قرارداد پاکستان کا تاریخی پس منظر

قرارداد لاہور کو ہندوؤں نے طنزیہ طور پر قرارداد پاکستان کا نام دے دیا اور بے حد غم و غصے کا اظہار کیا



برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں 23 مارچ 1940 کا دن نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمایندہ جماعت مسلم لیگ نے قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں اپنے ستائیسویں سالانہ اجلاس (منعقدہ لاہور) میں ایک آزاد اور خودمختار مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا تھا تاکہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ ہوسکے اور وہ اپنے دین کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔

مسلمان برصغیر پاک و ہند میں ایک فاتح کی حیثیت سے آئے تھے۔ یہاں اپنی سلطنتیں قائم کرنے کے بعد انھوں نے بڑی رواداری کا مظاہرہ کیا اور مقامی لوگوں کی نہ تذلیل کی اور نہ ہی ان سے اچھوتوں جیسا سلوک کیا۔ دنیا میں ہندوستان واحد ملک ہے جہاں مسلمان آٹھ سو سال حکمران رہے، لیکن نہ تو انھوں نے ہندوؤں کو زبردستی مسلمان بنایا اور نہ ہی ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی، یہی وجہ ہے کہ آٹھ سو سال حکومت کرنے کے باوجود وہ یہاں اقلیت میں رہے۔ آج سے ایک ہزار سال قبل البیرونی ہندوستان آیا تھا۔ اس نے یہاں کے حالات کے متعلق اپنی معرکۃ الآراء کتاب ''کتاب الہند'' میں لکھا ہے کہ ''ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہیں۔

اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ وہ ہم سے ہر لحاظ سے مختلف ہیں اور جو قدریں اور قوموں میں مشترک ہیں وہ ان میں نہیں۔ ہندوؤں کے بہت سے رسم و رواج بھی ہم سے مختلف ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا مذہب بھی ہم سے مختلف ہے اور جن چیزوں پر ہمیں اعتقاد ہے، ان کو وہ نہیں مانتے، وہ غیرملکیوں کو جن میں مسلمان بھی شامل ہیں، کو ملیچھ کے نام سے پکارتے ہیں اور ان سے تعلقات رکھنے کی سخت ممانعت کرتے ہیں، نہ ان سے شادی کرتے ہیں اور نہ ایک ساتھ بیٹھتے ہیں، نہ کھاتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا تعلق رکھتے ہیں''۔

قرارداد لاہور سے پیشتر قائد اعظم نے 9 مارچ 1940 کو مشہور انگریزی ہفت روزہ ٹائم اینڈ ٹائڈ میں واضح طور پر ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں لکھا تھا کہ ''ہندوستان کا سیاسی مستقبل کیا ہے؟ جہاں تک حکومت برطانیہ کا تعلق ہے وہ اپنے اس مقصد کا اعلان کرچکی ہے کہ ہندوستان کو جلدازجلد State of West Minister کے مطابق دولت مشترکہ کے دوسرے ارکان کے برابر آزادی دی جائے گی اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے وہ ہندوستان میں اسی قسم کا جمہوری آئین نافذ کرنا چاہتی ہے جس کا اسے خود تجربہ ہے اور جسے وہ سب سے بہتر سمجھتی ہے۔ اس طرز کے آئین کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو سیاسی جماعت انتخابات میں کامیاب ہو اسی کے ہاتھ میں عنان حکومت ہو۔

یہ ارادہ بظاہر صحیح معلوم ہوتا ہے، لیکن ہندوستان کے مخصوص اور غیر معمولی حالات کو دیکھتے ہوئے نہایت غیر مناسب ہے۔ بات یہ ہے کہ ہندوستان میں حکومت کے اتنے طویل تجربے کے باوجود برطانیہ اس ملک کے حالات سے اچھی طرح واقف نہیں، حتیٰ کہ پارلیمنٹ کے اکثر ممبر بھی اس معاملے میں بالکل بے خبر ہیں، اسی لاعلمی کے باعث اب تک یہ بات برطانیہ کی حکومت اور اس کے عوام کی سمجھ میں نہ آسکی کہ برطانوی طرز کا پارلیمانی آئین ہندوستان کے لیے ہرگز مناسب نہیں۔ برطانوی قوم صحیح معنوں میں ایک یک رنگ اور متحد قوم ہے اور وہاں جس طرز کی جمہوریت رائج ہے وہ اسی قومی یک رنگی اور اتحاد کی بنیاد پر قائم ہے، مگر ہندوستان میں حالات بہت مختلف ہیں اور قومی یک رنگی یہاں مفقود ہے۔

