہے کہ جو ''قائداعظم کے رفقاء سے ملاقاتیں'' کے عنوان سے بعدازاں چھپی تھی۔ کتاب تو تیار ہو گئی مگر ضیاء الحق کی آمد کے بعد کے کے عزیز بوجوہ جرمنی چلے گئے تو پھر یہ کتاب شہید بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں اس وقت چھپی جب محترمہ کنیز فاطمہ یوسف اس ادارہ کی سربراہ تھیں۔ ان 13 شخصیات میں بہار سے تعلق رکھنے والے حسین امام بھی شامل تھے جو ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے قرارداد لاہور کے مسودے کی تشکیل کے دوران بحث و مباحثہ میں حصہ لیا تھا۔ 21 سال تک مسلسل لیجیسلیٹو اسمبلی کے ممبر رہنے والے حسین امام نے اپنے انٹرویو میں قرارداد کے حوالے سے بتایا:

''اس وقت ہم لوگوں کے سامنے آئین کے دو ہی نمونے تھے۔ ایک روسی آئین تھا جو لینن نے 1922ء میں اپنایا تھا، اس سے ہم لوگ گریزاں تھے، کیونکہ ہم لوگ نہ کمیونسٹ تھے اور نہ ہی ہمارے نظریات کارل مارکس سے متاثر تھے۔ دوسرا نمونہ امریکا کے آئین کا تھا جس میں ریاستوں کے الحاق کا تصور تھا۔ عام لوگ ان پیچیدگیوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اگر امریکا کی تحریک آزادی کا مطالعہ کیا جائے تو آپ کو علم ہو گا کہ وہاں برطانوی نوآبادیاں جزوی آزادی کی طلب گار تھیں مگر واقعات اس قدر تیزی کے ساتھ بدلے کہ نوآبادیوں نے اپنے آپ کو برطانیہ کی محکومی سے آزاد کرالیا، جو ایک عملی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ اس طرح وہ نوآبادیاں پہلے برطانیہ کے غلبہ سے آزاد ہوئیں پھر انہوں نے رضارکارانہ طریقہ سے اپنے آپ کو ایک فیڈریشن میں سمو لیا۔

جس میں مرکزی حکومت کو خاص خاص معاملات میں اختیارات سونپ دیے گئے اور باقی معاملات میں انہوں نے اپنی آزادی برقرار رکھی۔ چونکہ ہم لوگوں کی تعلیم و تربیت انگریزی طرز اور فکر پر تھی اس لیے نظریاتی طور پر اور فکری طور پر ہم امریکا سے زیادہ قریب تھے، ہمارے لیے امریکی آئین اور ان کا طرزِفکر باعث تقلید تھا۔ برخلاف اس کے ہم سوویٹ (Soviet) کا لفظ استعمال نہیں کر سکتے تھے۔ برطانوی ہند میں انتظامی یونٹ صوبے تھے جن کو ہم امریکی ''ریاستوں'' سے تشبیہہ دے رہے تھے۔ لہٰذا اس قرارداد کی تشکیل کے وقت شعوری اور لاشعوری طور سے ہم لوگ امریکی آئینی تصورات سے متاثر تھے۔ ہم نے ریاستوں کا لفظ قرارداد میں اسی وجہ سے استعمال کیا۔'' (کتاب ''قائداعظم کے رفقاء سے ملاقاتیں''، مرتب: سید محمد ذوالقرنین زیدی الھُما، قومی ادارہ برائے تحقیق و تاریخ و ثقافت، 1990، صفحہ نمبر54)

اس ساری بحث کا مقصد آپ کو ان حالات و واقعات سے آگاہ کرنا ہے جس کی وجہ سے 23 مارچ کے دن کی اہمیت دیدنی ہو گئی۔ اگر کوئی ''تیار مال'' پہلے سے دستیاب ہوتا تو پھر قرارداد کے مسودہ پر اس قد رعرق ریزی سے بحث نہ ہوتی۔

آج کا پاکستان، قراردادِ لاہور، نصابی کتب اور نوجوان

اب آپ کی توجہ اک ایسے معاملے کی طرف کرواتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ خود ہم نے خصوصی طو رپر گذشتہ 35 سالوں میں قرارداد لاہور کا کیا حشر کیا ہے۔ 2010ء میں مجھے نصابی کتب کا جائزہ لینے کا موقع ملا کہ اس کے لیے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی 4مضامین کی 34 کتب جماعت اوّل تا دہم منتخب کی گئیں۔ یہ مضامین تھے اُردو، انگریزی، مطالعہ پاکستان اور اسلامیات/اخلاقیات۔ دوران تحقیق یہ عقدہ کھلا کہ نصابی کتب میں علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد کا ترجمہ بھی صحیح نہیں اور قرارداد لاہور کا متن بھی توڑ مروڑ کر چھاپا گیا ہے۔

جب نصابی کتب سے متعلقہ ادارے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ تحریک پاکستان سے متعلق تمام تر مواد کی جانچ پڑتال کوئی دوسرا ادارہ کرتا ہے اس لیے ہم ذمہ دار نہیں۔ وہ تو بھلا ہو مینار پاکستان کا کہ جس پر قرارداد لاہور کا متن تاحال انگریزی، اُردو اور بنگالی زبانوں میں کندہ ہے۔ نصابی کتب میں قرارداد کا متن بدلنے والے اسے مینار پاکستان سے کھرچنے میں ناکام رہے اور یوں اصل متن کی جانچ کر لی گئی۔ قرارداد لاہور کے متن میں جو تبدیلیاں کی گئی تھیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جو اس قرارداد کو مارچ 1940ء میں لکھ رہے تھے انہیں آج کے نصابی لکھاریوں سے زیادہ عقل سمجھ نہیں تھی۔

بعض تبدیلیاں بڑی مضحکہ خیز ہیں مثلاً 1947ء تک مسلم لیگ کا نام تو آل انڈیا مسلم لیگ ہی تھا مگر نصابی کتب میں اس کی جگہ ''مسلم لیگ'' کر دیا گیا۔ اس طرح اصل قرارداد میں ہندو اور مسلم ریاستوں جیسی اصطلاحات موجود نہیں تھیں مگر مطالعہ پاکستان کی 2010ء کی آٹھویں جماعت کی کتاب (مطبوعہ 2010ء) میں یہ اصطلاحات ڈال دی گئیں۔ ایسا ہی غلط ترجمہ دوسری کلاسوں میں بھی شامل تھا اور جانے کتنی دہائیوں سے ہمارے بچے یہی غلط ترجمہ پڑھ رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں نوجوان نسل کو گمراہ کن تاریخ پڑھانے سے قوم پرستی تو مضبوط نہ ہوئی لیکن لوگوں کا نصاب سے یقین اٹھتا چلا گیا۔

اب ذرا بتائیں کیا آج 23 مارچ کو اس سب کے بارے ہمیں سوچنا نہیں چاہیے؟ ہم چھٹی بھی منا لیتے ہیں، جلسے جلوس بھی کر لیتے ہیں، بڑے بڑے بیانات بھی آتے ہیں اور چینلوں پر پروگرام بھی ہوتے ہیں۔ مگر یہ لفظ، یہ باتیں، یہ دعوے اور نعرے سب بے تاثیر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس میں آج کے نوجوانوں کا کوئی قصور نہیں بلکہ قصور میری یا اس سے پہلے کی نسل کے ان اعلیٰ اذہان کا ہے جنہوں نے ان معصوموں کو تعصب، ماردھاڑ اور نفرتوں کے ''ٹیکے'' نصاب اور کھوکھلے نعروں کے ذریعے مسلسل لگائے ہیں۔ قصور ان کا بھی ہے جو جلسے جلوس تو کرتے ہیں مگر نوجوانوں کو اس قرار داد کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بتانا چاہتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |