’’اصول پسند‘‘ سیاست دان

سیاست قومی سطح پر ہو یا کسی کلب کی، سب میں جوڑ توڑ ہوتا ہے۔

latifch910@yahoo.com

لاہور:
سیاست میں بعض اوقات بالکل سیدھے اور آسان کام بھی انتہائی مشکل ہوجاتے ہیں' اب دیکھیں نا! نگران وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ کی تقرری کا آئین میں غیر مبہم طریقہ کار درج ہے لیکن جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اس وقت مرکز اور پنجاب میں یہ معاملہ ہنوز اٹکا ہوا ہے۔ خیبر پختونخوا والوں نے اپنے وقتی نوعیت کے سیاسی مفادات کو پس پشت ڈالا' وزیر اعلیٰ امیر حیدر ہوتی نے اپوزیشن لیڈر اکرم درانی سے مشورہ کیا اور جسٹس طارق پرویز کو نگران وزیر اعلیٰ نامز کر دیا' سندھ میں بھی نگران وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ زاہد قربان علوی نے حلف اٹھا لیا ہے۔

سندھ میں نگران سیٹ اپ کے لیے کوئی ایسی مشکل نہیں تھی' یہاں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے فیصلہ کرنا تھا' انھوں نے باآسانی کرلیا۔ بلوچستان میں اگر تھوڑی بہت تاخیر ہوئی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ نواب اسلم رئیسانی کی حکومت کو بحال کرنے کے بعد اسمبلی تحلیل کی جانی تھی۔ وہاں کسی سیاسی پارٹی کے بجائے سرداروں کا معاملہ ہوتا ہے' وہی حزب اقتدار ہوتے ہیں' وہی حزب اختلاف' وہاں کسی کو عارضی اقتدار دینا کوئی مشکل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ کے لیے غوث بخش باروزئی پر اتفاق ہو گیا۔یوں یہ مرحلہ بھی با آسانی طے پا گیا۔ اصل لڑائی مرکز اور پنجاب میں ہو رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مرکز میں ن لیگ پیپلز پارٹی کو رعایت دے گی تو پیپلز پارٹی پنجاب میں ن لیگ کا نگران وزیر اعلیٰ مان لے گی۔ یوں یہ مشکل کام بھی با آسانی پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔

اس وقت ملک میں جوڑ توڑ کی سیاست عروج پر ہے۔ سیاست قومی سطح پر ہو یا کسی کلب کی، سب میں جوڑ توڑ ہوتا ہے۔ کئی برس پہلے لاہور پریس کلب کے الیکشن ہو رہے تھے، ایک امیدوار نے کہا کہ میں اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا لیکن ایک بات ذہن میں رکھنا میرا اصول کوئی نہیں ہے۔ ہماری سیاست میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ایک جماعت کل حکومت کے ساتھ تھی توآج اپوزیشن میں ہے۔ وہ جب حکومت کے ساتھ تھی تب بھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتی تھی اور جب اپوزیشن میں آئی، تب بھی اس کے اصول قائم تھے۔ سیاست دانوں میں قومی مفاد بھی سانجھا ہے کیونکہ ان کا ہر فیصلہ قومی مفاد میں ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہمارا ہر اینکر اور کالم نگار اٹھارہ کروڑ عوام کا نمایندہ ہے۔انھیں عوام کا دکھ بھی ہر وقت ستاتا رہتا ہے۔

ذرا یاد کیجیے آج کی سب سے بڑی اپوزیشن مسلم لیگ ن آغاز میں مرکزی حکومت میں شامل تھی، مسلم لیگ ن کے اسحاق ڈار اس جمہوری حکومت کے پہلے وزیر خزانہ بنے تھے، پھر ن لیگ اپوزیشن میں آ گئی کیونکہ وہ اگر حکومت میں رہتی تو پھر اپوزیشن لیدڑ چوہدری نثار نے نہیں بلکہ کسی اور نے ہونا تھا، اس صورتحال میں اپوزیشن لیڈر کون ہو سکتا تھا؟ مولانا فضل الرحمان سے بہتر نام میرے ذہن میں نہیں آ رہا۔ واقعی مولانا ایسے واحد سیاست دان ہیں جو ہر رول میں یوں فٹ بیٹھتے ہیں کہ یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ یہ رول بنا ہی ان کے لیے تھا۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔

ن لیگ اپوزیشن میں نہ ہوتی تو نگران وزیر اعظم کا فیصلہ کسی اور کے ہاتھ میں چلا جاتا۔ ایم کیو ایم سندھ اسمبلی کے آخری دنوں میں اپوزیشن میں اسی لیے بیٹھی تھی کہ پیپلز پارٹی اور وہ اپنی مرضی کا نگران سیٹ اپ تشکیل دے سکیں اور وہ اس میں کامیاب رہیں۔ بلوچستان میں کوئی سیاسی جماعت معنی نہیں رکھتی' وہاں پارٹی سے زیادہ شخصیات کی اہمیت ہے لہٰذا یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس پر کوئی رائے دی جا سکے۔


