وزیر اور افسر کا طبقاتی فرق
سندھ کے سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے تو خود ہی تسلیم کیا تھا کہ انھوں نے تین لاکھ اسلحے کے لائسنس جاری کیے ہیں
سندھ کی جاتی حکومت میں محکمہ بلدیات اور محکمہ تعلیم میں غیر قانونی بھرتیوں کے آرڈر جاری نہ کرنے والے دو اعلیٰ افسران کو جس طرح ان کے دفاتر میں آکر تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس نے سندھ میں پیپلز پارٹی کی بیڈ گورننس پر ایسا داغ لگادیا ہے اور ثابت کردیا ہے کہ پی پی کے یہ جیالے اپنے مقصد کے لیے جو چاہے کرسکتے ہیں۔ ان دو واقعات نے سرکاری افسروں کو بھی خوفزدہ کردیا ہے تاکہ وہ بااثر جیالوں کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے 5 سال میں جو کچھ غیر قانونی طور پر ہوا وہ اب سندھ اسمبلی کی تحلیل کے بعد منظر عام پر آنا شروع ہوگا تو ایسے ایسے انکشافات سامنے آئیں گے کہ سندھ کے کیا ملک بھر کے عوام حیران رہ جائیں گے۔سندھ میں سرکاری محکموں خصوصاً داخلہ، بلدیات اور تعلیم میں جس طرح بادشاہت قائم کرکے متعلقہ وزیروں نے من مانی سے حکومت کی، ایسا شاید کسی اور صوبے میں نہ ہوا ہو۔ سندھ میں تو پہلے ہی کہا جاتا تھا کہ سندھ میں ایک نہیں چار وزرائے اعلیٰ ہیں جن میں تین کے پاس تو اہم محکمے تھے جب کہ چوتھا تمام محکموں پر حاوی تھا۔
سندھ کے سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے تو خود ہی تسلیم کیا تھا کہ انھوں نے تین لاکھ اسلحے کے لائسنس جاری کیے ہیں، جس کا نتیجہ لیاری میں سب کے سامنے ہے۔ اندازہ لگائیے جن قانون شکن مافیائوں اور انتہا پسند قوتوں نے غیر قانونی اسلحہ خریدا اور اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے وہ آیندہ حکومت کے لیے کتنی ہولناک صورتحال پیدا کرسکتے ہیں۔ سندھ کے دو اہم وزیروں ذوالفقار مرزا اور آغا سراج درانی کا صدر آصف زرداری سے بہت ہی قریبی تعلق رہا ہے۔
یہ دونوں ہی سندھ کی وزارت اعلیٰ کے خواہش مند اور صدر کے بااعتماد ساتھی تھے اور صدر زرداری دونوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ہوں گے یا کوئی سیاسی مصلحت ہوگی کہ ضعیف العمری میں قائم علی شاہ پھر وزیر اعلیٰ بنائے گئے اور ڈاکٹر مرزا کو داخلہ اور آغا سراج کو بلدیات کی اہم وزارتیں ملیں، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا تو جذبات میں آکر حکومت چھوڑ کر متحدہ کی مخالفت میں سندھ کا ہیرو بننا چاہتے تھے مگر پھر ایسے خاموش ہوئے کہ لوگ اب تک حیران ہیں۔
صدر زرداری کے دست راست اور سندھ کے مکمل اور بااختیار وزیر بلدیات آغا سراج درانی نے اپنی حرکت سے سب کو حیران کردیا اور لوگ حیران ہیں کہ شوکت جوکھیو سے ایسا کون سا جرم سرزد ہوگیا تھا جو آغا سراج درانی سے برداشت نہ ہوسکا اور وہ اپنے ایک 18 گریڈ کے ماتحت افسر کو سزا دینے کے لیے خود اس کے دفتر پہنچ گئے اور اپنے پی ایس اور گارڈز کے ذریعے شوکت جوکھیو کو تشدد کے ذریعے ایسا سبق سکھایا کہ اس دن ہر چینل اور اگلے روز اخبارات میں اس وزیر گردی کی خبریں نمایاں تھیں اور شوکت جوکھیو زخمی حالت میں اپنی دھنائی کی خبروں کے ساتھ دیکھے گئے۔
آغا سراج درانی اور شوکت جوکھیو کا تعلق میرے آبائی ضلع شکارپور سے ہے اور میرا دونوں سے تعلق رہا ہے۔ آغا سراج گڑھی یٰسین کے بڑے زمیندار اور ممتاز سیاسی شخصیت آغا صدرالدین کے صاحبزادے ہیں جو طویل عرصہ مسلم لیگ میں رہے اور پھر پی پی میں آکر سندھ اسمبلی کے اسپیکر بھی رہے۔ آغا سراج کا پیپلز پارٹی سے زیادہ آصف علی زرداری سے گہرا قریبی تعلق تھا جس کی وجہ سے وہ 1988 میں بے نظیر حکومت میں بلدیات اور ہاؤسنگ کے وزیر پہلی بار بنے اور بے نظیر کی دوسری حکومت میں بلدیات کے بجائے انھیں تعلیم کی وزارت ملی اور صدر زرداری کے دور میں وہ وزیر اعلیٰ تو نہ بن سکے مگر محکمہ بلدیات کے ایسے بااختیار وزیر تھے جن کی وزارت میں متحدہ بے بس رہی اور بلدیہ عظمیٰ سمیت سندھ کے بلدیاتی اداروں کی تباہی پر متحدہ احتجاج بھی نہ کرسکی۔
