مشرف آمدید
وطن واپسی کے بعد جنرل(ر) پرویز مشرف فوج کے کندھے پر رکھ کر سیاسی بندوق نہیں چلا سکیں گے ۔
www.facebook.com/syedtalathussain.official
جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اب وہ شیر نہیں رہے جن کی آمد سے رن کانپنے لگتا ہے ۔ وہ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں عزیز و اقارب، اچھے دوست اور ذاتی معالج آرام کا مشورہ دیتے ہیں ۔ بعض اوقات ہدایت ملنے پر اللہ اللہ کرنے کا موقع بھی مل جاتا ہے ۔ جنرل (ر) پرویز مشرف اپنے مخصوص کمانڈو اسٹائل کے تابع ہیں لہٰذا ان کے لیے ایسی ہدایت میسر ہے اور نہ ایسے مشیر موجود ہیں جو ان کو حقائق سے آگاہ کر پائیں اور بتادیں کہ سیاست میں ان کی موجودگی کسی بڑی تبدیلی کا باعث نہیں بن سکتی۔
ان کے کان بھرنے والے تو ایسے ہیں کہ خدا کسی دشمن کو بھی نہ دے، ان میں سے ایک موصوف سے جب جوانی میں ان کے افسرنے ڈیورنڈلائن کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے جھٹ سے جواب دیا کہ یہ امریکا اور میکسیکو کے درمیان ایک بارڈر ہے۔ زمینی حقائق سے آگاہی کا فقدان بھی وہی ہے جو پہلے تھا۔ لہٰذا جنرل مشرف کو یہ بتایا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں واپس جا کر ایک نیا انقلاب برپا کر دیں گے، ان کے کان میں یہ بات بھی ڈالی جا رہی ہے کہ ماضی میں ان کے اچھے کاموں کی وجہ سے ان کی قدر و منزلت اب بھی وہی ہے جو پہلے تھی۔ بلکہ شاید زرداری صاحب کے کارناموں کی وجہ سے بڑھ گئی ہو۔
ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ حالات سے ستائے ہوئے عوام کسی بھی جعلی پیر کے آستانے پر داد رسی کے لیے جاسکتے ہیں۔ بجلی کے ہاتھوں ہارے ہوئے، لاقانونیت کے مارے ہوئے، رزق کی تنگی میں مبتلا لوگ ماضی کو ویسے ہی یاد کرتے ہیں جیسے ایوب خان کے دور کی باتیں آج کل دل کو لبھاتی ہیں۔ مگر پاکستان میں تمام مشکلات کے باوجود سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے اتحادیوں نے مل کر جو تباہ کن ورثہ چھوڑا ہے اس سے مستفید ہونے کے لیے تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ ن اور دیگر سیاسی جماعتیں میدان میں اتری ہوئی ہیں۔ جنرل ( ر) پرویز مشرف کی سیاسی جماعت زمین پر کہیں موجود نہیں ہے نہ ان کے عہدے دار حقیقت میں موجود ہیں اور نہ کوئی انتظامی ڈھانچہ کھڑا ہے۔ ایم کیو ایم کی طرف سے جس سیاسی مدد کی توقع تھی وہ بھی شاید اب نہ ملے۔
ویسے بھی مولانا طاہر القادری کے ساتھ محبت جتانے والوں نے جو کیا اس کے بعد سیاسی طور پر ان حلقوں سے امید باندھنا خود کو در یا برد کرنے کے مترادف ہو گا۔ اسلام آباد میں طاہر القادری کے ساتھ تمام کابینہ اور اتحادی جماعتیں کھڑی تھیں مگر ان کو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا۔ جنرل ( ر) پرویز مشرف کا سیاسی طور پر تحفظ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ان کے پرستار انٹرنیٹ پر بیٹھ کر تعریفوں کے پُل تو باندھ سکتے ہیں لیکن کمروں سے باہر نکل کر ان کے لیے کسی مدد کا باعث نہیں بن سکتے۔ وہ خود کو پاکستان میں انتہائی اکیلا پائیں گے۔
