میاں نواز شریف اور سندھ کی سیاست
نواز شریف صاحب نے کراچی پر وقت لگایا ہوتا تو نبیل گبول پیپلز پارٹی چھوڑ کر ایم کیوایم میں شامل نہ ہوتے۔
KARACHI:
پاکستان پیپلز پارٹی نے اقتدار میں پانچ سال ضرور پورے کیے ہیں۔ مگر اپنے عرصہ اقتدار میں وہ کوئی ایسا تاثر نہیں پیدا کر پائی جسے سیاسی حرکیات کو سمجھنے والے Feel Good Factor کہا کرتے ہیں۔ اپنی حکومت کی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد سیاسی جماعتوں کو دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے ایسے ہی فیکٹر کی ضرورت ہوا کرتی ہے ۔ 1980ء کی دہائی میں برطانیہ کی مارگریٹ تھیچر نے اسی فیکٹر کی بنیاد پر لمبے عرصے تک وزارتِ عظمیٰ کو اپنے پاس رکھا۔ کلنٹن کا جادو بھی کچھ اسی طرح کا رہا ہے۔
ہمارے ہمسایے بھارت میں اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ مگر یہ کچھ نہ ہو پایا۔ 2002ء میں وہ India Shining کے نعرے کے ساتھ میدان میں اُترے۔ سونیا گاندھی کی کانگریس نے مگر بھارتی عوام کی اکثریت کو قائل کر دیا کہ واجپائی کی حکومت میں ان کے ملک نے بے تحاشہ ترقی ضرور کی ہے مگر اس کے ثمرات شہروں میں رہنے والے نچلے متوسط طبقے اور کچی بستیوں تک ہرگز نہیں پہنچے۔ ان کی زندگیاں بلکہ مزید دشوار ہو گئی ہیں۔ دیہاتوں میں رہنے والے چھوٹے کاشتکار تو بالکل تباہ و برباد ہو گئے۔ معاشی ترقی سے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو کانگریس نے India Shining کے خلاف ''احتجاجی ووٹ'' دینے کے لیے متحد کر دیا۔
پاکستان کے شہروں میں رہنے والوں کی ایک بے پناہ اکثریت 2013ء میں پیپلز پارٹی کے گزشتہ پانچ سالوں کے خلاف ایسا ہی احتجاجی ووٹ ڈالنے پر تلی نظر آ رہی ہے۔ ایسے ماحول میں اس جماعت کے نواز شریف جیسے مخالفوں کو تو ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے کہ وہ اس احتجاجی ووٹ کا ٹمپو بننے دیں۔ انھیں غیر ضروری اور فروعی معاملات میں الیکشن کمیشن یا اعلیٰ عدالتوں کو اُلجھا کر پیپلز پارٹی کو یہ موقعہ نہیں دینا چاہیے کہ وہ یہ کہانی گھڑ سکے کہ ان کے روایتی مخالفوں نے ایک بار پھر عدالت یا الیکشن کمیشن کے ساتھ ''ایکا'' کر کے انھیں دوبارہ اقتدار تک نہیں پہنچنے دیا۔
سندھ میں ایم کیو ایم جس طرح راتوں رات ''اپوزیشن'' بن کر ایک متفقہ نگران وزیر اعلیٰ لے آئی وہ یقیناً ایک قابل بھروسہ بات نظر نہیں آتی۔ اس کے باوجود نواز شریف صاحب اگر عدالت یا الیکشن کمیشن کی مدد سے ایک اور قائم مقام وزیر اعلیٰ لے بھی آئیں تو ان کی جماعت کو ٹھوس معنوں میں آیندہ انتخابات میں کیا فائدہ ہو گا؟ میں اس کالم میں چند دن پہلے بڑی تفصیل سے بیان کر چکا ہوں کہ گزشتہ پانچ سالوں میں نواز شریف اور ان کی جماعت نے سندھ کے شہروں میں مقیم لوگوں سے کسی سنجیدہ مکالمے کا آغاز ہی نہیں کیا۔ پنجاب میں شہباز شریف کی ''گڈ گورنس'' کو کراچی اور حیدر آباد کے بہت سارے حلقوں میں سراہا جا رہا تھا۔
آج سے دو سال پہلے کی بات ہے میں ایک غیر ملکی این جی او کے تعاون سے ہونے والی سیاسی کارکنوں کی ورکشاپ کے اختتامی ڈنر میں موجود تھا۔ کراچی سے اس کھانے میں 30 کے قریب نوجوان مدعو تھے۔ ان سب کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں اور نسلی و لسانی گروہوں سے تھا۔ اکیلے میں مجھ سے بات کرتے ہوئے ان میں سے زیادہ تر نوجوانوں نے میرے سامنے اقرار کیا کہ وہ دل سے نواز شریف سے متاثر ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ معاشی مسائل پر توجہ رکھنے کی بنیاد پر اس ملک میں لسانی و نسلی تفریق سے بالاتر ایک نیا سیاسی Narrative متعارف کروا سکتے ہیں۔
لیکن ان نوجوانوں کو ہرگز یہ خبر نہیں تھی کہ نواز شریف کی جماعت سے اپنے رابطے استوار کرنے کے لیے وہ کراچی میں کس شخص سے ملاقاتیں کریں۔ حیدر آباد کے ایک تفصیلی دورے میں 2010ء کے دوران نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد سے بھی میں نے ایسے ہی خیالات سنے تھے۔ سکھر میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ''پکے ووٹر'' بھی چائے خانوں وغیرہ میں ملتے تو ایسی ہی باتیں کرتے۔ نواز شریف اور ان کی جماعت نے مگر ایسے لوگوں تک پہنچنے کا کبھی تردد ہی نہیں کیا ہے۔ پیر پگاڑا، ممتاز بھٹو یا امتیاز شیخ کے ''ساتھی'' بن کر نواز شریف ایسے نوجوانوں کو ہرگز اپنی طرف راغب نہیں کر سکتے۔ ارباب رحیم بھی ایسے لوگوں کے لیے کوئی اتنے پرکشش نہیں ہیں۔
نواز شریف صاحب نے کراچی پر وقت لگایا ہوتا تو نبیل گبول پیپلز پارٹی چھوڑ کر ایم کیوایم میں شامل نہ ہوتے۔ چونکہ انھوں نے ایک تاریخی موقعہ ضایع کر دیا ہے۔ اس لیے زیادہ بہتر ہے کہ فی الوقت جو ہے اسی پر گزارہ کریں اور ہرگز ایسے اقدامات اٹھاتے دکھائی نہ دیں جو سندھ کے ووٹروں کو اس طرح کا پیغام دیں کہ ''کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے'' کی بنیاد پر رائے ونڈ کے نواز شریف پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگانے کے لیے ایک بار پھر کسی جام صادق علی یا ممتاز بھٹو کو بے چینی سے ڈھونڈ رہے ہیں۔2013ء کا دیہی اور شہری سندھ اب ایسے کرداروں کی پھرتیوں اور فن کاریوں سے بہت آگے بڑھ گیا ہے۔
وہاں کے نوجوانوں کے غصے اور مایوسی کو ہماری نام نہاد مین اسٹریم پارٹیوں کے مقابلے پر مذہبی جماعتیں زیادہ بہتر انداز میں سمجھ رہی ہیں۔ کراچی کی جماعت اسلامی نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ جمعیت علمائے اسلام نے اس شہر کے پشتونوں ہی میں نہیں اندرون سندھ بھی اپنے حلقہ اثر کو یقینا بڑھایا ہے۔ یہ دونوں جماعتیں پاکستان کے آئین اور انتخابی نظام کے تحت رہ کر ہی اپنی سیاست کرنا چاہ رہی ہیں۔ مگر حالات اسی طرح کے رہے تو ان لوگوں کے لیے زیادہ راستے نکلیں گے جو ''بندوں کو گنا کرتے ہیں'' والے نظام کو تشدد کے ذریعے ''مشرف بہ اسلام '' کرنا چاہتے ہیں ۔