شوکت جوکھیو ایک محنت کش شمس الدین کے صاحبزادے ہیں جن کی اہلیہ بیگم شمشاد جوکھیو پیپلز پارٹی کی دیرینہ رکن تھیں اور بھٹو مرحوم کے بعد جب مرد غیر فعال تھے تو انھوں نے ایک غریب گھر سے تعلق کے باوجود پی پی کو زندہ رکھا۔ ہر جمعہ کو دور آمریت میں انھوں نے الف شاہ قبرستان میں خواتین کو جمع کرکے اپنی تحریک جاری رکھی۔ اس وقت آغا سراج درانی کی کوئی مستحکم اور غیر معمولی سیاسی حیثیت نہیں تھی۔ آمریت کے خلاف تحریک میں آپا شمشاد جوکھیو نے جلوس نکالے، گرفتار ہوئیں اور اس وقت ضلع شکارپور کے پیپلز پارٹی کے زمیندار رہنما بھی انھیں اہمیت نہیں دیتے تھے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد پاکستان آئیں تو انھوں نے غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی بیگم شمشاد جوکھیو کو اتنی اہمیت دی کہ وہ ایک روز بیگم جوکھیو کے معمولی گھر میں بھی آئیں اور میری بھی محترمہ سے وہاں پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ محترمہ نے 1988 میں ٹکٹ دے کر بیگم جوکھیو کو خواتین کی مخصوص نشست پر رکن سندھ اسمبلی منتخب کرایا تھا۔ بیگم شمشاد جوکھیو نے اپنی طویل قربانیوں کے ذریعے سیاسی جدوجہد سے اپنا سیاسی مقام بنایا ضرور تھا مگر پی پی کی سیاسی اشرافیہ ان سے غریب ہونے کے باعث حسد کرتی تھی۔
پی پی میں بے لوث کارکنوں سے بے رخی کی درد بھری داستانیں کم نہیں۔ ایک انبار لگا ہے۔ بیگم جوکھیو نے بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں اپنے بیٹے شوکت جوکھیو کو اسسٹنٹ کمشنر مقرر کرایا تھا جو ترقی کرتے کرتے پی پی دور میں گزشتہ سال ڈپٹی کمشنر ایسٹ بنائے گئے مگر نہ چل سکے، مگر انھوں نے سٹی حکومت کے لینڈ محکمہ میں ڈائریکٹر رہ کر خوب مالی ترقی کی اور تشدد کا نشانہ بننے سے دو روز قبل ہی سیکریٹری لوکل بورڈ بنایا گیا تھا اور وہ یقیناً آغا سراج درانی کی منظوری سے ہی مقرر ہوئے ہوں گے۔
مگر انھوں نے نہ جانے آغا سراج درانی کی نافرمانی کی جرأت کیسے کرلی اور ڈیڑھ سو لوگوں کے جاتی حکومت میں غیر قانونی تقرر نامے جاری نہیں کیے اور ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے افسر کی یہ جرأت بڑے زمیندار گھرانے کے بااثر وزیر کو ناگوار گزری اور انھوں نے شوکت جوکھیو کو اس کی حیثیت یاد دلادی کہ وہ سرکاری نوکری کی بدولت آج جو بھی ہے مگر زمیندار وزیر کے برابر نہیں ہے۔
آغا سراج درانی اور شوکت جوکھیو دونوں کے خلاف مقدمات درج ہوگئے۔ آغا سراج درانی اب سابق وزیر ہوکر بھی بہت بااختیار اور صدر مملکت کے دوست ہیں مگر شوکت جوکھیو زخمی ہونے اور اپنی دھنائی کے بعد بھی آغا سراج درانی کا مقابلہ کرسکتا ہے نہ اپنی افسری کے زور پر سابق وزیر کا کچھ بگاڑ سکتا ہے۔ دونوں جیالے ضرور ہیں مگر دونوں کے اسٹیٹس کا نمایاں فرق ہے جس میں جھکنا شوکت جوکھیو کو پڑے گا اور پٹ کر معافی بھی مانگنی ہوگی کیونکہ آغا سراج درانی طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
افسروں کی بڑے لوگوں کے ہاتھوں دھنائی کوئی نئی بات نہیں، یہ طبقاتی فرق ہے جس میں غریب کسی وجہ سے اعلیٰ افسر تو بن جاتا ہے مگر وہ حق پر ہوتے ہوئے بھی بااثر اشرافیہ سے پٹ سکتا ہے، مقابلہ نہیں کرسکتا۔