ان کا دوسرا بڑا مسئلہ اس ادارے سے متعلق ہے جس پر وہ ایک طویل عرصے تک بطور چیف آف آرمی اسٹاف چھائے رہے، مقتدر حلقوں نے جنرل (ر) مشرف کو اتنا عرصہ ملک سے باہر رکھنے کے لیے جو انتظام کیے رکھے، جنرل ( ر) مشرف اب ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے میاں نواز شریف ضمانت دینے کے باوجود وطن واپسی کی کوشش کرتے رہے اور ایک مرتبہ ان کا جہاز اڑا کر ان سمیت واپس سعودی عرب بھی بھیجنا پڑا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کو متحدہ عرب امارات کی طرف سے پاکستان نہ جانے کی جو ہدایت ملی تھی، اب وہ اس کو نہیں مان رہے۔ ویسے بھی یو اے ای (UAE) بھی ان کی میزبانی کر کے تھک گیا ہے۔
جارج ڈبلیو بش کے کہنے پر انھوں نے جو التفات اور سہولیات مہیا کی تھیں اب وہ سلسلہ ختم ہونے لگا ہے۔ سعودی عرب کے کنگ نے بھی جنرل صاحب کو عمومی ہدایت یہی دی ہے کہ وطن واپس جا کر مزید مسائل کھڑے نہ کریں۔ اس ہدایت کے جواب میں جنرل (ر) مشرف کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان کو آرمی سے کوئی غرض نہیں وہ اپنی زندگی گزارنے اور سیاست کرنے کے مجاز ہیں۔
یقیناً اس پر پاکستان کی فوج کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا، جنرل مشرف بطور سیاست دان پاکستان واپس آ رہے ہیں اپنی پارٹی رجسٹرڈ کروا چکے ہیں۔ انتخابی نشان بھی حاصل کر لیا ہے اور ان کے بیان کے مطابق کچھ حلقے بھی انتخاب لڑنے کے لیے منتخب کر لیے ہیں۔ فوج بھی اب جنرل(ر) مشرف کو ایک سیاسی فرد کے حوالے سے دیکھے گی جو اپنی حفاظت کا خود ذمے دار ہے اور مشکل وقت میں اپنے ووٹروں سے اپیل کرتا ہے نہ کہ سابق فوجی سپہ سالار ہونے کے ناتے اپنے مسائل کو فوج کی عزت سے جوڑتا ہے۔
وطن واپسی کے بعد جنرل(ر) پرویز مشرف فوج کے کندھے پر رکھ کر سیاسی بندوق نہیں چلا سکیں گے انھیں اپنے اچھے اور برے کاموں کا وزن خود ہی سہارنا ہو گا۔ فوج کو بھی ان سے اتنا فاصلہ رکھنا ہو گا جتنا دوسرے سیاست دانوں سے۔ جب کارگل کا تنازعہ' نواب بگٹی کے قتل کا معاملہ، لال مسجد کیس یا عدلیہ کے سامنے ان کی پیشی ہو گی تو فوج کو اسے ایک سیاسی معاملے کے طور پر لینا ہو گا نہ کہ ادارے کی عزت کے تنازعے کے طور پر۔ اگر عدالت جنرل (ر) مشرف کو اپنے یہاں طلب کرتی ہے تو جی ایچ کیو کو ویسی ہی خاموشی اختیار کرنی ہو گی جیسی یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف کی طلبی پر کی گئی تھی۔
جنرل(ر)پرویز مشرف کے خلاف پرانی فائلیں ضرور کھلیں گی اور شاید کھلنی بھی چاہییں۔ ایوب خان اور جنرل ضیاء کی طرح وہ اقتدار کے بعد احتساب کے لیے غیر حاضر نہیں ہیں بلکہ وہ تو خود چل کر کٹہرے میں آ رہے ہیں مگر یہ احتساب شاید مکمل نہیں ہو گا اگر تمام توجہ جنرل (ر) مشرف پر ہی دی گئی۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے ان کو سیاسی طور پر ایک طویل عرصے قائم رکھا۔
ان سے پوچھے جانے والے سوالات کے چند ایک جواب دینے کے لیے بلائے جانے چاہییں اور اگر جنرل مشرف کے اتحادیوں کی جواب طلبی کا سلسلہ شرع ہو گیا تو ہر پارٹی میں موجود کثیر تعداد میں لوگ بلوائے جانے چاہییں کیوں کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کی کابینہ کے 30, 35 فی صد ممبران پیپلز پارٹی کے پاس ہیں۔ قریب اتنے ہی ق لیگ کے ساتھ ہیں۔ اتنی ہی تعداد میں لوگ ن لیگ میں ہیں اور ایک بڑی تعداد عمران خان کی پارٹی میں موجود ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کا سیاسی قبیلہ ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ اگرچہ وہ خود اس دربار کی طرح ہیں جس کو اپنی جوتی اور پگڑی اب خود ہی سنبھالنی ہے۔