لہٰذا برطانوی طرز کی جمہوریت اس ملک کے لیے بالکل موزوں نہیں۔ ہندوستان کی آئینی الجھنوں کا بنیادی سبب یہی ہے کہ یہاں ناموزوں اور ناموافق طرز حکومت کے قیام پر اصرار کیا جارہا ہے۔''22 مارچ 1940 کو لاہور کے مشہور منٹو پارک میں جسے اب اقبال پارک کہا جاتا ہے، مسلم لیگ کا کل ہند سالانہ اجلاس شروع ہوا۔ اس سے چار روز پیشتر لاہور میں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا، خاکساروں نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلم جلوس نکالا اور حکومت پنجاب نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کرکے متعدد خاکساروں کو شہید کردیا، اس وجہ سے شہر میں کافی کشیدگی پھیل چکی تھی، بعض لوگوں نے قائد اعظم کو جلسہ ملتوی کرنے کا مشورہ دیا، لیکن قائد اعظم نے ان کی رائے سے اتفاق نہیں کیا اور جلسہ مقررہ تاریخ پر منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔

مسلم لیگ کا یہ اجلاس تاریخی لحاظ سے بہت اہم تھا اور اس اجلاس میں ہندوستان کے کونے کونے سے پچاس ہزار سے بھی زائد مندوبین نے شرکت کی۔ اجلاس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی۔ اس موقع پر قائد اعظم نے فی البدیہہ خطبہ صدارت دیا۔ اپنی طویل تقریر میں قائد اعظم نے ملک کے سیاسی حالات کا تفصیلی جائزہ لیا اور کانگریسی لیڈروں سے اپنی گفتگو اور مفاہمت کی کوششوں کی تفصیلات بتائیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کی علیحدہ حیثیت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ''ہندو اور مسلم فرقے نہیں بلکہ دو قومیں ہیں۔ اس لیے ہندوستان میں پیدا ہونے والے مسائل فرقہ وارانہ نہیں بلکہ بین الاقوامی نوعیت کے ہیں۔

ہندوستان کے مسلمان آزادی چاہتے ہیں، لیکن ایسی آزادی نہیں جس میں وہ ہندوؤں کے غلام بن کر رہ جائیں۔ یہاں مغربی جمہوریت کامیاب نہیں ہوسکتی کیونکہ ہندوستان میں صرف ایک قوم نہیں بستی۔ چونکہ یہاں ہندو اکثریت میں ہیں اس لیے کسی بھی نوعیت کے آئینی تحفظ سے مسلمانوں کے مفادات کی حفاظت نہیں ہوسکتی۔ ان مفادات کا تحفظ صرف اس طرح ہوسکتا ہے کہ ہندوستان کو ہندو اور مسلم انڈیا میں تقسیم کردیا جائے۔ ہندو مسلم مسئلے کا صرف یہی حل ہے اگر مسلمانوں پر کوئی اور حل ٹھونسا گیا تو وہ اسے کسی صورت میں بھی قبول نہیں کریں گے''۔

قائد اعظم کی اس تاریخی تقریر سے اگلے روز یعنی 23 مارچ 1940 کو شیر بنگال مولوی فضل الحق نے وہ تاریخی قرارداد پیش کی جسے قرارداد لاہور کہا جاتا ہے جو آگے چل کر قیام پاکستان کی بنیاد قرار پائی۔ اس قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ ''کوئی بھی دستوری خاکہ مسلمانوں کے لیے اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوگا جب تک ہندوستان کے جغرافیائی اعتبار سے متصل وملحق یونٹوں پر مشتمل علاقوں کی حد بندی نہ کی جائے اور ضروری علاقائی ردوبدل نہ کیا جائے اور یہ کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے انھیں خودمختار ریاستیں قرار دیا جائے.

جس میں ملحقہ یونٹ خودمختار اور مقتدر ہوں اور یہ کہ ان یونٹوں کی اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے ان کے صلاح و مشورے سے دستور میں مناسب و موثر اور واضح انتظامات رکھے جائیں اور ہندوستان کے جن علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں ان کے اور دیگر اقلیتوں کے صلاح مشورے سے ان کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کی ضمانت دی جائے''۔

قرارداد لاہور کو ہندوؤں نے طنزیہ طور پر قرارداد پاکستان کا نام دے دیا اور بے حد غم و غصے کا اظہار کیا، لیکن مسلمانوں نے ان کی کوئی پروا نہ کی اور قائداعظم کی قیادت میں رواں دواں منزل مقصود کی طرف بڑھتے رہے۔ انھیں یقین واثق تھا کہ منزل دور نہیں۔ بالآخر قائد اعظم محمد علی جناح کی کوششوں کے نتیجے میں 14 اگست 1947 کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت ''پاکستان'' کا قیام عمل میں آیا۔ پاکستان کا قیام محض ایک تاریخی حادثہ نہ تھا اور نہ ہی سیاسی فتح بلکہ یہ ہندوستان کے مسلمانوں کی اپنے جداگانہ تشخص کو برقرار رکھنے کی خواہش کا ثمر تھا۔ درحقیقت قائد اعظم کی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان بناکر اپنی تہذیب، مذہبی اقدار اور ثقافت کو بچالیا ورنہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کا وہی حشر ہوتا جو اسپین میں مسلمانوں کا ہوا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں