کرپشن‘ احتساب

جس مسئلے کو غیر اہم اور غیر ضروری کہہ کر پیچھے دھکیلا جا رہا ہے وہ مسئلہ (احتساب) نہ غیر اہم ہے نہ غیر ضروری ہے


Zaheer Akhter Bedari March 22, 2013
[email protected]

لاہور: ہمارے محترم سیاستدانوں نے ''الیکشن التوا کا شکار ہوجائیں گے'' کو جواز بنا کر آئین کی شق 63/62 سے بچنے کے کچھ راستے نکال لیے اور احتساب کا مطالبہ کرنے والوں پر یہ الزام لگایا کہ وہ الیکشن کی راہ میں احتساب کے نام پر رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ مئی کے مہینے میں الیکشن کا انعقاد یقینی نظر آ رہا ہے۔

اس حوالے سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سیاستدان، سول سوسائٹی، عدلیہ، فوج ، الیکشن کمیشن سب ایک زبان ہو کر کہہ رہے ہیں کہ ہر حال میں الیکشن وقت مقررہ پر ہو جانے چاہئیں اور الیکشن کے نتیجہ خیز ہونے کے لیے صرف یہ شرط لگائی جا رہی ہے کہ الیکشن غیر جانبدارانہ، ایماندارانہ اور شفاف ہونے چاہئیں۔ فرض کر لیں کہ آنے والے الیکشن 100 فیصد غیر جانبدارانہ، ایماندارانہ اور شفاف ہو جاتے ہیں تو آئیں گے کون؟ اس حقیقت کو قومی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے کہ اب تک جتنے انتخابات ہوئے ہیں یہ انتخابات جیت کر آنے والوں نے عوام کے مصائب دور کرنے کے بجائے مسائل میں اتنا اضافہ کر دیا ہے کہ عوام کی کمر ان مسائل کے بوجھ سے جھک گئی ہے۔

یہ بات بھی قومی سطح پر تسلیم کی جا چکی ہے کہ عوامی مسائل میں اس بے مہار اضافے کی وجہ یہ ہے کہ حکمرانوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی، ان کا سارا وقت اپنے اور اپنی اولاد کے مسائل حل کرنے میں ہی صرف ہو گیا اور آج کا سیاسی منظر نامہ یہی بتا رہا ہے کہ مئی میں منعقد ہونے والے الیکشن میں چہروں کی تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ وہی لوگ برسر اقتدار آئیں گے جو 35 سال سے آ رہے ہیں۔ اگر غیر جانبدارانہ، ایماندارانہ اور شفاف الیکشن کا نتیجہ یہی نکلنا ہے تو پھر اس الیکشن سے کیا تبدیلی آئے گی؟

جس مسئلے کو غیر اہم اور غیر ضروری کہہ کر پیچھے دھکیلا جا رہا ہے وہ مسئلہ (احتساب) نہ غیر اہم ہے نہ غیر ضروری ہے، اگر آنکھوں سے مفاداتی سیاست کی پٹی اتار کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ آرٹیکل 62 اور 63 پر مکمل عملدرآمد کے بغیر کرائے جانے والے انتخابات خواہ وہ کتنے ہی غیر جانبدارانہ، کتنے ہی ایماندارانہ، کتنے ہی شفاف ہوں ایک فضول مشق کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو بات اس ملک کے اٹھارہ کروڑ ناخواندہ یا نیم خواندہ عوام سمجھ رہے ہیں وہ بات سول سوسائٹی، عدلیہ اور فوجی قیادت کی سمجھ میں کیوں نہیں آ رہی ہے؟ یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت نے پہلی بار اپنی باری کے پانچ سال مکمل کر لیے ہیں اور جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے بر وقت انتخابات ہونے چاہئیں لیکن اس بات پر بہت کم توجہ دی جا رہی ہے کہ پچھلے 5 سال اور گزشتہ 35 سال میں جمہوریت نے عوام کو کیا دیا؟

35 سالہ جمہوریت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام کیوں رہی؟ اس سوال کا جواب اس لیے ضروری ہے کہ ہماری جمہوریت مئی کے بعد ممکنہ طور پر جمہوریت کے جس دور میں جانے والی ہے کیا یہ جمہوریت پچھلی جمہوریتوں سے مختلف ہو گی، اگر مختلف ہو گی تو وہ کس طرح ہو گی، اگر مختلف نہیں ہو گی تو پھر عوام کے مسائل حل کرنے میں وہ کس طرح کامیاب ہو گی؟ جیسا کہ ہم نے نشاندہی کی ہے جب برسراقتدار طبقے میں عوام کے مسائل پر کسی حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ ہی نہیں کیا، صرف اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے مسائل حل کرنے ہی میں سنجیدہ رہے تو پھر عوام کے مسائل حل ہونے کی امید کس طرح کی جا سکتی ہے۔ اس ذاتی سنجیدگی کا محور ہمیشہ زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول رہا ہے۔

جب قومی دولت کا بڑا حصہ لوٹ مار کی نذر ہوتا رہے تو پھر عوام تک دولت کی سرکولیشن کس طرح ممکن رہتی ہے۔ یہ نہیں کہ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں بلکہ وسائل تو اس قدر ہیں کہ اگر ان کا استعمال غریب طبقات کی فلاح کے لیے ہو تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ملک سے غربت، بے روزگاری ختم اور عوام کو تعلیم اور علاج کی سہولتیں بھی مہیا ہو سکیں گی لیکن جب دولت کا بڑا حصہ 2 فیصد ایلیٹ اور حکمران طبقات ہی میں تقسیم ہوتا رہے تو پھر عوام کے لیے کیا بچا رہے گا؟ آج کل ٹی وی پر بتایا جا رہا ہے کہ ہماری وزارت خزانہ نے ہمارے محترم وزیر اعظم کو اب تک 39 ارب روپے جاری کیے ہیں۔

ہمارے ایک بیوروکریٹ پر 46 ارب کی کرپشن کا الزام ہے، ملک کے کئی اداروں پر اربوں روپوں کی کرپشن کے الزامات ہیں۔ کسی پر 5 ارب کی رقم سوئس بینکوں میں رکھنے کے الزامات اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ شریف فیملی پر برسوں سے اربوں کی کرپشن کے حوالے سے مقدمات زیر سماعت ہیں، بینکوں کے نادہندگان پر بھی کھربوں کے قرض معاف کرانے کے الزامات اعلیٰ عدلیہ کی میز پر برسوں سے پڑے ہیں۔

یہ چند وہ کیس ہیں جو سیاستدانوں کی آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے میڈیا میں آ گئے ہیں ورنہ یہ بدعنوانیاں بھی عوام کی نظروں سے اسی طرح اوجھل رہتیں جس طرح سیکڑوں اہل سیاست کی کرپشن اب تک عوام کی نظروں سے اوجھل ہے۔ بڑی اور بھاری کرپشن غیر ملکی امداد اور قرضوں میں کی جاتی ہے۔ کیا کسی نے آج تک غیر ملکی امداد، قرضوں اور ترقیاتی کاموں پر خرچ کی جانے والی کھربوں کی رقوم کا حساب لیا ہے؟ کہا جا رہا ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے ارکان کو 25-25 کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈ مہیا کیے گئے۔ کیا کسی نے اس کا حساب لیا ہے؟

کرپشن کے بے شمار طریقے ہیں جن پر نہ کسی کی نظر جاتی ہے نہ کوئی اس کا نوٹس لیتا ہے، کرپشن اب اربوں سے کم کی ہو تو اس کا نوٹس ہی نہیں لیا جاتا مثلاً ہر رکن اسمبلی کو ترقیاتی کاموں کے لیے کروڑوں کے فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں، بلوچستان اسمبلی کے ہر ممبر کو 25 کروڑ کے ترقیاتی فنڈ مہیا کرنے کی خبریں ٹی وی پر چل رہی ہیں اگر کسی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 100 ہو تو ان کا مجموعی فنڈ2 ارب 50 کروڑ بن جاتا ہے کیا کسی صوبائی یا مرکزی حکومت نے ان ترقیاتی فنڈز کا حساب طلب کیا ہے؟

ایک خبر کے مطابق حال ہی میں سارے قانونی پروسس کو عبور کر کے وزیر اعظم کو ان کے حلقہ انتخاب کی ''ترقی'' کے لیے 3 ارب روپے سے زیادہ رقم فراہم کی گئی۔ اگر یہ خبر درست ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن سے دو ڈھائی ماہ قبل اتنی بڑی رقم کا استعمال کس طرح ہو گا۔ ایک اور دلچسپ مسئلے کا ذکر۔ ہماری موجودہ حکومت کا ہر چھوٹا بڑا لیڈر اپنے کارنامے گنواتے وقت لازمی طور پر یہ بتاتا ہے کہ 2008ء سے پہلے گندم درآمد کی جاتی تھی اب گندم برآمد کی جا رہی ہے اور حکومت کے گوداموں میں لاکھوں ٹن گندم پڑی ہوئی ہے۔

یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاکھوں ٹن گندم کی موجودگی میں آٹے کی قلت کیوں پیدا کی گئی؟ 30 روپے کلو فروخت ہونے والا آٹا 45-40 روپے کلو تک کیسے پہنچ گیا؟ جب زیادہ شور مچا تو حکومت نے از راہ کرم آٹے کی قیمت 33 روپے کلو مقرر کر دی، لیکن یہ انتہائی ناقص اور مضر صحت آٹا صرف فلور ملوں پر دستیاب ہے، مارکیٹ میں آٹے کی قیمت 40 روپے کلو ہے۔ اس چھوٹی سی الٹ پھیر میں اربوں کے ''لین دین'' اور کمائی ہو سکتی ہے۔ کیا حکومت نے اس کھلی ہیرا پھیری کا کوئی نوٹس لیا۔ کیا کسی ادارے نے اس کھلی کرپشن کا کوئی از خود نوٹس لے کر مجرموں کو سزا دی؟

کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کے جسم میں خون کی طرح دوڑتی رہتی ہے، اس لیے اسے مکمل طور پر ختم کرنا تو ممکن ہی نہیں لیکن پسماندہ ملکوں میں سیاستدانوں کو چونکہ صدیوں کے نوآبادیاتی نظام کے بعد اقتدار اور اختیار ملا ہے اس لیے ان ملکوں کے بھوکے سیاستدان کرپشن پر اسی طرح ٹوٹ پڑے ہیں جس طرح گدھ لاشوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اربوں کی کرپشن روز مرہ کا معمول بن گئی ہے۔

اصل مسئلہ اعلیٰ سطح کی کرپشن کا احتساب ہے اور وہ احتساب اس وقت بامعنی ہو سکتا ہے جب ہر سیاستدان کے اندرون ملک اور بیرون ملک اثاثوں کی چھان بین کی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے کسی حکمران کے اثاثے کیا تھے اور اب کیا ہیں؟ یہ کام غیر جانبداری، ایمانداری اور شفاف طریقے سے ہو تو سیاست بھی گند سے صاف ہوگی اور عوام کے مسائل حل کرنے کا راستہ بھی نکل آئے گا ورنہ وہی لٹیرے دوبارہ اقتدار میں آئیں گے اور کرپشن کا وہی کھیل جاری رہے گا جو 65 سال سے جاری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں