حکومتی رٹ فوری قائم کریں

اب تک نہ معلوم کتنے پولیس افسران کے دل بدامنی کے حوالے سے طواف کوئے ملامت کو جا چکے ہیں۔

سپریم کورٹ نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی حالت زار پر جو ریمارکس دیے ہیں وہ اس اعتبارسے چشم کشا ہیں کہ جرائم پیشہ عناصر نے اسے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ فوٹو: پی پی آئی/ فائل

سپریم کورٹ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ کراچی میں حکومت کی رٹ قائم کریں۔

قبضہ مافیا کے خاتمے اور نئی حلقہ بندیوں کے بغیر کراچی میں امن نہیں ہو سکتا، عدالت نے لیاری سمیت دیگر علاقوں میں نو گو ایریاز کا فوری خاتمہ کرنے کی بھی ہدایت کی، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ نے کراچی بد امنی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔ قائم مقام آئی جی غلام شبیر شیخ نے بتایا کہ وفاق نے انھیں آئی جی بنانے کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا تاہم صوبائی حکومت نے انھیں آئی جی تعینات کر دیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ 15دن گزرنے کے باوجود وفاق نے آئی جی تعینات نہیں کیا، ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ چیف سیکریٹری تین دن سے غائب ہیں،عدالت نے شدید برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہاں آگ لگی ہوئی ہے، روزانہ10سے زائدلاشیںگررہی ہیںاورچیف سیکریٹری اور مستقل آئی جی نہیں ہیں، یہ غفلت مجرمانہ ہے ، نجانے یہ شہر اور صوبہ کس کے رحم و کرم پر ہے ۔

سپریم کورٹ نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی حالت زار پر جو ریمارکس دیے ہیں وہ اس اعتبارسے چشم کشا ہیں کہ جرائم پیشہ عناصر نے اسے یرغمال بنایا ہوا ہے اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد اور گروہوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی قسم کی کارروائی کرنے سے معذور نظر آتے ہیں ۔کم از کم ڈی آئی جی سائوتھ کا یہ اعتراف کہ لیاری میں پولیس اور رینجرز داخل نہیں ہو سکتی '' مرے ہمتوں کی پستی ''کے زمرے میںہزیمت کی افسوس ناک داستان سرائی کے مترادف ہے۔

کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی مہذب شہر کے ایک حصے میں جرائم پیشہ اس قدر طاقتور ہوجائیں کہ وہاں قانون کی رٹ قائم کرنے کی ان اداروں میں جرات نہ ہو جب کہ شہریوں کی جان ومال کے تحفظ پر کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کیونکہ ریاست کی یہ بنیادی ذمے داری ہے کہ اپنے شہریوں کی زندگی،املاک ، ان کی آبرو، اور بنیادی انسانی حقوق کو پامالی سے بچائے۔ تاہم عدالت عظمٰی کے روبرو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہوں نے چیف جسٹس اور دیگر بنچ ممبران کے استفسارات پر اپنی بے بسی کا جس طرح اظہار کیا ہے وہ اپنے مضمرات اور دور رس اثرات کے حوالے سے ایک طرح کااعتراف شکست ہے جس سے پورے ملک میں دہشت گردوں انتہا پسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کے حوصلے بلند ہوسکتے ہیں ،اور وہ لیاری سے نکل کر پورے ملک کو وزیرستان بنادینے کا الٹی میٹم بھی دے سکتے ہیں ۔


ایسی صورتحال نہ ہونی چاہیے اور نہ عدلیہ ملک میں امن کے قیام اور بدامنی کے خاتمے کے اپنے غیر متزلزل عزم کے نتائج کے حصول کے لیے پولیس اور رینجرز کے تساہل اور تجاہل عارفانہ کو نظر انداز کریگی۔ حقیقت میں کراچی ملک میں جاری انتہا پسندی اور دہشت گردی کی صورتحال کا اس وقت نکتہ عروج بنا ہوا ہے اور ہر محب وطن کی نظریں کراچی پر مرکوز ہیں۔انھیں احساس ہے کہ اقتصادی انجن کے طور پر کراچی میں امن ، استحکام اور معاشی ترقی کا تسلسل نہ صرف پاکستان کے لیے ناگزیر ہے بلکہ قومی یکجہتی ، سالمیت ، جمہوریت کے مستقبل اور عوامی امنگوں کی تکمیل اسی وقت ممکن ہوگی جب دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ اور بلاجواز قتل و غارت کے خلاف ریاستی طاقت استعمال ہو اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عوام کو تحفظ مہیا کریں ۔

