صدر اوباما اسرائیل پر بھی دباؤ ڈالیں

امریکا پختہ عزم کے ساتھ ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام چاہتا ہے۔


March 22, 2013
صدر اوباما اگر مشرق وسطیٰ میں حقیقی معنوں میں قیام امن کے خواہاں ہوتے تو وہ مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کے لیے اسرائیل پر دبائو ڈالتے۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

مسئلہ فلسطین گزشتہ چھیاسٹھ سال سے حل طلب چلا آ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے فورم پر کئی بار مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے قراردادیں پیش کی گئیں مگر بات آگے نہ بڑھ سکی اور معاملہ جوں کا توں چلا آ رہا ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما جو ان دنوں مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں' نے فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ آزاد ریاست فلسطینیوں کا حق ہے، امریکا پختہ عزم کے ساتھ ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام چاہتا ہے' مسئلے کا دو ریاستی حل اب بھی قابل عمل ہے۔ اوباما نے مقبوضہ علاقے میں جاری یہودی بستیوں کی تعمیر کی مذمت کی ۔ اسرائیل کا قیام ہی یورپی قوتوں کا مرہون منت ہے اور اب بھی ان ہی کی چھتری تلے اسرائیل اپنے وجود کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل ایک طویل عرصے سے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ اب تک لاکھوں فلسطینی اسرائیلی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔

اسرائیل طاقت کے زعم میں معمولی بات کو بہانہ بنا کر فلسطینیوں کے خلاف کارروائی میں ان کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنا شروع کر دیتا ہے۔ ایسے موقع پر اقوام متحدہ سوائے روایتی مذمتی بیان سے آگے نہیں بڑھتی۔ اسرائیل امریکی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ امریکا ہر مشکل وقت میں اس کی مالی مدد کر کے اسے سہارا دیتا ہے۔ دوسری جانب عالمی قوتیں اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کے لیے تیار نہیں۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی اقوام متحدہ میں جب بھی مذمتی قرار داد پیش ہوئی امریکا نے اسے بڑی ڈھٹائی سے ویٹو کر کے اسرائیل کا ساتھ دیا۔

اب بھی صدر اوباما نے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف کوئی دو ٹوک اور واضح موقف اپنانے کے بجائے صرف مذمتی بیان جاری کردیا۔ صدر اوباما کے اس بیان کہ اگر بستیوں کی تعمیر جاری رہی تو امن کا قیام مشکل ہو جائے گا' سے نہ تو اسرائیل کسی قسم کے دبائو میں آ کر بستیوں کی تعمیر اور نہ فلسطینیوں کے خلاف کسی جارحیت سے باز آئے گا۔ مشرق وسطیٰ کے دورے کے سلسلے میں صدر اوباما پہلے تل ابیب پہنچے تھے اور اسرائیل اور امریکا کے دائمی تعلقات کا اعادہ کیا تھا۔ ان کی تمام ترہمدردیاں اور عملی تعاون اسرائیل کے ساتھ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اوباما نے پوری دنیا کو واضح طور پر عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے پاس ''خود اپنے دفاع کا اختیار'' حاصل ہے۔ امریکا کی چالبازیاں عیاں ہوچکی ہیں۔ صدر اوباما اگر مشرق وسطیٰ میں حقیقی معنوں میں قیام امن کے خواہاں ہوتے تو وہ مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کے لیے اسرائیل پر دبائو ڈالتے' اس کی امداد بند کرنے کی دھمکی دیتے مگر انھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔

انھوں نے ایران کے خلاف تو سخت موقف اختیار کیا اور غزہ پٹی سے اسرائیلی علاقوں پر راکٹ حملوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا مگر یہودی بستیوں کی تعمیر کو صرف قیام امن کے لیے خطرہ قرار دے کر اپنا روایتی فرض پورا کر دیا ۔ امریکا اور دیگر عالمی قوتیں اگر مشرق وسطیٰ میں حقیقی معنوں میں قیام امن کی خواہاں ہیں تو انھیں اسرائیل کی بے جا حمایت ترک کر کے انصاف بر مبنی فیصلے کرنے اور فلسطینیوں کو ان کا حق دینا ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں