حکومت کی معاشی ناکامی… مالیاتی اسباب
حکومت نے عوام پر واضح کردیا کہ کڑی شرائط والی کڑوی گولی نگلنی پڑے گی۔
2008 کے دوران عالمی مالیاتی بحران پیدا ہوا۔ اسی سال پاکستان میں انتخابات ہوئے اور نئی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ اگرچہ پاکستان پر عالمی مالیاتی بحران کے اثرات فوری مرتب نہ ہوئے، لیکن چند وجوہات کی بنا پر ملک میں مالیات کی قلت پیدا ہوتی چلی گئی۔ حکومت مالیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے عالمی امداد کی منتظر رہی۔ اس وقت ایک ڈالر 62 روپے کا دستیاب تھا۔
لیکن حکومت کی شاہ خرچیوں، تیل کی بڑھتی ہوئی عالمی قیمتوں، خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافے اور ملک میں ڈالر کی طلب میں اضافے اور بڑے پیمانے پر ڈالرز کی بیرون ملک منتقلی نے ملک میں مالیاتی مسائل پیدا کردیے اور معاشی مسائل گمبھیر ہوتے چلے گئے۔ مالیاتی مسائل کے اسباب پر توجہ نہ دینے کے سبب حکومت اور عوام دونوں معاشی مسائل میں گھرتے چلے گئے۔ حکومت نے اپنے مالیاتی مسائل کا فوری اور انتہائی غیر مناسب حل یہ تلاش کیا کہ مرکزی بینک اور کمرشل بینکوں سے بھاری قرضے حاصل کرنا شروع کردیے۔ اس کے ساتھ ہی بیرونی امداد (ڈالرز) کے حصول کے لیے فرینڈز آف پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
جہاں امریکا نے واضح کردیا کہ پاکستان کو امداد نہیں بلکہ آئی ایم ایف سے اس کی کڑی شرائط کے ساتھ سودی قرضہ حاصل کرنا پڑے گا۔ حکومت نے عوام پر واضح کردیا کہ کڑی شرائط والی کڑوی گولی نگلنی پڑے گی۔ اسی سے معیشت کی گرتی ہوئی صحت کو افاقہ ہوگا۔ آئی ایم ایف کے سخت ترین شرائط کے ساتھ سودی قرضہ لینے سے معیشت صحت مند ہوجائے گی اور پھر بیمار نہ ہوگی۔ یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ پانچ سال بعد ایک دفعہ پھر یہ نوبت آگئی ہے کہ بیمار معیشت کی بحالی کے لیے قسطوں اور سود کی ادائیگی کے لیے ایک دفعہ پھر آئی ایم ایف سے قرض لینا پڑے گا۔ گویا پانچ سال قبل قرض کو علاج بتایا گیا تھا۔ اب پھر مرض کی شدت میں اضافہ ہونے کے بعد ایک دفعہ پھر سودی قرض کی کڑوی گولی کو علاج قرار دیا جارہا ہے۔
ابھی قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے میں چند گھنٹے باقی تھے کہ اسمبلی میں یہ آواز گونجی کہ 1999 میں حکومتی قرضے 2 ہزار ارب روپے تھے پھر 2007 کے آخر تک یہ قرضے 6 ہزار ارب روپے تک جاپہنچے اور اب 5 سال بعد یہ 14 ہزار ارب روپے سے زائد ہوچکے ہیں۔ عالمی سیاست کے تناظر میں پاک ایران گیس پائپ لائن عالمی سیاسی معیشت کی نذر ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس معاہدے پر امریکا کی عقابی نگاہیں آئی ایم ایف کو اشارہ کر رہی ہیں کہ وہ اپنی شرائط کو مزید سخت کردے۔ اس سے قبل بھی آئی ایم ایف کے مطالبے پر عوام پر بجلی بم گرائے جاتے رہے ہیں۔
وقتاً فوقتاً پٹرول بم کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ عوام پر سبسڈی کے دروازے بند کیے جاتے رہے۔ اور مہنگائی بڑھتی رہی۔ عوام اس کی چکی میں پستے رہے۔ حکومت کی معاشی ناکامی کا ایک اور مالیاتی سبب یہ بھی ہے کہ حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر سوا کروڑ ڈالر سے زائد غیرملکی کرنسی اسمگلنگ کی جارہی ہے۔ ایک غیرملکی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے 10 سال میں ڈھائی ارب ڈالرز غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کیے گئے۔ بھارت اور دیگر ملکوں میں معمولی رقم بھی بیرون ملک منتقل کرنے سے قبل چھان بین کی جاتی ہے۔ ذرایع آمدنی بتاکر ہی مخصوص حد تک رقم بیرون ملک لے کر جاسکتے ہیں۔
گزشتہ 60 سال کے مقابلے میں پچھلے 5 سال میں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ 2007 کے آخر تک ڈالر 58 روپے کا تھا اب تقریباً 100 روپے کا ہوچکا ہے۔ اگر اسے کمزور مالیاتی انتظام سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ انھی مالیاتی اسباب کی بناء پر حکومت کی معاشی کارکردگی سخت تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کے باعث امپورٹیڈ اشیا کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہا۔ پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جہاں امپورٹیڈ اشیا کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ حتیٰ کہ حکومت غیر ضروری اشیا اور اشیائے تعیشات کی درآمد کو کم کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنے میں تساہل سے کام لیتی رہی۔
پانچ سال کے دوران حکومت کی غیر واضح معاشی پالیسی اور ملک میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور توانائی کی قلت کے سبب غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوگئی۔ 2008 میں غیرملکی سرمایہ کاری کا حجم 3 ارب 70 کروڑ ڈالر تھا جو 2009 میں 2 ارب 15 کروڑ ڈالر اور موجودہ مالی سال میں محض 52 کروڑ ڈالرز تک رہ گیا ہے۔ موجودہ مالی سال کے بجٹ میں سے 926 ارب روپے قرضوں کی قسط اور سود کی ادائیگی کے لیے رکھے گئے ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں جتنی آمدنی ہوتی ہے اس کا 42 فیصد سے زائد سود اور قرض کی مد میں دیا جارہا ہے۔
ادھر ملک میں صرف 8 لاکھ افراد ٹیکس دے رہے ہیں، جب کہ متعلقہ محکمے کا کہنا ہے کہ 31 لاکھ ٹیکس نادہندگان کی شناخت کرلی گئی ہے۔ ہنگامی بنیادوں پر اگر مزید 8 لاکھ افراد کو بھی ٹیکس ادا کرنے والوں میں شامل کرلیا جاتا ہے تو آمدنی میں متاثر کن حد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے معاشی مسائل کا ایک سبب ٹیکس کی کم وصولی بھی ہے۔ حکومتی اخراجات تو بڑھتے چلے جارہے ہیں لیکن آمدنی کے ذرایع کم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ حکومت اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مرکزی بینک سے قرض لے رہی ہے نوٹ چھاپے چلی جارہی ہے جب کہ نوٹ چھاپنے کی جو شرائط ہیں ان کا بالکل بھی خیال نہیں رکھا جارہا۔
اس طرح نوٹ چھپ رہے ہیں اور اشیا کی طلب بڑھ رہی ہے لیکن رسد میں اضافہ نہیں ہورہا۔ اس طرح طلب و رسد میں عدم توازن کے باعث مہنگائی کا گراف بڑھتا چلا جارہا ہے۔ پیداوار میں اضافے کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ حکومت تجارتی بینکوں سے قرض لیے چلی جارہی تھی جس کے باعث بینک بغیر کسی رسک کے زبردست منافع میں چل رہے تھے اور کارخانہ داروں، صنعتکاروں کو قرض فراہمی کے لیے رقوم کی کمی اور بینکوں کی طرف سے عدم دلچسپی کے عوامل نے پیداوار کو مزید کم کردیا۔ نیز رہی سہی کسر توانائی کی قلت نے پوری کردی۔
جس سے ایک طرف لوگوں میں بیروزگاری پھیلتی رہی، لوگوں کی آمدنی کم ہونے کے باعث ان کی قوت خرید متاثر ہوتی رہی یوں دن بدن لاکھوں افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے جاتے رہے۔ اسی دوران عالمی منڈی میں گندم اور دیگر اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافے نے پاکستان کے لیے مالیاتی مسائل کے ساتھ ساتھ گندم اور خوراک کی دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافے نے منفی اثرات مرتب کیے۔ آٹا 45 روپے فی کلو تک جاپہنچا اور عوام کی دسترس سے باہر ہوگیا۔ جس نے ملک میں بھوک اور غذائی قلت کو جنم دیا اور اس طرح کی رپورٹیں منظر عام پر آنا شروع ہوگئیں کہ لاکھوں بچے شدید غذائی کمی کا شکار ہوگئے ہیں۔
ادھر غیرملکی سرمایہ کار آتے ہیں تو انھیں کرپشن، رشوت ستانی، توانائی کی قلت، بدامنی اور دیگر مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے لہٰذا وہ راہ فرار اختیار کرتے ہوئے ملکی سرمایہ کار کو بھی لے اڑتے ہیں۔ جس سے ملک میں روزگار کے مواقع گھٹتے چلے جارہے ہیں اور بیروزگاری نے عوام کے لیے شدید معاشی مسائل پیدا کردیے ہیں۔ کم ازکم ملکی صنعتکاروں کو سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ اپنی صنعتوں کو بیرون ملک منتقل نہ کریں، نگراں حکومت اور آیندہ آنے والی حکومت کو پاکستان کے معاشی مسائل کے حل کے لیے سابقہ حکومت کی معاشی ناکامی کا جائزہ لیتے ہوئے مالیاتی اسباب کو مدنظر رکھنا ضروری ہوگا۔
ikhalil2012@hotmail.com
لیکن حکومت کی شاہ خرچیوں، تیل کی بڑھتی ہوئی عالمی قیمتوں، خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافے اور ملک میں ڈالر کی طلب میں اضافے اور بڑے پیمانے پر ڈالرز کی بیرون ملک منتقلی نے ملک میں مالیاتی مسائل پیدا کردیے اور معاشی مسائل گمبھیر ہوتے چلے گئے۔ مالیاتی مسائل کے اسباب پر توجہ نہ دینے کے سبب حکومت اور عوام دونوں معاشی مسائل میں گھرتے چلے گئے۔ حکومت نے اپنے مالیاتی مسائل کا فوری اور انتہائی غیر مناسب حل یہ تلاش کیا کہ مرکزی بینک اور کمرشل بینکوں سے بھاری قرضے حاصل کرنا شروع کردیے۔ اس کے ساتھ ہی بیرونی امداد (ڈالرز) کے حصول کے لیے فرینڈز آف پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
جہاں امریکا نے واضح کردیا کہ پاکستان کو امداد نہیں بلکہ آئی ایم ایف سے اس کی کڑی شرائط کے ساتھ سودی قرضہ حاصل کرنا پڑے گا۔ حکومت نے عوام پر واضح کردیا کہ کڑی شرائط والی کڑوی گولی نگلنی پڑے گی۔ اسی سے معیشت کی گرتی ہوئی صحت کو افاقہ ہوگا۔ آئی ایم ایف کے سخت ترین شرائط کے ساتھ سودی قرضہ لینے سے معیشت صحت مند ہوجائے گی اور پھر بیمار نہ ہوگی۔ یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ پانچ سال بعد ایک دفعہ پھر یہ نوبت آگئی ہے کہ بیمار معیشت کی بحالی کے لیے قسطوں اور سود کی ادائیگی کے لیے ایک دفعہ پھر آئی ایم ایف سے قرض لینا پڑے گا۔ گویا پانچ سال قبل قرض کو علاج بتایا گیا تھا۔ اب پھر مرض کی شدت میں اضافہ ہونے کے بعد ایک دفعہ پھر سودی قرض کی کڑوی گولی کو علاج قرار دیا جارہا ہے۔
ابھی قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے میں چند گھنٹے باقی تھے کہ اسمبلی میں یہ آواز گونجی کہ 1999 میں حکومتی قرضے 2 ہزار ارب روپے تھے پھر 2007 کے آخر تک یہ قرضے 6 ہزار ارب روپے تک جاپہنچے اور اب 5 سال بعد یہ 14 ہزار ارب روپے سے زائد ہوچکے ہیں۔ عالمی سیاست کے تناظر میں پاک ایران گیس پائپ لائن عالمی سیاسی معیشت کی نذر ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس معاہدے پر امریکا کی عقابی نگاہیں آئی ایم ایف کو اشارہ کر رہی ہیں کہ وہ اپنی شرائط کو مزید سخت کردے۔ اس سے قبل بھی آئی ایم ایف کے مطالبے پر عوام پر بجلی بم گرائے جاتے رہے ہیں۔
وقتاً فوقتاً پٹرول بم کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ عوام پر سبسڈی کے دروازے بند کیے جاتے رہے۔ اور مہنگائی بڑھتی رہی۔ عوام اس کی چکی میں پستے رہے۔ حکومت کی معاشی ناکامی کا ایک اور مالیاتی سبب یہ بھی ہے کہ حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر سوا کروڑ ڈالر سے زائد غیرملکی کرنسی اسمگلنگ کی جارہی ہے۔ ایک غیرملکی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے 10 سال میں ڈھائی ارب ڈالرز غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کیے گئے۔ بھارت اور دیگر ملکوں میں معمولی رقم بھی بیرون ملک منتقل کرنے سے قبل چھان بین کی جاتی ہے۔ ذرایع آمدنی بتاکر ہی مخصوص حد تک رقم بیرون ملک لے کر جاسکتے ہیں۔
گزشتہ 60 سال کے مقابلے میں پچھلے 5 سال میں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ 2007 کے آخر تک ڈالر 58 روپے کا تھا اب تقریباً 100 روپے کا ہوچکا ہے۔ اگر اسے کمزور مالیاتی انتظام سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ انھی مالیاتی اسباب کی بناء پر حکومت کی معاشی کارکردگی سخت تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کے باعث امپورٹیڈ اشیا کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہا۔ پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جہاں امپورٹیڈ اشیا کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ حتیٰ کہ حکومت غیر ضروری اشیا اور اشیائے تعیشات کی درآمد کو کم کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنے میں تساہل سے کام لیتی رہی۔