اس لیے یہ منطق حیران کن اور ناقابل قبول ہوگی کہ جرائم پیشہ جتھوں کی سرکشی کے خلاف پولیس اور رینجرز اہلکاروں کی 200 کی نفری بھی مخدوش علاقے میں داخل نہیں ہوسکتی کیونکہ وہاں سخت مزاحمت ہوگی ۔ اگر پولیس مختلف گینگزاور لوگوں کے سروں کو کاٹ کر فٹبال کھیلنے والوں کی علاقے میں ظالمانہ حکمرانی اور خدائی کا اعتراف کرلے تو کیا ریاستی رٹ کو چند سرکش اور قانون شکن مسلح عناصر کے سامنے سرنڈر ہوجانا چاہیے؟ایسا ہر گز ممکن نہیں ۔اس لیے اجتماعی پسپائی، معذرت خواہانہ طرز عمل اور بزدلانہ دلائل سے کام نہیں چلے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف کراچی پولیس کی ماضی کی خدمات قابل قدررہی ہیں مگر گزشتہ ایک عشرے کے دوران پولیس اور رینجرز کے کریک ڈائون سے حاصل شدہ نتائج خاصے مایوس کن رہے اور کراچی دیکھتے ہی دیکھتے جرائم کا گڑھ بن گیا۔

اس لیے بدامنی کو دفن کرنے کے لیے دونوں فورسز کو مشترکہ موثر حکمت عملی اپناتے ہوئے شہر کراچی کو امن کا گہوارہ بنانے کے عدالتی حکم کی تکمیل کرنی چاہیے ورنہ سماجی انحطاط ، سیاسی کشیدگی، گینگ وار ، لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا کے کارندوں کے ظلم وبربریت کے نتیجے میں انارکی ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوکر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے لیاری کے ایک گینگ وار کلر کے بارے میں استفسار کیا یہ کون ہے، تو عدلیہ کو مجرموں کے نام تک نہیں بتائے گئے، جس پر عدالت عظمیٰ کو کہنا پڑا کہ کسی نہ کسی کو منہ کھولنا ہو گا، میڈیا میں باتیں آ رہی ہیں لیکن قانون نافذ کرنیوالے ادارے لاعلمی ظاہر کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس کے یہ ریمارکس فکر انگیز ہیں کہ انسان چاہے کتناہی برا کیوں نہ ہو، ان کی لاشوں کو مسخ کرنا،سروں کو جسم سے الگ کرکے فٹ بال کھیلنا،ان کے اعضاء کو گٹر میں بہا دینا انسانیت کی توہین اور ریاست کی عملداری کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ بہرحال سپریم کورٹ کے حکم پر وفاقی حکومت نے شاہد ندیم بلوچ کو فوری طور پر آئی جی سندھ تعینات کرنے کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ، سندھ پولیس کے نئے سربراہ شاہد ندیم بلوچ 1990 میں ڈسٹرکٹ سینٹرل کے ایس ایس پی تعینات رہنے کے علاوہ ایف آئی اے میں بھی اہم ذمے داریاں انجام دے چکے ہیں ۔ نئے آئی جی اس سخت آزمائش سے کس طرح سرخرو ہوکر نکلتے ہیں۔اسی بات پر کراچی میں امن کا دارومدار ہے۔

اب تک نہ معلوم کتنے پولیس افسران کے دل بدامنی کے حوالے سے طواف کوئے ملامت کو جا چکے ہیں۔ توقع ہے کہ نئی وفاقی و صوبائی نگراں حکومت چند روز میں فعال ہونے والی ہیں اور وفاقی و صوبائی کابینہ بھی جلد تشکیل پائیں گی ،اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی سمیت پورے میں دہشت گردی اور جرائم کے خلاف ارباب اختیار دو ٹوک پالیسی اختیار کریں۔ تساہل کا خمیازہ عوام بھگت چکے ہیں، ہزاروں شہریوں کا خون رزق خاک ہوچکا ہے ۔یہ حقیقت ذہن نشین کرنی چاہیے کہ دہشت گردی سے مقابلے کے لیے بڑے تحمل،تدبر، مثالی جذبہ سرفروشی،پیشہ ورانہ استعداد و مہارت اور عوام کی زندگی کے تحفظ اور ریاستی سلامتی سے کمٹمنٹ ضروری ہے۔

وقت کم ہے جب کہ مجرمانہ طاقتوںکی سرکشی عروج پر ہے۔ کریک ڈائون کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔سیاسی جماعتیں نئے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں ملک ایک اہم جمہوری دورانیے سے گزر رہا ہے، ملکی معیشت کو دہشت گردی کی وارداتوں سے ناقابل تلافی نقصان ہورہا ہے۔ اس کا سدباب قانون کی حکمرانی قائم کرکے ہی کیا جاسکتا ہے دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور نہ ختم ہوتی قتل و غارت جمہوری عمل کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ جرائم پیشہ جہاں ہوں وہاں ان پر قہر بن کر فورسز نازل ہوں تب جرائم کا خاتمہ اور امن قائم ہوگا۔
Load Next Story