جہاں تک نگران وزیراعظم اور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کا معاملہ ہے' کسی نہ کسی طریقے سے یہ مرحلہ بھی طے ہو جائے گا اور پھر سیاسی اسٹیک ہولڈرز اپنے اپنے لوگ انتظامیہ میں ایڈجسٹ کرا لیں گے تاکہ اب یہ مسئلہ بھی ابھرا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن آزادانہ اور شفاف انتخابات کرا سکے گا کیونکہ نگران سیٹ اپ غیر سیاسی تو ہو سکتا ہے لیکن غیر جانبدار ہر گز نہیں ہوگا۔ نگرانوں کی نامزدگی پر اتنا واویلا ہی اسی لیے ہو رہا ہے کہ پیپلز پارٹی' ن لیگ' ایم کیو ایم' اے این پی' جے یو آئی اور ق لیگ اپنے اپنے مفادات کا تحفظ چاہتی ہیں۔ ایسے میں مجھے تو فخرو بھائی اور ان کی ٹیم پر ترس اور رحم آ رہا ہے کہ منہ زور سیاستدانوں کو من مانی سے کیسے روک سکیں گے۔ اب الیکشن کے جو بھی نتائج ہوں گے' فخرو بھائی اور دیگر چار صوبائی چیف الیکشن کمشنروں کو انھیں درست قرار دینا پڑے گا۔

مقتدر حلقے بھی اس ساری سیاسی مشق کو بغور دیکھ رہے ہیں' اندر کی خبر رکھنے والے ایک دوست کا کہنا ہے کہ مقتدر حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن طاقتور سیاستدانوں کے سامنے بے بس ہو رہا ہے اور وہ کئی معاملات میں سیاستدانوں کے دبائو میں آ چکا ہے۔ مقتدر حلقوں کا کہنا ہے کہ الیکشن ضرور ہوں گے لیکن یہ کسی بڑی سیاسی جماعت کے ڈیزائن کے مطابق نہیں ہوںگے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عام انتخابات میں عمران خان ڈارک ہارس ثابت ہوں گے۔ادھر صورتحال یہ ہے کہ خان صاحب تو ذہنی طور پر وزیر اعظم بن چکے ہیں بلکہ اپنی کابینہ بھی تشکیل دے چکے ہیں۔

خان صاحب کی تحریک انصاف کے حوالے سے میرا خیال مختلف ہے کیونکہ مسلم لیگ ن' پیپلز پارٹی' ایم کیو ایم' جے یو آئی اور اے این پی نگران سیٹ اپ میں جس طرح اپنے بندے داخل کر رہی ہیں' ایسے میں مجھے عمران خان اور جماعت اسلامی کے لیے مستقبل کی اسمبلی میں کوئی خاص جگہ نظر نہیں آتی۔ بلکہ مجھے تو لگتا ہے کہ مستقبل کی اسمبلیوں میں بھی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ انھی سیاسی پارٹیوں کی اکثریت ہو گی جنہوں نے ابھی ابھی اقتدار چھوڑا ہے۔ پھر وہی جوڑ توڑ'مفاہمت کی سیاست اور وہی مجبور عوام ہوں گے۔

بہر حال تحریک انصاف کی مہم کو دیکھ کر بعض دوست کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف پنجاب میں ن لیگ کے لیے شدید مسائل کا باعث ہو سکتی ہے' صدر زرداری بھی وسطی پنجاب میں کامیابی کے لیے ساری امیدیں عمران خان سے وابستہ کیے ہوئے ہیں' ان کا خیال ہے کہ جن حلقوں میں تحریک انصاف کا امیدوار مضبوط ہو گا وہاں ن لیگ کے ووٹ تقسیم ہوں گے اور سیٹیں پیپلز پارٹی کی جھولی میں گریں گی۔ اس حوالے سے فی الحال تو کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ ایک بات اہم ہے کہ الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق اسمبلی کے امیدواروں کے لیے اخراجات کی حد مقرر ہے لیکن سیاسی جماعتیں ابھی سے جس طرح اشتہار بازی کر رہی ہیں، شہروں میں بینرز اور ہورڈنگز لگ رہے ہیں، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن بیچارا اپنی آنکھوں کے سامنے قانون کی خلاف ورزی ہوتے دیکھے گا اور کچھ کر بھی نہیں سکتا۔

اتنا سب کچھ لکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ لوگ مایوس ہو جائیں۔ حوصلہ رکھیں' آپ کی آدھی مشکلات نگران دور حکومت اور باقی منتخب حکومت آنے کے بعد ختم ہو جائیں گی۔ لوڈ شیڈنگ وغیرہ کا مسئلہ حل ہونے میں دو ڈھائی سال لگ سکتے ہیں' دیگر مسائل دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو جائیں گے۔ یہ تو میں آپ کو بتا ہی چکا ہوں کہ سیاست دان اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ ان کا کوئی اصول نہ بھی ہو تو کیا فرق پڑتا ہے؟
Load Next Story