پانچ سال کے دوران حکومت کی غیر واضح معاشی پالیسی اور ملک میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور توانائی کی قلت کے سبب غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوگئی۔ 2008 میں غیرملکی سرمایہ کاری کا حجم 3 ارب 70 کروڑ ڈالر تھا جو 2009 میں 2 ارب 15 کروڑ ڈالر اور موجودہ مالی سال میں محض 52 کروڑ ڈالرز تک رہ گیا ہے۔ موجودہ مالی سال کے بجٹ میں سے 926 ارب روپے قرضوں کی قسط اور سود کی ادائیگی کے لیے رکھے گئے ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں جتنی آمدنی ہوتی ہے اس کا 42 فیصد سے زائد سود اور قرض کی مد میں دیا جارہا ہے۔
ادھر ملک میں صرف 8 لاکھ افراد ٹیکس دے رہے ہیں، جب کہ متعلقہ محکمے کا کہنا ہے کہ 31 لاکھ ٹیکس نادہندگان کی شناخت کرلی گئی ہے۔ ہنگامی بنیادوں پر اگر مزید 8 لاکھ افراد کو بھی ٹیکس ادا کرنے والوں میں شامل کرلیا جاتا ہے تو آمدنی میں متاثر کن حد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے معاشی مسائل کا ایک سبب ٹیکس کی کم وصولی بھی ہے۔ حکومتی اخراجات تو بڑھتے چلے جارہے ہیں لیکن آمدنی کے ذرایع کم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ حکومت اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مرکزی بینک سے قرض لے رہی ہے نوٹ چھاپے چلی جارہی ہے جب کہ نوٹ چھاپنے کی جو شرائط ہیں ان کا بالکل بھی خیال نہیں رکھا جارہا۔
اس طرح نوٹ چھپ رہے ہیں اور اشیا کی طلب بڑھ رہی ہے لیکن رسد میں اضافہ نہیں ہورہا۔ اس طرح طلب و رسد میں عدم توازن کے باعث مہنگائی کا گراف بڑھتا چلا جارہا ہے۔ پیداوار میں اضافے کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ حکومت تجارتی بینکوں سے قرض لیے چلی جارہی تھی جس کے باعث بینک بغیر کسی رسک کے زبردست منافع میں چل رہے تھے اور کارخانہ داروں، صنعتکاروں کو قرض فراہمی کے لیے رقوم کی کمی اور بینکوں کی طرف سے عدم دلچسپی کے عوامل نے پیداوار کو مزید کم کردیا۔ نیز رہی سہی کسر توانائی کی قلت نے پوری کردی۔
جس سے ایک طرف لوگوں میں بیروزگاری پھیلتی رہی، لوگوں کی آمدنی کم ہونے کے باعث ان کی قوت خرید متاثر ہوتی رہی یوں دن بدن لاکھوں افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے جاتے رہے۔ اسی دوران عالمی منڈی میں گندم اور دیگر اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافے نے پاکستان کے لیے مالیاتی مسائل کے ساتھ ساتھ گندم اور خوراک کی دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافے نے منفی اثرات مرتب کیے۔ آٹا 45 روپے فی کلو تک جاپہنچا اور عوام کی دسترس سے باہر ہوگیا۔ جس نے ملک میں بھوک اور غذائی قلت کو جنم دیا اور اس طرح کی رپورٹیں منظر عام پر آنا شروع ہوگئیں کہ لاکھوں بچے شدید غذائی کمی کا شکار ہوگئے ہیں۔
ادھر غیرملکی سرمایہ کار آتے ہیں تو انھیں کرپشن، رشوت ستانی، توانائی کی قلت، بدامنی اور دیگر مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے لہٰذا وہ راہ فرار اختیار کرتے ہوئے ملکی سرمایہ کار کو بھی لے اڑتے ہیں۔ جس سے ملک میں روزگار کے مواقع گھٹتے چلے جارہے ہیں اور بیروزگاری نے عوام کے لیے شدید معاشی مسائل پیدا کردیے ہیں۔ کم ازکم ملکی صنعتکاروں کو سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ اپنی صنعتوں کو بیرون ملک منتقل نہ کریں، نگراں حکومت اور آیندہ آنے والی حکومت کو پاکستان کے معاشی مسائل کے حل کے لیے سابقہ حکومت کی معاشی ناکامی کا جائزہ لیتے ہوئے مالیاتی اسباب کو مدنظر رکھنا ضروری ہوگا۔
ikhalil2012@hotmail.com